مبشرہ خالد
’’صبح بخیر! آپ کی چائے…‘‘ رانیہ نے تکیے سے ٹیک لگائے، موبائل میں مصروف حمزہ کو چائے کا کپ پیش کیا۔ ’’ویسے رانیہ! ایک بات بتاؤں، آفس کی چائے، پٹھان کے ہوٹل کی چائے، غرض یہ کہ فائیو اسٹار ہوٹل کی چائے بھی تمھاری ہاتھ کی چائے کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔
’’میاں صاحب! یہ صُبح صُبح مکھن اگر بریانی کے چکر میں لگایا جارہا ہے، تو مت لگائیں، میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، اِس لیے مَیں دال چولھے پر چڑھا آئی ہوں۔‘‘ ’’بیگم صاحبہ! نہ جانے کیوں، آپ کو ہمیشہ ہماری محبت، مکھن لگانے کے مترادف محسوس ہوتی ہے۔‘‘ حمزہ نے قدرے شکایتی انداز میں اُس کی طرف دیکھا اور آفس جانے کی تیاری کرنے لگا۔
رانیہ اور حمزہ کی شادی کو چھے ماہ ہوچُکے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے، اِس لیے اب محبّت بھی پروان چڑھ رہی تھی، کیوں کہ حمزہ کا ماننا تھا کہ عورت محبّت کے بغیر تو رہ سکتی ہے، لیکن عزت کے بغیر رہنا اُس کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ اِسی لیے حمزہ نے ہمیشہ رانیہ کوعزت دی تھی، جواب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محبّت میں تبدیل ہورہی تھی اور جس کا اظہار وہ کرنے بھی لگا تھا، لیکن رانیہ اُسے مکھن کا نام دے دیتی تھی۔
دروازے کی بیل مسلسل بج رہی تھی۔ حمزہ ہڑبڑا کر اُٹھا۔ گھڑی دیکھی، تو آٹھ بج رہے تھے۔ رانیہ کو سوتا دیکھ کر وہ حیران ہوا اور جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے پر دودھ والا تھا۔ دودھ لے کر فریج میں رکھ کے وہ کمرے میں آیا۔ رانیہ کے سر پہ ہاتھ رکھا، تو اُسے تیز بخار ہو رہا تھا۔
اُس کے ہاتھ رکھنے پر رانیہ نے آنکھیں کھولیں اور جب نظر وال کلاک پر پڑی تو یک دَم حواس باختہ ہوکے اُٹھنے لگی۔ ’’تم لیٹی رہو، مَیں تمھارے لیے ناشتا اور دوا لے کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے حمزہ کچن میں چلا گیا۔ ناشتا بنانے کے بعد وہ ٹرے کمرے میں لایا اور رانیہ کو سامنے بٹھا کر اپنے ہاتھ سے ناشتا کروانے لگا۔ ساتھ گرما گرم چائے کا مگ بھی پیش کیا۔
چائے کے دو ہی گھونٹ لینے کے بعد رانیہ نے بے اختیار کہا۔ ’’آپ سے ایک بات کہوں، کل آپ کہہ رہے تھے، میرے ہاتھ کی بنی چائے کا مقابلہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی چائے بھی نہیں کرسکتی، لیکن بخدا آج مَیں آپ کے ہاتھ کی چائے پی کر کہہ سکتی ہوں کہ اِس چائےکا مقابلہ دنیا کی کوئی چائے نہیں کرسکتی۔
کیوں کہ یہ چائے نہیں، وہ سچّی محبّت ہے، جو دراصل ہم ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ آج آپ کے ہاتھ کی چائے پی کر پتا چلا کہ آپ مجھے مکھن نہیں لگاتے، ہم واقعی ایک دوجے سے بہت محبّت کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رانیہ کے ہونٹوں پر بہت دل کش سی مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ اور حمزہ نے بھی بہت والہانہ انداز میں سرہلاتے ہوئے اُس کی تائید کی۔