• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی دنیا زور اور طاقت کی حکمرانی کے زمانے سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے ۔اب یہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور ذہنی صلاحیتوں کے بہتر استعمال کی دنیابن چکی ہے۔ زمانے کے انداز بدل چکے ہیں۔عالم اسلام اور ہم مسلمان جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے 5 سو سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ امریکا و یورپ ایجادات و اختراعات کے میدان میں ہم مسلمانوں سے بہت آگے نکل چکےہیں۔ اس میں مصنوعی ذہانت کا بڑا کردار ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے غزہ، لبنان اور ایران میں جو حملے کئے ہیں ان میں کئی ایسے تکنیکی پروگرام بھی بروئے کار لائے گئے ہیں جو چہروں کی شناخت اور متعلقہ ٹارگٹ کے خاص مقام پر پہنچنے کے حوالے سے کارروائی کرتے ہیں۔ حسن نصراللہ کی شہادت کیلئے یہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ آج کی دنیا میں عزت سے رہنے اور آگے بڑھنےکیلئے مصنوعی ذہانت کا حصول ناگزیر ہو چکا ہے۔ اب ففتھ جنریشن وار کا زمانہ بھی تقریباً گزر چکا ہے۔ ففتھ جنریشن وار ایک طرح کی ’’سائبر وار‘‘ ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ میں قوم کا مورال ڈاؤن کرنے اور انتشار پھیلانے کیلئے فیک آئی ڈیز اور نامعلوم اکاؤنٹس کے ذریعے شرانگیز ٹوئٹس اور پوسٹس، مسلکی، لسانی اور علاقائی خلیج کو گہرا کرنے کیلئے نامعلوم تحریریں، اسی طرح فیک اور ایڈیٹ شدہ ویڈیوز وائرل کر کے ملکی وقار کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ صرف حکومت، فوج یا دفاع پر مامور اداروں کا مسئلہ نہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اس کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ یہ ملک ہمارا ہے، خدانخواستہ اسے کوئی نقصان پہنچا تو یہ ہم سب کا مشترکہ نقصان ہو گا۔ فرسٹ جنریشن وار تا ففتھ جنریشن وار کے ماڈل وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ان ماڈلز میں سب سے خوفناک، تباہ کن اور ہمہ جہت ماڈل ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ہے۔ففتھ جنریشن وار فیئردراصل غیر علانیہ جنگی ماڈل ہے، جس کے تحت کم خرچ بالا نشیں پراکسی لڑائیاں، مکمل فتح کے بجائے دشمن کو مسلسل مصروف رکھنا اور گھائل کرتے رہنا، دشمن کو اس کی معمولی غلطیوں اور پروپیگنڈوں کی وجہ سے علاقائی و عالمی سطح پر بدنام کر کے الگ تھلگ اور کمزور کرنا، عوام میں ذہنی خلفشار، احساسِ عدم تحفظ، احساسِ کمتری، لسانیت اور عصبیت پیدا کرنا شامل ہے۔ یہ جنگ سائبر اسپیس سے لے کر عملی میدانوں تک، جعلی خبروں اور تصاویر سے لے کر جعلی کرداروں تک ہر محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ اس ماڈل کے تحت ملک میں خلفشار، معاشی بد حالی، نظریاتی ٹکراؤ اور انارکی پھیلانے کی منظم سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کو روایتی یا ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے فتح کرنا ممکن نہیں، چنانچہ وہ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔ ففتھ جنریشن وار کا میدانِ جنگ بہت وسیع ہے،کسی زمانے میں دشمن کا ہدف ہماری افواج اور سرحدیں ہوا کرتی تھیں، مگر اب دشمن کا نشانہ افواج اور سرحدیں ہی نہیںبلکہ عوام اور پورا ملک ہے۔ دشمن کے کارندے مقامی سہولت کار وں کے ذریعے عوامی مقامات پر دھماکے اور قتل عام کرواتے ہیں۔ ان حملوں کا اصل ہدف وہ نہیں جو مر جاتے ہیں ، بلکہ وہ کروڑوں افراد ہوتے ہیں جو زندہ بچ جاتے ہیں اور ان کی بقیہ ساری زندگی خوف و ہراس، تشویش اور مایوسی میں گزرتی ہے۔ باہمی خانہ جنگی کا لازمی نتیجہ معاشی تباہ حالی ہے۔ معاشی بدحالی میں عوام تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، قوم پرست و علیحدگی پسند تنظیمیں زور پکڑنے لگتی ہیں اور یہیں سے دشمن کو افرادی قوت میسر آتی ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے بنیادی تصوارت کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ریاست کی مختلف اکائیوں کو جوڑنے والے بنیادی تصورات اور آئین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلتی ہے۔ پروپیگنڈے کے ذریعے عوام میں جھوٹ، غیر ضروری تشویش، مایوسی، خوف اور نفرتیں پھیلاکر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مقصد کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد اور نوجوان دُشمن کا اولین ہدف ہوتے ہیں ۔ میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جاتا ہے، جس کا سب سے بڑا ذریعہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہیں۔ میرے ہم وطن بھائیو! یاد رکھو کہ ہم ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہیں۔ اتحاد واتفاق کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اگرہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو افغانستان، عراق، شام اور لیبیا وغیرہ بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنے ارد گرد کےماحول پر گہری نظر رکھنا ہو گی کہ کہیں دشمن ہمارے درمیان تو نہیں چھپا بیٹھا۔ اب مصنوعی ذہانت کا دور شروع ہو چکا ہےاور یہ ففتھ جنریشن وار سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ ہمیں آرٹیفشل انٹیلی جنس کو سنجیدگی سے سیکھنا، سمجھنا ہو گا۔ اپنے کاموں میں اس کا استعمال نہایت ہی ضروری ہے ورنہ دشمن ایسی جگہ سےوار کرے گا کہ ہم حیران و پریشاں ہو جائینگے۔

تازہ ترین