عدالت عالیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں جرائم خصوصاً اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی بنیاد پر امن و امان کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے جو ان اداروں کو ان کی ناکامی کی یاد دلاتا رہے گا۔اس ملک کی تباہی کا باقاعدہ آغاز تب ہوا جب بیورو کریسی خصوصاً قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ اور ادنیٰ آفیسرز یا اہلکار نےریاست کی بجائے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی اور ریاست کی بجائے’’اپنی پارٹی‘‘ کے جائز اور ناجائز مفادات کا تحفظ کا ’’فرض‘‘ ادا کرتے رہے بالفاظ دیگر ریاست مفادات نظرانداز کرکے یہ آفیسرز سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے طور پر ان کی غلامی میں مصروف ہیں۔پسند نا پسند کا کلچر کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب پنجاب میں میاں نوازشریف کے دور میں پولیس سروس آف پاکستان اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے کچھ آفیسرز نے مرکز جانے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد کسی آفیسر کو اس قسم کی حرکت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ یہ کلچر اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’’اپنے اپنے‘‘ آفیسرز کی تعیناتیاں شروع کر دیں جس کا مقصد ملک میں امن و امان قائم کرنے، دہشتگردی کی بیخ کنی، جرائم کے خاتمے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داریوں کی ترجیحات کو مسترد کرتے ہوئے صرف اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے پولیس اور ایڈمنسٹریشن گروپ کے بعض انتہائی نااہل افسروں کو اہم ریاستی ذمہ داریاں سونپ دیں اور یہ غیرقانونی اور غیراخلاقی فیصلوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک سیاست، معیشت اور قانون کی حکمرانی کی زبوں حالی کے بعد انتظامی قحط سالی کا شکار ہوگیا کیونکہ سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے جانے والے پروفیشنلزم میں انتہائی ناکارہ لیکن’’جی حضوری‘‘ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔اس ملک کی بربادی کی بنیاد انہی طبقات نے رکھی جو اس ملک کو لوٹنے،اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر ایمان رکھتے ہیں،یہاں ملازمتیں میرٹ پر نہیں سفارش کی طاقت کے بل بوتے پر ملتی ہیں، تعلیم، ذہانت، قابلیت کی بنیاد پر نہیں۔یہاںسیاسی بھرتیوںکےبوجھ نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے، ملک کئی بار دیوالیہ پن کی قبر پر لات مار کر واپس لوٹا ہے لیکن کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ یا حکمراں اپنی یہ غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ملک کی بربادی کے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔اس ریاست کی یہ بدنصیبی ہے وقت گزرنے کے ساتھ کرپشن، رشوت ستانی، اقربا پروری اور ریاست دشمنی کو قانونی تحفظ اور عدالتی پذیرائی حاصل ہے جس کے نتیجے میں ملک میں اس قسم کی ’’سیاسی بیماریوں کی افزائش‘‘ میں مدد ملتی ہے۔اس بات سے پروفیشنل پولیس آفیسرز کا اتفاق ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ جو کبھی معتبر اور کرپشن سے پاک ادارے کے طور پر مانا اور پہچانا جاتا تھاآج کرپشن بلیک میلنگ کا وائرس اس ادارے سسٹم میں’’درانداز‘‘ ہوچکا ہے جس نے پورے نظام کرپٹ کرنے کے دروازے کھول دئیے ہیں جہاں سے ملازمین کی واضح طور پر تین طبقات میں تقسیم دکھائی دیتی ہے - پہلے طبقے میں انتہائی ایماندار، اپ رائٹ، پروفیشنل، کریڈیبل اور رزق حلال پر ایمان رکھنے والے ملازمین شامل کئے جاسکتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ انتہا درجے کا کرپٹ، بددیانت، بلیک میلر اور تیسرا اور اہم راشی طبقہ مرتشی کے شکار پر یقین نہیں رکھتا بلکہ سرکاری کام کرنے کے عوض معاوضہ کے نام پر رشوت لیتے ہیں۔کوئی ادارہ ایسا نہیں جسے پورے یقین کے ساتھ کرپشن سے پاک قرار دیا جا سکتا ہو۔ملک کے ہر ادارے میں کرپشن کی وباء اس قدر پھیل چکی ہے کہ ایک ادارے کا ملازم اپنے ساتھی ملازم رشوت لے کر اس کا کام کرتا ہے یعنی زندہ رہنے کے لئے ایک سانپ دوسرے سانپ کو کھاجاتا۔حالات اس قدر دگرگوں ہوچکے ہیں راشی کوئی شرم محسوس کئے بغیر اپنے ہی ساتھی سے رشوت لینا اپنا حق سمجھتا ہے اس کا نظارہ تھانوں یا ہیڈ کوارٹرز میں کیا جاسکتا ہے جہاں ایک سپاہی اور دوسرے سب آرڈینٹس سے قانونی چھٹی منظور کرانے کے لئے ایک ہزار روپے فی چھٹی کے عوض رشوت وصول کئے جاتے ہیں۔اندرونی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ اکثر اوقات صرف چھٹیوں کی منظوری کی مد میں پولیس کے لوئر اسٹاف سے کروڑوں روپے اکٹھے کئےجاتےہیں لیکن پولیس حکام اس کھلی لوٹ مار کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس بلا روک ٹوک رشوت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس زیادہ حصہ ’’اوپر‘‘ تقسیم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حکام کے ساتھ ’’تعاون‘‘ کرنے والے ریڈرز ’’تادم مرگ‘‘ اپنی منفعت بخش سیٹوں پر قابض رہتے ہیں اور انہیں ہٹانے کی جرات کوئی نہیں کرسکتا۔صرف پولیس کامحکمہ ہی ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ہے بلکہ بیشتر قانون نافذ کرنے والے ادارے، تحقیقاتی اور انتظامی ادارے، کچہریاں اور عدلیہ سے منسوب محکموں کے علاوہ ہر راشی ادارہ اس ملک کی حالت اس قدر دگرگوں کرنے کا ذمہ دار ہے۔