• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: صبا

ملبوسات: جے ڈاٹ کلیکشن

آرائش : دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

فیس بُک کے ایک پیج پر کسی کی نقل شدہ (منقول) ایک تحریر پڑھی کہ ’’ذہین عورت کو محبّت نہیں کرنی چاہیے یا یوں کہہ لیں کہ ذہین عورت سے محبّت نہیں کرنی چاہیے کہ یہ وصل کے خوابیدہ لمحات میں بھی اپنی ایک آنکھ، ہجر کے وسوسے سے جگائے رکھتی ہے۔ یہ عشق و محبّت کے دعووں پہ آنکھ بند کرکے یقین کرنے کی بجائے، لہجوں کو پرکھتے ہوئے، عمل پہ نظر رکھے گی۔

آپ اِس کی آنکھوں کو اپنی ہتھیلی سے ڈھانپ کے کوئی شرارت نہیں کرسکتے کہ اِس کا ردِعمل ایک چوکنّی ہرنی جیسا ہوگا۔ یہ چاند میں محبوب کا چہرہ دیکھ کے گیت نہیں بُنتی کہ اماوس کی رات کا علم اِسے مرثیے لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ چاند تارے توڑ لانے، فلک تک ساتھ چلنے جیسی طِفلانہ باتوں پر یہ پلکیں جھپکاتی شاید مُسکرا تو دے، مگریہ مُسکراہٹ آسانی سے ہضم ہونے والی نہ ہوگی، اِسے دعووں سے وقتی طور پر متاثر تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ہمیشہ کے لیے بہلاووں کی نیند سُلایا نہیں جاسکتا۔ 

ذہین عورت سے محبّت کرنے کے لیے محض ’’گفتار کا غازی‘‘ ہونا کافی نہیں کہ کم بخت عورتوں کی یہ قِسم نہ خُوش ہوتی ہے، نہ ہونے دیتی ہے۔‘‘ واللہ، تحریر پڑھ کے لگا کہ شاید ہم نے خُود لکھی ہے۔ اندازہ ہوا کہ یہ جو عمومی طور پر خواتین کو ’’ناقص العقل، فاترالعقل‘‘ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے (حالاں کہ یہ سراسر جھوٹ ہی ہے کہ اب تو عورت نے کوئی شعبۂ زندگی، میدانِ عمل نہیں چھوڑا، جہاں خُود کو مَردوں کے برابر یا اُن سے بہتر ثابت نہ کیا ہو۔ مستثنیات تو ہر جگہ ہوتی ہیں اور کم علمی و کم عقلی کے معاملے میں بھی مرد و خواتین میں کچھ خاص تخصیص نہیں۔ 

ساری عورتیں بے وقوف ہیں، نہ سارے مرد عقل مند) تو جو عورتیں واقعتاً ذہین ہیں، اُن کے تصورات، خیالات، نفسیات اور آراء میں خاصی یک سانیت پائی جاتی ہے۔ ایک ذہین عورت نہ صرف یہ کہ باتوں، وعدوں، دعووں سے نہیں بہلتی بلکہ وہ تمام تر امورِ حیات، معاملاتِ زندگی سے متعلق اپنی ایک پختہ سوچ، طرزِ عمل بھی رکھتی ہے۔ وہ دوسروں کے رویّوں، مُوڈز، خواہشوں، فیصلوں کی تابع نہیں ہوتی، اپنی عقل و شعور، مَن موسم کے مطابق کسی سمت کا تعیّن کرنے اور پھر دربدری یا منزل تک رسائی ہر دو صُورتوں میں اپنے فیصلے کو برملا own بھی کرتی ہے۔ 

اُس کے اندر کے موسم، باہر کی رُتوں کے محتاج نہیں ہوتے کہ وہ اپنے سب موسموں میں خُود رنگ بَھرتی اور اُن سے خُود ہی خُوب صورتی و دل کشی، خوشبوئیں اور خوشیاں کشید کرتی ہے۔ اُس کا اپنا ساون، اپنی بسنت، بہار، اپنی پَت جَھڑ، خزاں اور اپنی ہی سردی، گرمی ہوتی ہے۔ اور اگر وہ چاہے یا قسمت خُود مہرباں ہوجائے،تووہ اپنے اِن سب موسموں کا کوئی ہم مزاج، ہم نوا ڈھونڈ یا پالیتی ہے، نہیں تو عُمر بَھر مَن نگری میں اپنی ایک پوری الگ سی دنیا بسائے جیے جاتی ہے۔

ایک بہت مشہور MYTH ہےکہ’’حَسین عورتیں، ذہین نہیں ہوتیں۔‘‘ لیکن یہ بھی کوئی ایسی عالم گیر سچائی نہیں۔ جیسے متعدّد خواتین نے خُود سے متعلق پھیلائے گئے بہت سے تصوّرات، واہموں کو یک سر غلط ثابت کیا ہے، بالکل اِسی طرح اِس لایعنی سوچ (خرافات) کو بھی کئی خواتین بُری طرح رَد کر چُکی ہیں۔ 

جیسا کہ برطانیہ کی ’’آئرن لیڈی‘‘ مارگریٹ تھیچر کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’حَسین خواتین، ذہین نہیں ہوسکتیں، یہ سراسر بکواس ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ خواتین سے متعلق زیادہ ترغلط باتیں مَردوں ہی نے عام کی ہیں اور وہ بھی اپنے مشاہدات، تجربات کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنی نامکمل خواہشات، انتقامی جذبات کی رَو میں بہہ کر۔ 

جیسا کہ ایک عام تصوّر ہے کہ ’’خواتین کوئی بات راز نہیں رکھ سکتیں‘‘ تو اِسی ضمن میں ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ’’اگر ایسا ہوتا، تو شاید آج کوئی مرد دنیا میں منہ دِکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔‘‘ 

اشفاق صاحب نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کر لیں، کیسے ہی دلائل کیوں نہ دے لیں، اگر اُس کی مرضی نہیں، تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی کہ اُس کے ذہن میں اپنی ہی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے، جسے اُس نے اپنی مرضی سے خُوب سجا رکھا ہوتا ہے۔ 

وہ اُسے روشن رکھنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ عقل و دانش اور دلائل کےمعاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان ہی نہیں رکھتی۔ اُس نے جو فیصلہ کرلیا ہوتا ہے۔ بس، وہی اُس مسئلے کا واحد اورآخری حل ہوتا ہے۔‘‘ اور اگر یہ فیصلہ کسی ذہین وفطین عورت کا ہو، تو سوچیں کیسا حتمی اور اٹل ہوگا۔

ان دِنوں بظاہر موسمِ خزاں جوبن پر ہے۔ مگر، کس کےاندرکون سی رُت آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے، یہ ہرعورت خُود ہی جانتی ہے۔ اب خواہ وہ حسین ہے یا ذہین، کم سِن، جوان ہے یا عُمر رسیدہ، ہماری بزم تو ہر ایک ہی کے لیے ہے۔ ویسے ایک بات ہے، جس طرح دنیا کی کوئی عورت بدصُورت نہیں، بس مقابل کوئی اُس کی خُوبیاں، اوصاف جاننے، سمجھنے والا ہونا چاہیے۔ اِسی طرح کوئی عورت کم عقل، کند ذہن بھی نہیں، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اُس کی سوچ، منطق سے ہم آہنگی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

تو چلیں، اب ذرا آج کی محفل سے دو دو ہاتھ کیے لیتے ہیں، جس میں سال اور دل کے سب ہی موسموں سے خُوب ہم آہنگ رنگ و انداز نے گھیرا سا ڈال رکھا ہے۔ ایک طرف موسمِ گرما کی مناسبت سے سفید اور گلابی رنگوں کی سُندرتا لیے ایمبرائڈرڈ کاٹن ڈریس کا جلوہ ہے، تو ساتھ ہی بہار کے سب ہی رنگوں سے رنگ چُرا کے تیار کیا گیا رنگارنگ حسین چُنری طرز پہناوا بھی ہے۔ 

گہرے نیلے اور آتشی رنگوں کے کامبی نیشن (خاص موسمِ سرما کے رنگ) میں تھری پیس دل کش لباس ہے، تو گہرے سبز رنگ فراک، پاجامے کے ساتھ چُن دار اسٹرائپڈ دوپٹّا اگر بسنت بہار کا تاثر دے رہا ہے، تو ساتھ خزاں میں بہار کا بھی گماں ہو رہا ہے اور آف وائٹ پھول دار پہناوے پر سَت رنگی قوسِ قزح کی کمان سے دوپٹے نے بھی گویا خزاں و بہار کو یک جا کر ڈالا ہے۔

اندر و باہر کی رُتیں یک ساں، ہم آہنگ و ہم آواز ہوں یایک سر جُدا جُدا، بہرکیف ہمارا ہر ایک پہناوا، اپنی جگہ ’’سب کچھ کہہ دینے‘‘ بیاں، عیاں کرنے کا پورا ملکہ، مہارت رکھتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ چاند سا چہرہ کچھ اتنا بے باک ہوا… منظر منظر خُود میری پوشاک ہوا… موسم نے آواز لگائی خوشبو کو… تتلی کا دل پھولوں کی املاک ہوا۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید