• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی سوال کررہا ہے کہ وہ کیسے اور کیوں جیتے،کوئی پوچھ رہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ٹرمپ جیسے متنازع صدارتی امیدوار نے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرلیا ، کہیں یہ استفسار کیا جارہا ہے کہ اب امریکا اور دنیا کا کیا ہوگا ؟کہیں اس اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اب دنیا بالکل بدل جائے گی۔ہمارے جیسے ملکوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات پر کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں؟

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خود امریکی اُن کے انتخاب کےبارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انتخابات سے پہلے اور بعد میں امریکی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والے تجزیوں اور تبصروں سے واقفیت ضروری ہے۔ ان کا نچوڑ ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب سے بعض امریکی حلقوں کو خطرہ ہے:

وہ نیٹو ہی ختم کرسکتے ہیں۔

وہ اپنے دشمنوں یا حریفوں پر پہلے سے زیادہ شدید حملے کریں گے،انہیں سزائیں دیں گے، انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے اور اس کے لیے صدارتی طاقت یا اختیارات استعمال کریں گے۔

وہ دنیا کے ماحولیاتی مسائل کو مزید الجھا سکتے ہیں۔

امریکا میں خواتین ایک بار پھر نشانے پر ہوں گی۔

امریکا میں صحافت پر پھر بُرا وقت آسکتا ہے۔

وہ ان سائنسی تحقیقات پر حملے کریں گے جو اُن کے ایجنڈے کی راہ میں حائل ہوں گی۔

ان کےپہلے دور میں بھی ان کے حامیوں اور ساتھیوں نے ذاتی فائدے حاصل کیے تھے اور دوسرے دور میں خدشہ ہے کہ بدعنوانی مزید بڑھے گی۔

اُن کے پہلے دور میں چین نے ترقی پذیر دنیا کی طرف کئی قدم کام یابی سے اٹھائے تھے اور اب ٹرمپ انتظامیہ چین کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ اس دنیا پراپنی گرفت مضبوط کرلے۔

اب وہ عدلیہ میں مزید ایسے ججز کی تقرّری کریں گے جو قوانین کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔

وہ بے ہودگی اور غصے کے کارخانے کی استعداد پہلے سے زیادہ بڑھادیں گے۔

ان کی جیت سے دائیں بازہ کے انتہا پسندوں اور ان کے نظریات کو تقویت ملے گی اور انہیں اس بات کی اجازت مل جائے گی کہ وہ قوانین کی دھجیاں بکھیر سکیں۔

قوانین کے تحفظ کےلیے سرگرم حلقوں کو خدشہ ہے کہ ان کے دور میں محکمہ انصاف وفاقی سطح پر پابندیاں عائد کرکے یا اس کے بغیراسقاطِ حمل کے بارے میں قانونی نظام کو مجرمانہ بنادے گااور یہ عمل غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔

وہ مشرقِ وسطی کےلیے نیتن یاہو کو بلینک چیک دے دیں گے، جس سے امکان ہے کہ اسرائیل کو ایران کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کرنےکا اختیار مل جائے گا، جس کی پیش گوئی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور سابق وزیرِ دفاع لیون پنیٹا انتخابات سے پہلے ہی کرچکے ہیں۔

وہ امریکی تاریخ کو بھی مسخ کرسکتے ہیں کیوں کہ انہوں نے عوام سے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ اپنے دوسرے دور میں اپنے نقصان دہ اورغلط نظریات کو اسکولز کے نصاب کا حصہ بنادیں گے۔

وہ امریکا کے ان شہروں اور ریاستوں کو سزا دیں گے جنہوں نے ان کی حمایت نہیں کی۔

وہ شہری آزادیوں پر قد غنیں لگاسکتے ہیں۔

ان کی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں سے خدشہ ہے کہ وہ امریکا کو بہت جابرانہ اور خطرناک بنادیں گے جس کے لیے وہ پولیس کو استعمال کرسکتے ہیں۔

ان کے پہلے دورِ صدارت میں 2020میں فوج ان کے جمہوریت مخالف اقدامات اور خواہشات کے خلاف دیوار بن گئی تھی، اب وہ فوج کو اپنا وفادار بنانے کی کوشش کریں گے۔

ان کے دوسرے دورِ صدارت میں امریکیوں کی سائیکی بدل سکتی ہے، کیوں کہ ان کی جسمانی اور ذہنی ساخت ایسی نہیں ہے کہ وہ دائمی دباو برداشت کرسکے۔

اگر وہ جیت گئے تو بالآخر ہم اس افسانوی بات پر تقسیم کا شکار ہوجائیں گے کہ یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کون ہیں۔

وہ 2020 میں جوبائیڈن سے ہار گئے تھے، اس کے باوجود انہوں نے آج تک اس ہار کو قبول نہیں کیا۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی اس خواہش کو دہرایا ہے کہ انہیں وہائٹ ہاؤس نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ 2028 میں اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش تو نہیں کریں گے۔

انہوں نے انتخابی معرکے میں مکمل کام یابی حاصل کی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی نے سینیٹ کے علاوہ ایوانِ نمائندگان کا مکمل کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے ۔ اب ٹرمپ کو اپنے فیصلے نافذ کرنے اور انتخابی وعدوں پر عمل کرنےکے ضمن میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم امریکا کے علاوہ دنیا بھر میں یہ بے یقینی موجود ہے کہ ٹرمپ کس حد تک اپنے انتخابی نعروں کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔

آگے کیا ہوگا؟

ڈونلڈ ٹرمپ پھر جیت توگئے ہیں، لیکن ملکی اور عالمی سطح پر بہت سے چیلنجز ان کے سامنے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب وہ کیا کریں گے؟کیا وہ اپنے ماضی اور شخصی کردارو عادات سے جان چھڑاکر نئی تاریخ رقم کرسکیں گے؟

سیاسیات کے ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں آسکتی ہیں، اور ان کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کے اثرات دنیا بھر میں محسوس ہوں گے۔ ان کاپہلا دور ان کی سب سے پہلے امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت انہوں نے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر امریکا کے مفادات کو ترجیح دی۔

انہوں نے امیگریشن، تجارتی معاہدوں، اور امریکی صنعتوں کی حمایت کے ضمن میں سخت فیصلے کیے تھے اور ان کا یہ رویہ اب بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ان کی دوسری مرتبہ کام یابی کے بعد امریکا کی امیگریشن پالیسی میں مزید سختی ّنے کی توقع ہے۔

ٹرمپ کے انتخاب کے بعد ایک مغربی تجزیہ کار نے کچھ یوں تجزیہ پیش کیا: ’’ٹرمپ الیکشن کیوں جیتے؟ اس کے جواب میں ’’معیشت، احمق‘‘، کا مشہور مقولہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہ بشمول کملا ہیرس، ان کے مخالفین کی سب سے زیادہ پرجوش باتیں اگر درست ہیں تو امریکا نے شاید اس شخص کو وائٹ ہاؤس بھیج دیا ہے جسے کملا ہیرس نے ’’فاشسٹ‘‘ کہا تھا۔ اگر جمہوریت ہی انتخابات کا موضوع تھی، تو افسوس کی بات ہے کہ بہت بڑی تعداد میں امریکیوں نے اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا‘‘۔

تجزیہ نگار آگے چل کر لکھتے ہیں ،’’امریکیوں نے ٹرمپ کی پہلی مدت کو سہا ہے۔ وہ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ٹرمپ 2016 سے سیاست میں ہیں اور دہائیوں سے ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ ہیرس نے اپنی مہم کے آغاز میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی’ ’قسم‘‘ کو جانتی ہیں، ٹھیک ہے، زیادہ تر امریکی بھی جانتے ہیں۔۔۔۔ اور، جیسا کہ اب پتا چل رہا ہے، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔

’’وہ ایک فطری آمر ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی ری بلکن پارٹی یا ان کی ذاتی میگا کلٹ سینیٹ اور ایوان نمائندگان کو بھی کنٹرول کرے گی، ان کی حالیہ پیش رفت کو دیکھتے ہوئے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پہلے دور میں ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں کچھ خود غرضانہ تقرریوں کی بہ دولت، انہیں پہلے ہی ان کے ’’انتظامی فرائض‘‘ کے دوران کیے گئے کاموں کے لیے ’’مشروط استثنیٰ‘‘ حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے خلاف مختلف زیر التوا مقدمات میں سزا سے بچ جائیں گے‘‘۔

’’یہ صرف ٹرمپ نہیں ہوں گے جو امریکا چلائیں گے۔ ہم ایلون مسک (ٹرمپ نے اپنی قبل از وقت کام یابی کی تقریر میں دعویٰ کیا ہےکہ ہمارے پاس ایلون کی شکل میں ایک نیا ستارہ ہے) اور نائب صدر جی ڈی وینس کو نفرت کو ہوا دیتے دیکھیں گے۔ راستہ کھلا ہو گا اس چیز کے لیے جسے وہ پروجیکٹ 2025 کہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک ایجنڈا ہے جس میں منتخب آمرانہ نظام کی حقیقت نظر آتی ہے۔

ٹرمپ کے دور میں عالمی منظر نامے کی تصویر کشی کرتے ہوئے مغربی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 1930 کی دہائی کے بعد کی سب سے شرم ناک ایپیزمنٹ (appeasement) کے طور پر ٹرمپ یوکرین کو ولادی میر پوتن کی گود میں ڈال دیں گے۔ شاید یہ عرب امریکیوں کے لیے مایوس کن ہو جو انہیں ووٹ دیتے ہیں، لیکن مشرقِ وسطی میں ٹرمپ بن یامین نیتن یاہو کو کھلا راستہ دیں گے اور شاید ایران کے خلاف پراکسی جنگ میں بھی شامل ہوں گے۔

نیٹو اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے تعلقات نچلی سطح پر ہوں گے، چاہے وہ مغربی دفاع کے لیے اپنے بل ادا کریں۔ ٹرمپ، آخر کار، مشرقی یورپ کے کسی غیر معروف ملک کے لیے نہیں لڑیں گے جسے وہ نقشے پر نہیں ڈھونڈ سکتے۔ عظیم اٹلانٹک اتحاد اپنی بہترین حالت میں بھی، تجارتی ہوگا۔ 

مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں چین کے ساتھ تناؤ مزید شدید ہو گا، اگرچہ کم جونگ ان کے ساتھ ان کا عجیب تعلق دوبارہ بحال ہو گا۔ مختصراً، ٹرمپ دنیا کو ایک غریب، زیادہ غیر مستحکم جگہ بنا دیں گے اور مزید جنگیں ہوں گی۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے معاہدوں کو پہنچنے والے مہلک نقصان کا ویسے بھی زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک غم ناک منظر ہے ،جس کا انتخاب امریکیوں نے کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کا اپنا معاملہ ہے، اور غیر ملکیوں کے لیے ان پر حکم چلانا ناقابل برداشت ہے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن باقی دنیا امریکا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے سخت متاثر ہوتی ہے – اور اسے اچھی طرح سے ختم ہوتے دیکھنا مشکل ہے۔ ٹرمپ کے چار مزید سال اور شاید ہمارے پاس زیادہ امن اور سکیورٹی باقی نہیں بچے گی۔

مسلم دنیا ان دنوں غزہ اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت سے پریشان ہے۔ پینتالیس ہزار فلسطینی اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ لبنان، یمن، ایران تک اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے ہیں ، لیکن جنگ مخالف ہونے کی وجہ سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ پر امن اور منصفانہ طریقے سے تنازع فلسطین کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا ایک پہلو مسلم دنیا کی ان سے توقعات ہیں۔ بلاشبہ وہ کئی امور میں مسلمانوں کے مفادات کے خلاف بروئے کار رہے ہیں۔ انہوں نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت رکوانے کی بات کی۔

یہ بہ ہر حال ان کے لئے ایک آزمائش ہو سکتی ہے کہ نیتن یاہو اقوام متحدہ اور اس کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو روندتے رہے ہیں۔ ایسے میں دیکھنا ہے کہ ٹرمپ یہ جارحیت رکوانےاور تنازع فلسطین کے حل کے لیے کہیں ایسا منصوبہ متعارف نہ کرادیں جو اسرائیل کی منشا اور فلسطینیوں کی خواہش کے برعکس ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات والے دن سے تین روز قبل دعویٰ کیا کہ ان کی مہم مشی گن میں عرب اور مسلم ووٹروں کا "ریکارڈ توڑ" اتحاد بنا رہی ہے۔

ٹرمپ کو سمجھنا ،ایک مشکل کام

چار برس قبل اگست کے مہینے میں امریکی حساس ادارے کے اعلیٰ عہدے دار نے خبردار کیا تھا کہ کہ چین کی امریکی صدارتی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوششوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب نہیں چاہتا۔ امریکی نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جینس اور سکیورٹی کے ڈائریکٹر ولیم اوانینا کے مطابق چین کے نزدیک صدر ٹرمپ متزلزل اور غیر متوقع شخصیت کے مالک ہیں۔

موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے صدر کے عہدے کے لیے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیتے ہوئے رواں برس اگست کے مہینے میں کہاتھاکہ میرے الفاظ یاد رکھیں، اگر وہ اس الیکشن میں جیت جاتا ہے تو دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دست بردار ہونے کے بعد دیے گئے پہلے انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہاتھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ ہے، دیکھو، ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہیں اور اس میں جمہوریت اہمیت کی حامل ہے۔

وائٹ ہاؤس میں ریکارڈ کیے گئے ایک مختصر ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا تھاکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مباحثے میں ناکام رہے تھے۔صدارتی امیدوار کے عہدے سے دست برداری کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس سے ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر سیاست دانوں کو خدشہ تھا کہ ان کی جیت کے امکانات کو نقصان پہنچے گا اور ان کی واحد ترجیح ٹرمپ کو اقتدار میں واپس آنے سے روکنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ اب بھی ایک نازک مسئلہ ہے، یہ کوئی مذاق نہیں، اس جمہوریت کو برقرار رہنا چاہیے۔

رواں برس اکتوبر کے مہینے میں امریکا کی سابق خاتون اول مشل اوباما نے خبردار کیا تھاکہ اگر ی پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس دوسری بار پہنچ گئے تو خواتین کے حقوق خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کے ہمراہ مشی گن میں ایک انتخابی مہم سے خطاب کرتے ہوئے مشل اوباما نے ووٹرز پر زور دیاتھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچیں کہ کیا خطرہ ہے۔ 

انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم اس الیکشن میں کام یاب نہیں ہوئے تو آپ کی بیوی، آپ کی بیٹی، آپ کی ماں اور ہم بہ طور خواتین آپ کے غصے کا نقصان بن جائیں گے۔ ہماری حیثیت بچے پیدا کرنے والے برتنوں سے زیادہ نہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ خواتین اپنے جسم پر کنٹرول کی خود مالک ہیں۔

ڈیموکریٹس راہ نما اسقاط حمل کے حقوق کی بحالی کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جب کہ ری پبلکن اس معاملے کو انفرادی ریاستوں پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ مشل نے ان دہرے معیارات کی بھی نشان دہی کی تھی جن کا ٹرمپ کے مقابلے میں ہیرس کو سامنا تھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ (ہیرس) ہوشیار اور دو ٹوک موقف اختیار کریں گی۔ پالیسیوں کا واضح سیٹ رکھیں گے اور زیادہ غصہ نہیں دکھائیں گے۔ انہوں نے مزید کہاتھا کہ لوگ ٹرمپ سے کچھ بھی توقع نہیں رکھتے۔

کیا ٹرمپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں وہ امریکی انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہیں ،خاص طور پر جب نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہ ہوں۔2012 کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ، براک اوباما کے خلاف پھیلائی جانے والی بدنام 'برتھر تھیوری میں پیش پیش تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اوباما امریکی نہیں ہیں۔ اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ اوباما پاپولر ووٹ کھو چکے ہیں۔

اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹنگ مشینوں میں گڑ بڑ کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ صدارتی انتخابات کے نتائج میں اوباما کی جیت پر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ یہ غلط ہے، اوباما نے بہت بڑا پاپولر ووٹ کھو دیا، مگر الیکشن جیت گئے۔ ہمیں اس ملک میں انقلاب لانا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہمیں اس دغا بازی کو روکنے کے لیے واشنگٹن کی جانب مارچ کرنا چاہیے۔

2016 میں ری پبلکن پارٹی کے اندرونی الیکشن میں مدمقابل امیدوار سے ہارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھاکہ ٹیڈ کروز نے ریاست لووا میں دھاندلی کی۔ یاد رہے کہ ری پبلکن پرائمری الیکشن میں پارٹی کے دوسرے امیدوار ٹیڈ کروز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو آئیووا اور وسکونسن کی ریاستوں میں بآسانی ہرا دیا تھا۔ ٹرمپ نے نتائج کے بعد ٹویٹ میں لکھا تھا کہ آئیووا میں ٹیڈ کروز جیتا نہیں بلکہ الیکشن کو چرایا۔ یہ تمام انتخابی طریقہ غلط ہے، جتنے ووٹوں کی توقع تھی ان سے زیادہ کیسےحاصل کر لیے گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو جب ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نام زد کیا گیا تب بھی انہوں نے ووٹنگ کے نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرے ہوئے لوگ بھی ووٹ ڈال رہے ہیں۔

ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں جب اوپینیئن پولز یا رائے عامہ کے جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پیچھے قرار دیا گیا تو انہوں نے ووٹنگ سسٹم کو کرپٹ‘ قرار دیا۔

یکم اگست 2020کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو خبردار کیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہونے جا رہی ہے اور ان کو بہت زیادہ چوکس رہنا ہوگا ورنہ یہ ہم سے جیت لے جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جو لوگ دس برس قبل وفات پا چکے، وہ بھی ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ایک اور جگہ بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ فراڈ بہت عام ہے اور غیر قانونی تارکین وطن بھی ووٹ ڈال رہے ہیں۔

ایک بار ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سازشی تھیوری بھی پھیلائی کہ ہیلری کلنٹن کے25 لاکھ حامیوں کے دو دو ووٹ درج کیے گئے ہیں تاکہ وہ دو بار ووٹ ڈال سکیں۔

نومبر 2016 کے صدارتی الیکشن سے تین ہفتے قبل فوکس نیوز پر صدارتی مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں آپ کو تجسس میں رکھوں گا۔اسی دوران انہوں نے روایت کو توڑتے ہوئے کہاتھا کہ اگر ہیلری کلنٹن جیت گئیں تو وہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ میں اس وقت آپ کو بتاؤں گا اور آپ کو تجسس میں رکھوں گا۔

جب ٹرمپ نے پہلا صدارتی انتخاب جیتا تو انہوں نے غلط دعویٰ کیا کہ میں نے پاپولر ووٹ جیت لیا ہے۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہیلری نے لاکھوں غیر قانونی بیلٹ پیپر حاصل کیے۔

ٹرمپ نے ایک بار ٹویٹ کیا کہ ورجینیا، نیو ہمپشائر اور کیلی فونیا کی ریاستوں میں سنجیدہ نوعیت کا ووٹنگ فراڈ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میڈیا اس معاملے کو رپورٹ کیوں نہیں کر رہا؟ یہ متعصبانہ ہے، اور ایک بڑا مسئلہ ہے۔

پچھلی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار ووٹنگ کے عمل پر سوال اٹھائے اور کہا کہ وہ ہارنے کی صورت میں اقتدار حوالے نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاتھا کہ ووٹ چرایا جا رہا ہے اور یہ کہ اس طرح ڈیموکریٹ الیکشن چرا رہے ہیں۔

پوسٹل ووٹنگ جس میں عام طور پر ڈیموکریٹ امیدوار جیتتے آئے ہیں، اسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں اس عمل کوایک بہت بڑا اسکینڈل قرار دیاتھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یہ امریکاکی تاریخ کا سب سے غلط اور فراڈ الیکشن ہوگا۔ 

ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ آئی کہ ہم اوپر جا رہے ہیں لیکن وہ الیکشن چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ امریکا کی سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ حالاں کہ ماہرین اور امریکی حکام کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پولنگ میں فراڈ ہونے کے بہت ہی کم امکانات ہوتے ہیں۔

ٹرمپ کی شخصی حقیقت یہ ہے کہ جس جمہوری راستے سے منتخب ہو کر وہ ایک بار پھر امریکا کے صدر بنے ہیں وہ اسے پوری طرح ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ وقت ثابت کرے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نئے چار سالہ دور میں امریکا میں انتخابی نظام یا جمہوری طریقہ کار کو کتنا نقصان پہنچا پاتے ہیں۔ 

عام طور سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ امریکی نظام ٹھوس آئینی ڈھانچے اور سیاسی روایات پر استوار ہے۔ کسی ایک شخص کے لیے اسے توڑنا یا تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ 2020 میں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے اور کسی بھی طرح خود اپنی کام یابی کا اعلان کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی تھی۔ 

امریکا میں 6 جنوری کو کانگریس پر حملہ کرنے والے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے اور سزائیں دی گئی ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے گرفت میں نہیں آ سکے کہ بہ حیثیت صدر ان کے کسی فیصلے یا حکم کا احتساب نہیں ہو سکتا۔