ہم کلیاتِ اقبال میں سے اپنے سائز کا اقبال تلاش کرتے ہیں اور پھر اسے محفلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ اقبال وہ جن ہے جس کا قد آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور جس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اسے دیکھ کر ہمیں اپنی کوتاہ دامنی کا احساس ہونے لگتا ہے چنانچہ ہم جنتر منتر پڑ ھ کراس جن کو مکھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جس طرح پرانی داستانوں میں کوئی مکرو ہ جادوگر کسی خوبصورت شہزادے کو مکھی بنا کر بوتل میں قید کر دیتا ہے ۔اقبال ممولے کو شہباز سے لڑانا چاہتا ہے ، اقبال ذہنوں کو کشادہ کرنا چاہتا ہے۔ اسکی خواہش ہے کہ دماغ کو کام کرنے کی اجازت دی جائے لیکن ہم دولے شاہ کے چوہے بنے رہنے پر اصرار کرتے ہیں ۔اقبال کو ملا سے چڑ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال نہیں کرتا بلکہ دلیل کے طور پر اپنے سے بڑےکسی ’’ملا‘‘ کی سند تلاش کرنے میں لگا رہتاہے اور یوں اس کا ذہن کشادہ نہیں ہو پاتا:
فقیہ شہر کی تحقیر کیا مجال میری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
پرانا لطیفہ ہے کہ ایک سردار جی چھپڑ میں ہاتھ ڈال کر اپنی گری ہوئی چونی تلاش کر رہےتھے اور ساتھ دعا مانگ رہے تھے کہ یااللّٰہ میری چونی مل جائے ۔ایک دوسرے سردار کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے موصوف کو ڈانٹتے ہوئے کہا، یہ تم نے کیا یااللّٰہ یااللّٰہ لگائی ہوئی ہے، واہ گرو سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ اس پر سردار جی نے بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا اور بولا، میں ایک چونی کی خاطر اپنے واہ گرو کا ہاتھ چھپڑ میں ڈلوانا نہیں چاہتا مگر ہمارے مذہبی پیشوا چونی سے بھی کم تر مقاصد کیلئے اللّٰہ اور اسکے رسول ؐ کا نام استعمال کرتے ہیں جسکے ہولناک نتائج آج سامنے آ رہے ہیں ۔اور ہم صرف مذہبی پیشوائوں ہی کو مورد الزام کیوں ٹھہرائیں اس کام میں ہم میں سے کون کس کے پیچھے ہے ہم سب ملک کی بربادی میں پورے خلوص سے اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اسکے بعد ایک دوسرے سے پوچھتے بھی رہتے ہیں کہ یار ملک کا کیا بنے گا ۔تقریباً دو دہائی قبل میں بیرون ملک گیا اُس وقت ہمارے ہاں جلسے جلوس زوروں پر تھےٹی وی چینلزآٹھ آٹھ گھنٹے لائیو کوریج کرتے تھےہر کام ٹھپ پڑا ہوا تھا چنانچہ بیرون ملک مقیم پاکستانی مجھ سے ملتے تو یہی سوال کرتے کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟پہلے تو میں حسبِ توفیق انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا حتیٰ کہ بار بار کئے جانے والے اس سوال سے زچ ہو کر ایک دن میں نے ایک دوست کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ جب دوسری جنگ عظیم نے طول پکڑا اور لوگوں کی پریشانی اپنے عروج پر پہنچ گئی تو چرچل کے ایک قریبی دوست نے چرچل سے ملاقات کا سوچا تاکہ وہ براہ راست اس سے پوچھے کہ یہ جنگ کب ختم ہو گی کیونکہ لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہے تھے؟وہ تین دفعہ چرچل کی طرف گیا مگر ملاقات نہ ہو سکی تاہم ایک روز بالآخر وہ ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگیا۔چرچل نے خوشدلی سے اپنے دوست کو ویلکم کیا ۔ سگار سلگایا اورایک کش لیکر اپنے اس دوست سے پوچھا، یار یہ جنگ کب ختم ہو گی؟ مجھے لگتا ہے کہ چرچل کی طرح ہمارے رہنمائوں کے سامنے بھی مستقبل کا نقشہ واضح نہیں ہے کہ آخر وہ بھی تو ہم ہی میں سے ہیں۔میں معذرت خواہ ہوں کہ میں بار بار گھوم پھر کر ایک ہی نکتے پر آ جاتا ہوں مگر اقبال بھی تو دل کی کشاد والی بات بار بار کرتا ہے۔ یہ دلوں کی گھٹن ہی کا نتیجہ ہے کہ قوم کے سبھی طبقوں میں عدم برداشت کا زہر پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ہم اختلاف برداشت کر ہی نہیں سکتے میں نے پاکستان کا ابتدائی دور دیکھا ہے اُن دنوں لوگوں میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھاکے پی کے جو ان دنوں صوبہ سرحد کہلاتا تھاکہ ایک سیاسی رہنماخان غلام محمد خان لوند خوڑتھے۔اونچے لمبےاور ہربات بے دھڑک کہہ دینے والےایک دفعہ کسی نے انہیں بتایا کہ سعادت حسن منٹو نے تمہارا خاکہ لکھا ہے ۔اور اس میں تمہارے خلاف بہت باتیں کی ہیں یہ سن کر خان صاحب غصے سے بھرے ہوئے لاہور پہنچے ۔بیڈن روڈ پر منٹو کو پکڑ لیا اور پوچھا’’ تم نے امارے بارے میں کوئی مضمون ’’لکا ‘‘ہے‘‘ ۔منٹو نے کہا میں نے لکھا ہے کہ خان صاحب شراب پیتے ہیں۔
اور کیا ’’لکا ‘‘ ہے ؟
اور یہ لکھا ہے کہ وہ طوائفوں کا گانا سنتے ہیں؟
’’اور ؟‘‘بس یہی لکھا ہے
اس پر خان صاحب نے کہا ’’بارا یہ تو تم نے ٹِیک لِکاہے، لوگ کہتے تھے خلاف لکھا ہے‘‘
کیا آج کے دور میں اُس رویے کی توقع کی جا سکتی ہے؟آج تو ہم اور تو اور کسی شاعر کی کسی غزل پر تنقید کر دیں تو اس کی دشمنی سات نسلوں کومول لینا پڑتی ہے ۔ خدا کیلئے ایکدوسرے کو برداشت کریں جن خیالات کو آپ پسند نہیں کرتے اسکے جواب میں اختلاف کرنےکے سر پہ اینٹ نہ ماریں، اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی نہ کریں بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیں کہ اس وقت ملکی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اختلاف برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سےعسکری تنظیموں کا وجود میں آنا ہے اور یوں اس کا نتیجہ عوام کےسکون اور ملکی معیشت کی بربادی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔ایک سیاح اسرائیل کی سیاحت پر گیا اس نے دیوار گریہ کے بارے میں سن رکھا تھا کہ یہودی وہاں جاکر زاروقطار روتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں چنانچہ اس نے بھی وہاں جانے کی ٹھانی اور راہگیر سے پوچھا کہ دیوار گریہ کہاں ہے وہاں اس دیوار کا نام انکی اپنی زبان میں ہے چنانچہ راہگیر نے لاعلمی کے اظہار کیلئے اپنا سر ہلایااس پر سیاح نے وضاحت کی کہ وہ وہاں جانا چاہتا ہے جہاں یہودی دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں اس پر راہگیر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے انکم ٹیکس کے دفتر چھوڑ آیا ۔اور ہم نے بھی آہ وزاری کیلئےاپنی اپنی دیوار گریہ منتخب کر رکھی ہے جہاں جاکر ہم روتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔کچھ کی دیوار گریہ واشنگٹن ہے کسی کی کوئی عرب یا ہمسایہ ملک اور کسی کی دیوار گریہ جی ایچ کیو ہے جہاں یہ لوگ جاتے ہیں گڑگڑا کر روتے اور اپنے ’’گناہوں‘‘ کی معافی مانگتے ہیں، اگر وہاں سے معافی مل جائے تو سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں ورنہ پھانسی بھی ہے، جلا وطنی بھی ہے۔ ہم لوگ کیوں اپنی مدد آپ نہیں کرتے؟ ہم ملکی ترقی کیلئے اپنے دونوں ہاتھ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ایک ہاتھ آپ کا ہو اور ایک ہاتھ آپ سے اختلاف کرنیوالے کا اور یہ دونوں اگر مل جائیں تو پھر ہمیں کسی دیوار گریہ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن کبھی ایک ہاتھ کھجلانے کے کام میں مشغول ہوتا ہے اور کبھی دوسرا ہاتھ اور یوں ہماری قوم ایک عرصے سے صرف ایک ہاتھ سے کام لے رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اقبال ہمیں شاہین دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں ’’ٹُنڈا‘‘ کہلانے کا شوق کیوں ہے؟