• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 نومبر کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔ اُن کی یہ فتح تاریخی ہے، کیوں کہ امریکی تاریخ میں وہ دوسرے شخص ہیں، جو ایک بار ہارنے کے باوجود دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ تمام عالمی رہنماؤں نے اس زبرست کام یابی پر اُنھیں مبارک باد دی۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، میاں شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’پاکستانی حکومت اور نئی امریکی انتظامیہ مل کر باہمی تعلقات اور شراکت داری کو مضبوط بنائیں گے۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ’’ امریکی عوام نے انہیں غیر معمولی اور طاقت وَر مینڈیٹ سے نوازا ہے۔‘‘

اِس امر میں کوئی شک بھی نہیں، کیوں کہ اُنھوں نے نہ صرف الیکٹورل کالج میں فیصلہ کُن برتری حاصل کی، بلکہ سات سوئنگ اسٹیٹس میں سے چھے ان کی جُھولی میں گریں۔ ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کے 292 ووٹس حاصل کیے، جب کہ سینیٹ اور کانگریس میں بھی اُن کی ری پبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی۔ نیز، وہ پاپولر ووٹس، یعنی عوام کی جانب سے دئیے گئے ووٹس میں بھی کمیلا ہیرس سے آگے رہے، یہ نمبرز وہ2016ء میں بھی حاصل نہیں کرسکے تھے، حالاں کہ اُس وقت بھی صدر منتخب ہوگئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح درحقیقت امریکی عوام کا اپنے آپ کو ووٹ دینا ہے۔

اُنہوں نے امریکی معیشت اور تارکینِ وطن کے معاملات کو اوّلیت دی ہے، جو اُن کے اندرونی مسائل ہیں۔ٹرمپ کا شمار دنیا کے بڑے قوم پرست رہنماؤں میں ہوتا ہے، جو مستقل طور پر’’امریکا فرسٹ‘‘ اور’’امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے‘‘ جیسے نعرے بلند کرتے آ رہے ہیں اور عوام نے اُنھیں دوبارہ منتخب کرکے اِن نعروں کی قبولیت پر مُہر لگادی۔ ٹرمپ نے اپنے منشور میں تین امور پر فوکس رکھا۔

اُن کا کہنا ہے کہ اب صرف قانونی طور پر ہی امریکا میں رہا جاسکے گا۔دوسرا، دیگر ممالک سے تجارت پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے، جب کہ تیسرا اعلان یوکرین، مشرقِ وسطیٰ میں جنگوں کی بندش اور کوئی نئی جنگ شروع نہ کرنے سے متعلق تھا۔ کمیلا ہیرس دوسری خاتون امیدوار ہیں، جنہیں گزشتہ دس برسوں میں صدارتی انتخابات میں شکست ہوئی اور دونوں شکست خوردہ خواتین کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ پہلی خاتون ہلیری کلنٹن تھیں۔ 

مین اسٹریم میڈیا نے کمیلا کا بھرپور ساتھ دیا، اُنہیں امریکی روشن خیالی اور اُمید کے طور پر پیش کیا، نوجوان ووٹرز کی پہلی چوائس بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ دوسری مرتبہ ہے کہ امریکی، مغربی اور اُن کی پیروی کرنے والے میڈیا کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، یہاں تک کہ’’کانٹے دار مقابلے‘‘ کا جو تاثر دیا جارہا تھا، وہ بھی کمیلا کی غیر معمولی شکست سے بالکل غلط ثابت ہوا۔

ٹرمپ کو’’ مین آف پیس‘‘ یعنی’’ امن کا صدر‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اُن کے سابقہ دورِ حکومت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی میں اُنہی کا بنیادی کردار تھا۔ کیا وہ اِسی پالیسی کو دُہرا پائیں گے؟ عالمی اور ہمارے خطّے کے منظرنامے میں یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اِس قدر غیر معمولی فتح کا راز کیا ہے؟ دراصل، ٹرمپ ایک کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں۔ چار سال تک تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے ووٹرز کو جوڑے رکھنے میں کام یاب رہے، بلکہ جس طرح اُنہوں نے سوئنگ اسٹیٹس کے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کیا، اِس سے ناقدین کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ امریکا ایک تقسیم شدہ قوم ہے۔

امریکی قوم اپنے نومنتخب صدر کی پُشت پر کھڑی ہے، جس کا ثبوت اُنھیں ملنے والے ووٹس کی تعداد ہے۔ ٹرمپ نے بزنس مین اور ایک غیر روایتی سیاست دان سے امریکا کے دوسری بار صدر منتخب ہونے کا سفر بڑی کام یابی سے طے کیا۔ اب وہ ایک پختہ سیاست دان بن چُکے ہیں۔

سیاسی داؤ پیچ، عالمی معاملات اور دو طرفہ تعلقات جیسے امور بخوبی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جو لوگ اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ امریکی عوام اور مقامی مسائل چھوڑ کر کسی دوستی یا لابنگ کے چکر میں پڑ کر کسی ذاتی کام میں لگ جائیں گے، اُنھیں مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے، ٹرمپ ایک انتہائی unpredictable شخصیت ہیں، اِس لیے اُن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا خاصا مشکل ہے۔

ری پبلکن پارٹی روایتی طور پر ایک قدامت پسند پارٹی ہے اور انسانی حقوق جیسے معاملات سے اس کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ ٹرمپ، شمالی کوریا سے دو مرتبہ مذاکرات کر چُکے ہیں، جو امریکی مفاد میں تھے، حالاں کہ شمالی کوریا کے سربراہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں نہایت بُرا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ایک اور ری پبلکن صدر، بش، پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرّف کے دوست بنے کہ امریکا کو نائن الیون کے بعد اُن کی ضرورت تھی۔

امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ اپنے ہی لیے دیا، یعنی اُن معاملات کے حل کے لیے، جو اُنھیں درپیش ہیں اور اُن میں معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر معاشی بہتری کے لیے غیر قانونی تارکینِ وطن کو روکنا یا نکالنا ضروری ہے، تو عوام اس کے لیے بھی راضی ہیں۔ اِسی طرح ٹیکسز میں کمی اور بیرونِ ممالک سے تجارت کا معاملہ ہے۔ اِس ضمن میں ان کا مقابلہ چین سے ہے، تو روس اور یورپ بھی اہم ہیں۔ ٹرمپ ایک تاجر کی حیثیت سے جنگوں میں اُلجھنے اور اُن پر پیسا ضائع کرنے کو فضول عمل سمجھتے ہیں، لیکن ہر حال میں’’امریکا فرسٹ‘‘ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

عوام نے معاشی بہتری، جنگوں کے خاتمے اور تارکینِ وطن کی بے دخلی کے نعروں پر ووٹ دئیے  

وہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کے تمام مسائل کی جڑ غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں۔ وہ مغربی دنیا میں سب سے بڑے نیشنلسٹ لیڈر ہیں اور آج کی مغربی قوم پرستی کی بنیاد تارکینِ وطن کی مخالفت پر قائم ہے۔ شی جن پنگ، پیوٹن اور نریندر مودی بھی صدی کے بڑے قوم پرست رہنما ہیں، تاہم انہیں تارکینِ وطن جیسے مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔

شاید ہی کوئی روس، چین یا بھارت میں آباد ہونے کا خواہش مند ہو، جب کہ امریکی اور یورپی سفارت خانوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر امریکی، ایک ایمی گرینٹ قوم ہے کہ ساری دنیا سے لوگ یہاں آکر آباد ہوتے رہے، اِسی لیے اسے’’ لینڈ آف اپرچیونٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِنہی افراد نے امریکا کو سُپر پاور بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 

بہرحال، اِس وقت امریکا اور یورپ میں قوم پرستی کی جو لہر چل رہی ہے، اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سے خاصی تقویت ملے گی۔ ٹرمپ کے گزشتہ دَور میں میکسیکو بارڈر پر دیوار کا بہت شہرہ تھا، دیکھنا ہے کہ اب وہ تارکینِ وطن کو محدود کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے دورِ اقتدار کا آخری برس کورونا کی نذر ہوگیا۔

اُنہوں نے اِس دوران کھربوں ڈالرز کے ریلیف پیکجز دیئے اور صرف چھے ماہ میں کورونا ویکسین تیار کروا کے مارکیٹ میں لے آئے، تاہم اِس عرصے میں امریکا میں اموات کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی، جس نے ٹرمپ کی2020ء کی ہار میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آئینی طور پر وہ اگلی بار الیکشن نہیں لڑ سکیں گے، اِس لیے اُنہیں ری پبلکن پارٹی کے لیے اچھی وراثت چھوڑنی ہوگی۔

گزشتہ دَور میں بھی ٹرمپ امریکی معیشت اور عام آدمی کی حالتِ زار کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اِس مرتبہ بھی اُن کے منشور میں ٹیکس کٹوتی کا معاملہ نمایاں ہے۔ اِس وقت امریکی معیشت مضبوط ہے۔ گو، منہگائی نے گزشتہ سالوں میں عوام کو خاصا پریشان کیا، لیکن معاشی مضبوطی کا اندازہ اِس امر سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے یوکرین اور اسرائیل کو جنگ کے لیے ایک سو بلین ڈالرز کی امداد دی، جو پاکستان کے ایک سال کے بجٹ کے برابر ہے۔

ٹرمپ نے چین سے تجارت میں امریکی خسارہ کم کرنے کے لیے چینی کمپنیز اور اشیا پر ٹیکس لگائے تھے۔ امریکا اور چین کے مابین تجارت کا حجم تقریباً8 سو بلین ڈالرز کا ہے۔ ان کے دَور میں چین اور امریکا کے درمیان خاصی کشیدگی رہی، لیکن معاملات قابو سے باہر نہیں ہوئے۔ بنیادی طور پر ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں اور ہر معاملے کو اسی زاویے سے دیکھتے ہیں، یعنی منافعے کا سودا۔یہی وجہ ہے کہ چین اور روس سے تمام تر اختلافات کے باوجود، تجارتی معاملات میں اُنہیں ساتھ لے کر چلتے رہے۔

پھر یہ کہ ٹرمپ کی کرپشن کے نعروں میں زیادہ دل چسپی نہیں ہے۔ خود اُن پر ایسے الزامات لگتے رہے اور وہ اِن باتوں کو مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اِن دنوں ایک کاروباری خاندان حکومت کر رہا ہے، تو ان کے درمیان ہم آہنگی کی توقّع کی جاسکتی ہے۔ اگر ہم مشکل مُلکی حالات میں اِس صورتِ حال سے کوئی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، تو اس سے بہتر بات کیا ہوگی۔ ہر قوم اپنے فائدے اور مفاد کا سوچتی ہے، تو ہمیں بھی ٹرمپ کی نئی حکومت کو اِسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

تارکینِ وطن، ٹرمپ کی دُکھتی رگ ہیں اور وہ اپنے جلسوں میں یہ بات دُہراتے رہے کہ صدر بنے، تو امریکا سے نکالے گئے غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعداد تاریخی ہوگی۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جنہوں نے غلط بیانیوں کے ذریعے وہاں پناہ لے رکھی ہے۔ اِن بیانات سے اُن تمام غیرقانونی تارکینِ وطن کے کان کھڑے ہوجانے چاہئیں، جو وہاں رہ کر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

امریکی انتخابات میں عالمی امور بہت کم جگہ پا سکے، تاہم ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگیں ختم کروا دیں گے۔یوکرین جنگ کا تعلق روس سے ہے، جب کہ یورپ اور برطانیہ اُس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جوبائیڈن نے دو سال پہلے روس کی طرف سے حملے کے بعد یوکرین اور یورپ کی بھرپور پُشت پناہی کی۔ ٹرمپ کا گزشتہ دَورِ حکومت میں موقف رہا کہ یورپ کو اپنے دفاع کے لیے خود آگے بڑھنا ہوگا، خاص طور پر اُسے نیٹو کے بجٹ میں اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا، تاہم، اس کامطلب یہ نہیں کہ ٹرمپ، نیٹو یا یورپ کو اکیلا چھوڑ دیں گے۔ 

ہاں، یہ ممکن ہے کہ وہ دبائو ڈالیں کہ’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر روس سے جنگ بندی کر لی جائے۔یوکرین کے معاملے پر امریکا اور یورپ اِتنے آگے جاچُکے ہیں کہ فوری پیچھے ہٹنا ٹرمپ کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری طرف، صدر پیوٹن بخوبی جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد وہ جس شخص سے بات کریں گے، وہ جوبائیڈن سے بہت مختلف ہے اور اگر وہ ڈٹ گیا، تو کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ ویسے بھی روس کو جنگ کرتے ہوئے تیسرا سال ہے اور وہ بھی یہی غنیمت سمجھے گا کہ نئے امریکی صدر سے بات چیت کرکے جنگ بندی کی راہ نکال لی جائے۔

مشرقِ وسطیٰ میں جاری خون ریزی بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے، جس میں اب ایران کے ساتھ، حزب اللہ اور یمن کے حوثی بھی شامل ہیں۔ کیا ٹرمپ، اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیں گے؟ قطعاً نہیں۔ یاد رہے، ٹرمپ کے پہلے دور میں مقبوضہ بیتُ المقدِس(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا، حالاں کہ اقوام متحدہ سمیت زیادہ تر ممالک نے اِس اقدام کی مخالفت کی۔ٹرمپ ہی نے ایران سے نیوکلیئر ڈیل ختم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایران سے متعلق سخت موقف رکھتے ہیں۔ٹرمپ نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے لیے کوششیں کیں۔

اُن کے داماد ان مذاکرات میں شامل تھے، تاہم، جو بائیڈن کے آنے پر یہ سلسلہ رُک گیا۔ البتہ، یو اے ای، بحرین اور دو افریقی عرب ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔اِس پس منظر میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ امریکا، اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا، خاص طور پر ایک ایسے موقعے پر، جب وہ براہِ راست ایران کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب، کیا کر گزریں۔یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ مشرقِ وسطی میں قیامِ امن کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں، لیکن وہ اِس ضمن میں سنجیدہ کوششیں ضرور کریں گے۔

پاکستان کے لیے ٹرمپ کا دَور کیسا ہوگا؟ اِس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستانی تارکینِ وطن کو پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔اُنہیں پاکستان کی سیاست میں اُلجھنے کی بجائے، اپنے کام سے کام رکھنے کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دَور میں پی ٹی آئی حکومت کو افغان مسئلے کے حل کے لیے دبائو میں رکھا کہ وزیرِ اعظم اور بانی پی ٹی آئی کو تین ماہ میں دو مرتبہ وائٹ ہائوس جانا پڑا۔

ٹرمپ نے دوحا معاہدے تک یہ دبائو جاری رکھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ اِس دوران خوش کرنے کے لیے رسمی طور پر دو، چار اچھے الفاظ بھی ادا کرتے رہے۔اب امریکا، افغانستان سے جاچکا ہے، اس لیے پاک، امریکا تعلقات کو دوطرفہ تناظر ہی میں دیکھنا ہوگا۔ امریکا، پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور اسے جی ایس پی پلس طرز کی رعایت حاصل ہے۔ حال ہی میں ہونے والے آئی ایم ایف معاہدے میں امریکا کا اہم کردار رہا۔

پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد یہاں جلسوں میں امریکا کے لیے جو احمقانہ باتیں کی گئیں، اُن سے دونوں ممالک کے مابین تلخی پیدا ہوئی، لیکن نئی حکومت نے معاملات سنبھال لیے۔چند لاکھ پاکستانی یا وہاں پناہ گزین وی لاگرز کچھ بھی نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ وہاں ایسی حکومت آئی ہے، جس کی نظر میں انسانی حقوق کے کوئی معنی نہیں، صرف امریکا اہم ہے۔ بہرکیف، پاکستان جن مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے، اُس میں ہمیں قدم قدم پر امریکی مدد کی ضروت پڑ سکتی ہے، لہٰذا جہاں تک ممکن ہو، ہمیں اُس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔