مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
مجھے وہ لمحہ اب تک یاد ہے، جب میرا بیٹا، طلال گھر سے نکلتے ہی اندھی گولی کا شکار ہوا۔ اُس وقت گلی میں شدید فائرنگ ہورہی تھی۔ مسلسل ہونے والی فائرنگ کی آواز سے گھبرا کر مَیں نے اپنے گھر کے مرکزی دروازے سے باہر جھانکا، تو وہ دل خراش منظر دیکھ کر میرے ہوش اُڑگئے، گھر سے چند گز کے فاصلے پر میرا لختِ جگر، نورِ نظر، میرا پیارا بیٹا طلال، خون میں لت پت تڑپ رہا تھا۔ اُسے اس حالت میں دیکھ کر میری تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی، دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ گرتی پڑتی، دیوانہ وار اُس کے پاس پہنچی۔
وہ منظر، جیسے کسی خوف ناک خواب کا حصّہ تھا۔ آج بھی یاد آتا ہے، تو کانپ جاتی ہوں۔ اُس روز رمضان المبارک کا آٹھواں روزہ تھا، میں نے حسبِ معمول اسکول کے لیے بچّوں کو جگایا۔ میرا چھوٹا بیٹا طلال اُس وقت گیارہ سال کا تھا اور قرآنِ مجید حفظ کررہا تھا۔ وہ 2023ء میں حافظِ قرآن بن جاتا، لیکن اللہ کی مصلحتیں اللہ ہی جانے۔ طلال کی وین علی الصباح آجاتی تھی، اُس وقت گلی میں عموماً سنّاٹا ہوتا تھا۔ اُس روز بھی وین کے ہارن کی آواز پر وہ باہر نکلا اور اُس کے نکلتے ہی گلی میں اچانک تڑاتڑ گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے دل میں فوراً بیٹے کا خیال آیا۔
مَیں نے باہر جھانکا، تو وہ دروازے کے پاس ہی سڑک پہ گرا تڑپ رہا تھا۔ مَیں بھاگتی ہوئی باہر کی طرف گئی۔ پولیس اور گارڈز آپس میں بحث کررہے تھے کہ بچّے کو گولی لگی ہے یا نہیں، مَیں بے بسی سے اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ رہی تھی اور سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ اُسے کیسے اٹھائوں، پھر مَیں ہذیانی انداز میں چیخ چیخ کر پولیس اور گارڈز سے پوچھنے لگی کہ’’ اس کا کیا قصور ہے، اسے گولی کیوں ماری..... ؟،،میرا دل بیٹھا جارہا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کس طرح اٹھا کر فوری طور پر اسپتال پہنچائوں۔ میرے چیخنے چلّانے پر میرے شوہر اور دیور باہر آگئے، انھوں نے فوراً طلال کو گود میں اٹھایا اور پولیس وین میں اسپتال کی جانب بھاگے۔
میرے بیٹے کو گولی پاؤں میں لگی تھی اور مسلسل خون بہنے کی وجہ سے اُس کے پورے کپڑے خون میں لت پت ہوگئے تھے۔ بیٹے کو اسپتال روانہ کرنے کے بعد مَیں گھر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنے لگی، دل پھٹنے کے قریب تھاکہ اُسی لمحے ایک عجیب سا سکون میرے دل میں اُترآیا۔ یک دم مجھے حضرت یونس علیہ السلام کا قصّہ یاد آگیا، جب وہ مچھلی کے پیٹ میں اندھیروں میں گم ہوگئے تھے۔
وہاں بھی اندھیرا تھا، کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا، اپنی کم زوری اور لاچاری کو تسلیم کیا اور اللہ کی مدد مانگی۔ تو مَیں نے بھی اُس وقت دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بس اللہ کو پُکارا۔ گو، میرے الفاظ آنسوئوں میں ڈوبے، بے ترتیب سے تھے، لیکن میرا ایمان مضبوط تھا۔ مَیں جانتی تھی کہ جیسے حضرت یونس علیہ السلام کو اندھیروں سے نجات ملی، اللہ مجھے بھی اس کرب سے نجات دے گا۔ دل بھاری تھا، لیکن ایمان کی روشنی نے مجھے تسلّی دی۔ مَیں نے اپنے بیٹے کو اللہ کی امان میں دیا اور اس یقین کے ساتھ دُعا کی کہ اللہ کی رضا ہی سے سب کچھ ٹھیک ہوگا۔
پہلے طلال کو اس کے والد علاقے کے ایک اسپتال لے کرگئے، لیکن انہوں نے کیس لینے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد اسے دوسرے اسپتال لےجایا گیا۔ چوں کہ پولیس کی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں میرا بیٹا اُن کی اندھی گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا، لہٰذا پولیس نہ صرف ہر لمحہ ساتھ رہی، بلکہ سارا خرچہ بھی برداشت کیا۔ واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا تھا کہ جب طلال وین کے لیے نکلا، تو اُس کے قریب سے ایک موٹر سائیکل گزری، جس میں دو ڈکیت بیٹھے تھے، پولیس کا نشانہ وہی تھے، لیکن اُن کی اندھا دُھند فائرنگ کے نتیجے میں گولی طلال کو لگ گئی۔
وین والا ہارن پہ ہارن بجا رہا تھا اور طلال بے یارومددگار سڑک پہ پڑا تھا۔ اس کی ران کی ہڈی بُری طرح فریکچر ہوگئی تھی۔ بہرحال، ڈاکٹر نے آپریشن کرکے راڈ ڈال دی اور چند ہی دنوں بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا بیٹا زندگی کی طرف واپس لوٹنے لگا۔ گرچہ اسی دوران عیدالفطر اور بقرعید بھی آئی اور گزرگئی۔ طلال دوسرے بچّوں کو حسرت سے کھیلتے کُودتے دیکھتا تھا۔
پھر تین ماہ بعد اُس نے بغیر سہارے کے چلنا شروع کیا، تو راڈ کی وجہ سے اُسے شدید تکلیف ہونے لگی، ایکس رے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ راڈ کچھ بڑی لگ جانے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہورہی ہے، لہٰذا فوری طور پر راڈ نکالنا ضروری ہے۔ گرچہ اتنی جلدی راڈ نکالنا خطرے سے کم نہیں تھا، لیکن نکلوانی بھی ضروری تھی۔
ایسے میں ایک بار پھر اپنی بے بسی کا شدّت سے احساس ہوا، تو اُسی وقت قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 155ذہن میں آگئی۔ جس کا ترجمہ ہے کہ:’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ ؐ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سُنادیں۔“
مَیں نے اللہ رب العزّت کے فیصلوں پر غور کیا، تو اُس کا شُکر ادا کیا کہ بیٹے کی ٹانگ میں راڈ سے ہونے والی تکلیف کا ہمیں بروقت علم ہوگیا، اگر پتا نہ چلتا، تو ہم کیا کرلیتے۔ بہرحال، ایک اور آپریشن کے بعد راڈ نکالی گئی، تو پتا چلا کہ الحمدللہ، ہڈی جُڑچکی ہے اور اب دوبارہ راڈ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ خیر، ڈاکٹر نے چند تھراپیز کی تاکید کی، جو ہم باقاعدگی سے کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات سے قوی اُمید ہے کہ اُس کے فضل و کرم سے میرا بیٹا جلد صحت یاب ہو کر حافظِ قرآن ضرور بنے گا۔ (طیّبہ سلیم،کراچی)