السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
نوازش و شفقت کا طلب گار
پچھلے ہفتے آپ نے بندے کا آرٹیکل شائع کیا، جس پر بندہ آپ کا بےحد ممنون اور آپ کی ’’درازیٔ عمر‘‘ کے لیے دُعاگو ہے۔ سنڈے میگزین میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ضمن میں ’’خاتم الانبیاء، سرورِکونین ﷺ کا اسوۂ حسنہ‘‘ اور’’بعداز خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر‘‘ میں نبی کریمؐ کے اخلاق و اوصاف کو کُوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی۔
دونوں تحریریں بلاشبہ بڑی جان دار تھیں۔ رستم علی خان کی کاوش ’’گورکھ ہل اسٹیشن‘‘ کافی معلوماتی تھی۔ حکومتِ سندھ کو اس پُرفضا مقام کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ’’اظہار محبت‘‘، ’’مٹھی میں دل‘‘ اور ’’سُرخ ستارے‘‘ بھی لاجواب نگارشات ٹھہریں۔ ’’پنجابی مہینہ اسوج‘‘ اور ’’میرے والدِ محترم‘‘ کے عنوانات سے دو تحریریں خدمت میں ارسال کررہاہوں اورآپ کی نوازش و شفقت کا طلب گار ہوں۔ (بابر سلیم خاں، سلامت پورہ، لاہور)
ج : انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری نوازش و شفقت مُلک بھر کے قارئین کے لیے یک ساں ہو۔ آپ اگر اندھا دھند تحریریں بھیجتے ہیں، تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر ہفتے آپ کی کوئی نہ کوئی تحریر ضرور ہی شایع ہو۔ جب کہ آپ سے متعدّد بار درخواست کی گئی ہے کہ جب تک سابقہ تحریروں سے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہوجائے، نئی ہرگز نہ بھیجیں۔ اب بھی اس پوری کھیپ میں سے جو لائقِ اشاعت ہوں گی، آپ کے بغیر کہے شایع کردی جائیں گی۔
گڑے مُردے نہ اکھاڑیں
’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط میں3ماہ پہلے کے جریدے ’’عیدالاضحیٰ ایڈیشن‘‘ پر تبصرہ ہو رہا تھا، حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے پہلے کے مضامین پر تبصرہ کیا جائے۔ منور مرزا امریکی انتخابات میں کمیلا ہیرس کی نام زدگی کا بتا رہے تھے، تو جمہوریت کا توحُسن ہی یہ ہےکہ بڑے چھوٹے، امیر غریب، کالے گورے کا کوئی تصوّرنہیں ہوتا۔ ہماری طرح نہیں کہ سارے اہم عہدے، مراعات صرف بڑے خاندانوں کے لیے ہیں۔ فرّخ شہزاد نے مُلک میں پولیو کی صُورتِ حال کے حوالے سے خصوصی ’’انٹرویو‘‘ کیا۔
محمّد ارسلان فیاض بلوچستان کی خواتین ایم این ایز، ایم پی ایز کا تعارف کروا رہے تھے، بہت ہی اچھا لگا۔ ماڈل اقراء سے متعلق یہی کہہ سکتی ہوں ؎ جھیلوں جیسی آنکھوں والی… تم بے حد گہری لگتی ہو۔ حسن عباسی نے حافظ شیرازی کی بابت بتایا اور کتابوں پر تبصرے میں تو منور راجپوت ایکسپرٹ ہیں۔ عشرت جہاں نے اظہارمحبت کے طریقوں سےآگاہی دی۔ ’’بزمِ خطوط‘‘ میں رونق افروز برقی، صفدر خان ساغر، سید عابد علی، تجمل حسن مرزا، پرنس افضل شاہین، مریم طلعت اور نواب زادہ بے کار ملک رونق افروز تھے۔ آخر میں ایک بار پھر کہوں گی کہ صرف تازہ ہفتہ وار جریدے پر تبصرہ کیا کریں، گڑے مُردے نہ اُکھاڑا کریں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّرگڑھ)
ج: ہمارا خیال ہے کہ آپ کا شمار بھی اُن ہی لوگوں کی کیٹیگری میں ہوتا ہے، جو بس اپنی ہی کہے جاتے ہیں۔ کسی دوسرے کی سُننے، سمجھنے کا قطعاً تردّد نہیں فرماتے۔ پہلی بات تو یہ کہ باقاعدہ آپ کو مخاطب کرکے متعدد بار درخواست کی گئی ہے کہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں۔ یہ جو آپ ایک صفحے پر اِس قدر گنجلک تحریر رقم کرتی ہیں کہ باقاعدہ الفاظ کی سانس رک رہی ہوتی ہے، تو اگر ایک سطر چھوڑ کر لکھیں اور ایک عدد کاغذ مزید استعمال کرلیں، تو بخدا مُلکی خزانے پر ہرگز کوئی بوجھ نہیں پڑےگا۔
دوسری بات یہ کہ خطوط کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور ہمارے صفحات کی تعداد محدود ہے۔ محض ایک ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بمشکل چند خطوط ہی سما پاتے ہیں۔ نتیجتاً ڈاک جمع ہوتی رہتی ہے اور باری باری خطوط کی اشاعت میں بھی دو سے ڈھائی ماہ لگ ہی جاتے ہیں۔ اب آپ اپنا خط ہی دیکھ لیں، آج جب اس کی اشاعت کی باری آئی ہے، تو نومبر کا تیسرا ہفتہ ہے، اور یہ تبصرہ ستمبر کے پہلے شمارے پر ہے۔ ایک سے دو ہفتے پرانے شمارے پر تبصرے کی اشاعت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اِس سے زیادہ وقت تو ہم تک خط پہنچنے میں لگ جاتا ہے۔
حاضری بھلی لگ رہی ہے
تازہ سنڈے میگزین میں عبدالستار ترین کی ’’رپورٹ‘‘ بہت پسند آئی۔ اوستہ محّمد کی سیم نالے جیسی کرپشن اور نااہلی کی داستانیں تو پورے مُلک میں پھیلی ہوئی ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے منور مرزا کی تحریر بہت اچھی لگی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کا فیصلہ بےحد پسند آیا اور امریکا سے قرات نقوی کی مسلسل حاضری بہت بھلی لگ رہی ہے۔ (رونق اوروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ویسے قرات کی حاضری آپ سے زیادہ ’’مسلسل‘‘ نہیں ہے۔
کسی اور دن کیوں نہیں؟
’’سنڈے میگزین‘‘ کا نام سنڈے میگزین کیوں رکھا گیا ہے۔ اگر تو اتوار کو شائع ہونے کی وجہ سے اس کا نام سنڈے میگزین ہے، تو پھر ماضی میں جو مڈ ویک میگزین شائع ہوتا تھا، اس کانام ’’وینس ڈے میگزین‘‘ کیوں نہیں تھا۔ ویسے بھی اتوار کے دن ہمیں اور بھی کئی کام ہوتے ہیں، تو سنڈے میگزین اب کسی اور دن شائع کیا کریں۔ پچھلے25 برسوں سے آخر یہ اتوار ہی کو کیوں شائع ہورہا ہے۔ وقت بدل گیا ہے، آپ بھی اپنی سوچ اور انداز بدلیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: آپ یوں کریں۔ اب اپنا نام بے کار ملک سے تبدیل کرکے بہت بے کار ملک یا سر درد ملک رکھ لیں۔ بخدا اب تو یہ اونگیاں بونگیاں برداشت سے بالکل ہی باہر ہوگئی ہیں۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے…
روزنامہ جنگ اپنے ساتھ سونے کے کمرے میں لایا اور چارپائی پر بیٹھتے ہی ورق گردانی شروع کردی کہ اچانک نظر ’’سنڈے میگزین‘‘ پر پڑی۔ دیکھا تو سرِورق پر ایک ایسے معزز و محترم مقام کی تصویر تھی، جس کے حُسن و جمال، عظمت و تقدّس کے آگے دنیا کے سارے پُرعظمت اور حسین ترین محلات بھی ہیچ ہیں اور کیوں نہ ہوں، یہ تمام جہانوں کے سردار حضرت محمّد ﷺ کے روضۂ مبارک کی تصویر تھی، جس کےسبز گبند کی رعنائی آنکھوں کو نُور، دلوں کو سکون و سرور بخشتی ہے۔
جس کے فلک بوس، بلند وبالا جگمگاتے مینار رفعت و بلندی کا درس دیتے ہیں۔ پہلی نگاہ میں آنکھیں جم کر رہ گئیں۔ دل سوال پر سوال کررہا تھا، کیا یہ وہی میگزین ہے، جس کے سرِورق پر بے حجاب دوشیزائوں کی تصویریں جگمگاتی اور نگاہیں شرم سے جُھکی جاتی ہیں؟ کیا یہ اُسی میگزین کا سرِورق ہے، جس نے ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی خصوصی اشاعت میں بھی بے نقاب ماڈلز کی تصاویر سے آراستہ ہوکہ گویا ’’یومِ حجاب‘‘ کا مذاق اُڑایا تھا؟ کیا یہ وہی میگزین ہے، جس کے سرِورق کی دوسری جانب اسلامی صفحہ شائع کرکے دینی مضامین کی بھی توہین کی جاتی ہے۔
کافی عرصے سے بہت کچھ لکھنے کا اراددہ باندھ رہا تھا۔ کبھی کثرتِ مشاغل سدِراہ بن جاتی، تو کبھی یہ فکر قلم اُٹھانے نہیں دیتی کہ روایتی بےثمر تبصرہ کرنے سے نہ لکھنا بہتر ہے۔ آج بھی جو کچھ تحریر کر رہا ہوں، صرف اس غرض سے کہ شمارے کے سرِورق کے لیے ایک عظیم تصویر کے انتخاب پر دادِ تحسین دے سکوں، نیز، آئندہ بھی حرام تصاویر سے اجتناب کی نصیحت کروں۔ کیا ہی خُوب ہو، اگر اسی روایت کو برقرار رکھا جائے اور مقدّس مقامات کی تصاویر کو جریدے کی شناخت و پہچان بنادیا جائے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اندازِبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے… شاید کہ اُتر جائے، تِرے دل میں مِری بات۔ (عبداللہ فاروق، لورالائی، بلوچستان)
ج: اندازِ بیاں تو گرچہ آپ کا بالکل بھی شوخ نہیں ہے، لیکن لگتا ہے، شاید ماڈلز کی تصاویر ہی کے سبب آپ ’’سنڈے میگزین‘‘ سے باقاعدہ پردہ فرماتے رہے ہیں۔ کیوں کہ روضۂ رسول ﷺ کی تصویر تو پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ربیع الاول ایڈیشن کا سرِورق ہوتی ہے۔ اِسی طرح ’’عاشورۂ محرم ایڈیشن‘‘ میں روضۂ امام حسینؓ کی تصویر کی اشاعت بھی ہماری سال ہا سال کی روایت ہے۔ رہی بات، حرام اور حلال سرورق کی، تو اِس کی وضاحت بھی اتنی بارکی جا چُکی ہے کہ اب تو یہ بات بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف لگتی ہے۔ فی الحال کے لیےصرف اتنا کہ یہ جریدہ ہمارے گھر سے نہیں نکلتا۔ ہم ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اورمالکان کی پالیسز پرعمل درآمد کے پابند ہیں۔
بیویوں پر لطائف…!!
’’سنڈے میگزین‘‘ میں رونق افروز برقی کے خط کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’جی ہاں! مَردوں سے بیویوں پر لطائف جتنے مرضی بنوا لیں، اُن کی بےلوث خدمات، اَن گنت قربانیوں کوسراہنا، خراجِ تحسین پیش کرنا گویا اُن کی مردانگی کے خلاف بات ہے۔‘‘ یہ سراسر الزام ہے، سارے شوہر ایک جیسے نہیں ہوتے اور بعض تو اپنی بیویوں کی برملا تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ ’’میری بیوی ایک موضوع پر چار، چار گھنٹے بول لیتی ہے۔‘‘
’’یہ کون سی بڑی بات ہے، میری بیوی بغیر کسی موضوع کے چار، چار دن بولتی رہتی ہے۔‘‘ دوست نے جواباً وضاحت کی۔ یہی نہیں، بیویوں میں اور بھی بے شمار خُوبیاں ہوتی ہیں، ایک اور صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ ’’مَیں ایک ایسے جادوگر کو جانتا ہوں، جو دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے روپیا غائب کردیتا ہے۔‘‘ ’’اِس میں جادوگری کی کیا بات ہے، میری بیوی بھی یہی کام نہایت عُمدگی سے کرتی ہے۔‘‘
دوست نے جواب میں کہا۔ ایک شوہر نے اپنی بیوی کی خُوبیاں گنواتے ہوئے اپنے دوست کو بتایا کہ ’’میری بیوی میں ایک خاص بات ہے کہ وہ وقت سے دس سال آگے ہے۔‘‘ ’’تمہیں اِس کا اندازہ کیسے ہوا؟‘‘ دوست نےپوچھا۔ ’’اندازہ کیسے نہ ہوتا، وہ میری 2034ء تک کی تن خواہ خرچ کرچُکی ہے۔‘‘ اُس نے وضاحت کی۔ یہی نہیں، بعض مرد اپنی بیویوں سے ٹُوٹ کر پیار کرتے ہیں، اُن کی جدائی قطعاً برداشت نہیں کرسکتے۔
ایسے ہی ایک شوہر کی بیوی بسترِ مرگ پر تھی اور وہ اس کی پٹّی سے لگا بیٹھا تھا۔ بیوی نے اُسے دیکھتے ہوئے بڑے کرب سے پوچھا۔ ’’میرے مرنے کے بعد تم کیا کروگے؟‘‘ ’’مَیں پاگل ہوجاؤں گا۔‘‘ شوہر نے جواب دیا۔ ’’نہیں، تم دوسری شادی کرلو گے۔‘‘ بیوی نے جتلایا۔ ’’ہرگز نہیں، اب اتنا بھی پاگل نہیں ہوں گا۔‘‘ وہ بولا۔ (محمد عارف قریشی، بھکر)
ج: مطلب، اِن لطیفوں پر ہنسنا ہے…؟؟ بہرکیف، ہمارے کہے پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے کا شکریہ۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
بڑے دنوں سے آپ کی،بزم کے ساتھیوں کی یاد ستا رہی تھی، مگر ہر بار مصروفیات آڑے آجاتیں۔ سوچتی،اس ہفتےضرورمحبّت نامہ لکھوں گی، مگر ہفتہ گزرنے کا احساس اُس وقت ہوتا، جب نیا شمارہ ہاتھ میں آجاتا۔ اِس دوران بہت سے میگزین اور اُن کے قابلِ ذکر مضامین بھی ذہن سےمحوہوگئے، جن سے متعلق سوچا تھا کہ ضرور تبصرہ کروں گی۔ وہ کیا ہےکہ ؎ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں…بہرحال، جریدہ ہاتھوں میں ہے۔
سرِورق کچھ الگ سا ہے، صنفِ نازک کی جگہ، گبھروجوان ایک دوسرے کے کاندھے پرہاتھ رکھے خاصے جچ رہے ہیں۔ پھر’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر بھی چھائے نظر آئے، تو دفعتاً ہمیں نواب زادہ بے کار ملک کی دیرینہ اوربقول آپ کے’’کبھی نہ پوری ہونے والی‘‘خواہش یاد آگئی۔ مَردوں اوراُن کے ملبوسات سے متعلق بھی آپ کا رائٹ اَپ کمال تھا۔
اندازہ ہوا کہ آپ جتنا اچھا خواتین کے لیے لکھتی ہیں، مَردوں کےلیےبھی لکھ سکتی ہیں۔ پھراشعار کا تڑکا، جوتحریر کو چار چاند لگاتا ہے، اُس کے تو کیا ہی کہنے۔ ؎ وہ خوش لباس بھی، خوش دِل بھی، خوش ادا بھی ہے… مگر وہ ایک ہے کیوں، اُس سےیہ گلہ بھی ہے۔
واہ واہ!! اِس بار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی نے ہجرت نبوی ﷺ اور سنِ ہجری کے آغاز سے متعلق بےحد معلوماتی، تفصیلی مضمون لکھا اور وہ بھی تاریخی حوالہ جات کےساتھ۔، بےحد شکریہ کہ اِس دَور ابتلاء میں ’’سنڈے میگزین‘‘ نے ہماری معلومات میں اضافے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے، وہ بس اِسی کا خاصّہ ہے۔ ارے ہاں، یاد آیا، آج کل کوئٹہ سے وحید زہیر کے بلوچستان کی چیدہ چیدہ شخصیات سے لیےگئےمنفرد انٹرویوز بھی چھائے ہوئے ہیں۔
جیسا کہ پچھلےدنوں ظفر معراج کا ایک سچّا، کھرا انٹرویو پڑھ کے بہت مزہ آیا۔ جب کہ اس شمارے میں شاعر و ادیب قاضی عبدالحمید شیرزاد سے بلوچستان کے دیرینہ مسائل پر ہونے والی گفتگو بھی لاجواب ہے۔ اےکاش! ایسےمخلص، وطن دوست لوگوں کی قدر ہو۔ ’’کینگروز کے دیس‘‘ کی سیر بھی خُوب رہی۔ اِسی بہانے ہم نے بھی گھر بیٹھے سڈنی کی سیر کر لی۔ ویسے مختلف مُلکوں کے سفرناموں میں وہاں کی ترقی و خوش حالی، نظم وضبط، صفائی ستھرائی اورعوامی سہولتوں سے متعلق پڑھ کر اپنی کم مائیگی،تنزلی کا احساس دوچند ہوجاتا ہے۔
پچھلے 77 سالوں میں ہم نے سوائے کرپشن، بددیانتی اور کچے پکّے کے ڈاکوؤں کو پروان چڑھانے کے کیا تیر مارا ہے۔ اللہ ہمارے حال پررحم فرمائے۔ حسن عباسی کا ’’فارسی زبان کے سات عظیم شعراء‘‘ بہت ہی دل چسپ اور معلوماتی سلسلہ ہے اور منفرد بھی ہے کہ اِس سے پہلے ان شعراء سےمتعلق تفصیلاً پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کا افسانہ ’’شیشۂ دل‘‘ اچھا لگا، غالباً ڈاکٹر صاحبہ نےافسانہ پہلی بارلکھا۔ اوراب آتی ہوں، اپنی پسندیدہ بزم ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر، تو بھئی، شہزادہ صاحب نے تو لگتا ہے Permanent ہی مسند سنبھال ہی ہے۔
شُکر، اِس بارعشرت جہاں کی چٹھی جگمگاتی دیکھی۔سچ ہے،’’خالی کرسی کون چھوڑتا ہے؟‘‘ اور ہاں، پچھلے کسی جریدےمیں شاہدہ تبسّم نے جس طرح ’’استانی جی‘‘ بن کر آپ کی کلاس لی، ہمیں بہت ہی بُرا لگا۔ کوئی بھی کسی سے متعلق ایسی گفتگو کیسے کرسکتا ہے، اُن کویہ حق کس نے دیا؟ بہرکیف، سلام ہے آپ پرکہ نہایت تحمّل و بردباری کا مظاہرہ کیا۔ اُن کا نہ صرف پورا خط شائع کیا بلکہ ایک ایک الزام کا مدلل جواب بھی دیا،ویری ویل ڈن۔ خط طویل ہوگیا، بہت سی باتیں، جو سوچ رکھی تھیں، کہنے سے رہ گئیں۔ چلیں، پھر کبھی سہی۔ بزم کے سب ہی ساتھیوں کومحبّت بھرا سلام، ڈھیروں دعائیں۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور)
ج: آپ کا آنا ہمیشہ ہی بہت خوشی و مسرت دیتا ہے۔ لیکن جب آپ اِس طرح مدتوں بعد آئیں گی، تو کوئی نہ کوئی تو Permanent Seat سنبھالے گا ناں!!
گوشہ برقی خطوط
* وہ دن یاد آتےہیں، جب مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ ہاتھوں میں تھام کے، اٹک اٹک کر پڑھنے کی کوشش کرتا اور گھنٹوں اِس میں موجود تصاویر کو(علاوہ سینٹراسپریڈ) گھورتا رہتا۔ خیر، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تمام خطوط باریک بینی سے پڑھے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت کو خادم ملک انکل کو وزیرِ اطلاعات کا قلم دان سونپ ہی دیناچاہیےتاکہ ایڈیٹرصاحبہ کی تو جان چُھوٹے۔
اطلاعات سے یاد آیا ابھی چند دن پہلے خبر پڑھی تھی کہ حکومت نے اشتہارات کی مد میں میڈیا اور اخبارات کواربوں روپے دے دیئے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا کا تجزیہ کافی شان دار تھا، لیکن جنوبی ایشیا میں میری معلومات کے مطابق پاکستان کا حال ہی سب سے بدتر ہے، باقی ممالک تو پھرترقی کر رہے ہیں۔
بنگلا دیش کے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً پچاس ارب ڈالرز ہیں اور یہاں حُکم ران دو سے تین ارب ڈالرز قرض کے لیے عوام پر ٹیکسزکا بوجھ لادے جا رہے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اسلامی سال کے نقطۂ آغاز کے پس منظر کا تاریخی جائزہ پڑھنے کو ملا، لیکن آج کے دَور میں نہ جانے کیوں اسے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔
کسی کو پتا ہی نہیں کہ یہ کون سی سن ہجری ہے۔ بھئی، تُف ہے، ایسے مسلمانوں پر، جو اپنا ماضی تو فراموش کربیٹھے، مگر نیوائیرنائٹ منانا نہیں بھولتے۔ آپ کے سفر نامے پڑھ پڑھ کرتو مجھ پربھی سیاحت کا بھوت سوار ہوگیا ہے۔ خوابوں میں بھی، کبھی اٹلانٹک میں مچھلیوں کی تیراکی کا نظارہ کررہا ہوتا ہوں، تو کبھی میکسیکو کےچیچن اٹزا کی فوٹوگرافی۔ اورہاں، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹرعزیزہ انجم کی ’’شیشۂ دل‘‘ زبردست کاوش تھی۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)
ج: پتا نہیں، اربوں روپے کے واجبات کسے ادا کیے گئے ہیں۔ جیسے آئی ایم ایف اور بیرونی قرصوں کی رقم کس ’’کھوہ کھاتے‘‘ چلی جاتی ہے، کسی کو پتا نہیں چلتا، ایسے ہی اِن واجبات کا کم ازکم ہم کارکنان کو تو کچھ پتا نہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk