بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر فائنل احتجاجی کال دیدی ہے۔ اس بار انہوں نے کسی پارٹی رہنما کے بجائے اپنی ہمشیرہ علیمہ خان کے ذریعے پارٹی کو پیغام دیا ہے کہ وہ 24نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کیلئے نکلے اور اسلام آباد کی طرف چل پڑے ۔ بقول علیمہ خان کے بانی نے اس کیلئے ایک کمیٹی بھی مقرر کی ہے اور اس کو ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ کب، کہاں کیا کرنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ابھی کمیٹی کے ارکان کے نام ظاہر نہیں کئے جاسکتے۔ عجیب بات ہے کہ بانی نے پارٹی رہنماؤں کے بجائے علیمہ خان کے ذریعے جنہوں نے گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں بانی سے ملاقات کی تھی یہ پیغام کیوں جاری کرایا۔ دوسری بات یہ کہ وہ کیسی کمیٹی ہے جس میں شامل ارکان کو نہ تو فائنل کال کی تاریخ کا پتہ تھا نہ ان کو یہ معلوم ہے کہ وہ بھی اس کمیٹی میں شامل ہیں۔ ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ احتجاج کی شروعات کہاں سے اور کس طرح ہونگی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی ذمہ داری کس کی ہوگی۔
ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اس فائنل احتجاج میں اور کون کونسی جماعتیں شامل ہونگی اور شامل ہونگی بھی یا نہیں اور اگر کچھ لوگ شامل ہوتے بھی ہیں توان کی شرائط اور احتجاج کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ کیا یہ کال صرف کے پی والوںکیلئے ہے کیونکہ یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ پنجاب سے نہ کسی کارکن نے پی ٹی آئی کے کسی احتجاج میں شامل ہونا ہے نہ کسی رہنما نے شامل ہونا ہے اور نہ ہی ایک روپیہ خرچ کرنا ہے۔ پنجاب کی12کروڑ آبادی میں سےاگر20ہزار لوگ بھی احتجاج میں شامل ہوں تو یہ تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہےاور ابھی تک پانچ چھ ہزار سے زیادہ لوگ توکبھی پی ٹی آئی کے گزشتہ احتجاجوں میں نظر بھی نہیں آئے۔ کے پی کے میں تمام تر دعوؤں اور پیسہ خرچ کرنے کے باوجود پانچ چھ ہزار لوگ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی کال پر صوابی موٹر وے پر جمع ہوسکے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت بھی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم اور آئینی بنچز کے بعد بانی کی آخری امید بھی ختم ہوگئی ۔ ذرائع کے مطابق کسی نے شاید ان کو یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ سے کوئی امید نہ رکھیں کیونکہ اب وہ وقت نہیں ہے۔ امریکی صدر کو خطے کی صورتحال کے پیش نظر بانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی پالیسی کے مطابق دوستی کا انحصار ضرورت پر مبنی ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ خود بھی کاروباری ہیں اور حالیہ الیکشن میں ان کی کامیابی ایلون مسک اور چند دیگر بڑے کاروباری افراد کے ڈالرز خرچ کرنے کی مرہون منت ہے۔ بحیثیت کاروباری ا فراد وہ سب نہیں چاہتے کہ صدر ٹرمپ کسی نئی جنگ میں الجھیں یا موجودہ جاری جنگوں کو طول دیا جائے۔ اس تناظر میں امریکہ اس خطے میں بھی غیر ضروری تناؤ نہیں چاہے گا البتہ امریکہ اس ملک سے قربت اختیار کرے گا جہاں اس کو اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ لہٰذا جس ہمدرد نے بانی پی ٹی آئی کو صدر ٹرمپ سے کوئی خاص امید وابستہ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے وہ درست لگتا ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ بانی کویہ بھی بتایا گیا ہے کہ چند غیر جانبداروں کو چھوڑ کرکوئی پارٹی عہدیدار ان کی رہائی نہیں چاہتا۔ اسی طرح بیرون ملک پارٹی عہدیدار بھی ان کو غلط فہمی میں رکھ رہے ہیں جس میں خاص طور پر صدر ٹرمپ کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ اور بیرون ملک سے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان اور ریاستی اداروں کے بارے میں جھوٹ پر مبنی جو مذموم مہم چلائی جارہی ہے اس کا بھی بانی کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، مریم نواز اور خواجہ آصف جیسے لوگوں کے پیچھے آوازے کسنے، نازیبا کلمات یا گاڑی پر مکے مارنے سے یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کوبے لباس کرتے ہیں بلکہ ان شرمناک حرکتوں کی وجہ سے بانی کو ذاتی طور پر اور پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ بانی کےنام اور پی ٹی آئی کے نعرے لگانے والے یہ بے شرم وبے حیاسوچے سمجھے منصوبے کے تحت بانی اور اس جماعت کے اصل دشمن ہیں ان میں زیادہ قصوروار وہاں بیٹھے منصوبہ ساز اورسہولت کار ہیں۔
مختصراً یہ سمجھئے کہ بانی کےہمدرد چند ایک اور دشمن بےشمار ہیں اور اب شاید ان کو بھی سمجھ آگئی ہے۔24نومبر کی کال فائنل تونہیں ہے یہ ایک آخری حربہ ضرور ہے۔ اس کے دو مقاصد ہیں ایک تویہ کہ اب بانی چھانٹی کرناچاہتے ہیں اور اس کیلئے ان سب کو چھاننا ضروری ہے۔ لیکن بانی کی یہ کوشش اس وقت کارآمد ثابت ہوگی جب24نومبر آجائے اور فائنل کال کی صدا برقرار رہے۔ دوسرا مقصد جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ بانی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات سے مکمل مایوس ہوچکے ہیں اور جو بانی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطہ کار سمجھا جارہا تھا جس سے بانی کی امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی ناکام ثابت ہوا کیونکہ دوکشتیوں کا سوار کبھی پار نہیں پہنچ سکتا۔ اگر علیمہ خان کے الفاظ پر غور کریں تو دوسرا اور اہم مقصد واضح ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بانی کی ہدایات کے مطابق مذکورہ ’’ خفیہ کمیٹی‘‘ جس سے بھی مناسب سمجھے مذاکرات کرسکتی ہے اور اگر مذاکرات کے ذریعے ’’معاملات‘‘ کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو احتجاج کی کال منسوخ ہوسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ اب بانی پارٹی رہنماؤں سے مشوروں کو اہمیت نہیں دیں گے اور وہ حکومت سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور حکومت مذاکرات کرے گی یا نہیں۔ فائنل یہ ہے کہ فائنل کال صرف بہانہ ہے یہ احتجاج ہوتا نظر نہیں آتا۔