السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
’’مہذّب لوگوں‘‘ کو کیسے پتا چلے؟
ماہِ اگست کے شمارے، ٹائٹلز پر مسکراتی حسینائوں کےساتھ، ساون کی رِم جِھم میں وصول پاتے اورہمارے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کرتے رہے۔ بے شک، اِس میں تو کوئی دو رائےنہیں کہ روزنامہ جنگ کا ’’سنڈے میگزین‘‘ معیار کے اعتبار سے دیگر تمام جرائد سے بہت آگے ہے۔ انٹرویوز ایک خاص انداز سے لیے جاتےہیں۔ اس کے نئے لکھاری بھی بہت عرق ریزی سے متنوّع موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ اکثرمضامین پڑھ کرتو ہم اپنی اردوگرامر درست کرتے ہیں۔
’’اسٹائل‘‘ کےصفحات پر آپ نے لکھا کہ ’’اگر بات خُود پسندی و خُود پرستی کی انتہا ’’نرگسیت‘‘ کی ہوتویونانی دیومالائی کی کہانیوں میں وہ ایک مرد شہزادے نارسس سے منسوب ہے۔‘‘ لیکن ہمارے مطالعے کے مطابق یونانی دیو مالائی قصوں میں نرگس ایک شہزادی کا نام تھا، جو اپنےحُسن وجمال پر بہت نازاں تھی اور ایک بارجھیل میں غسل کرتے ہوئے جب اُس کی نگاہ شفّاف پانی میں اپنے ہی عکس پر پڑی، تو وہ خود پر ہزارجان سے فریفتہ ہوگئی۔
خیر، ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کےحوالے سےڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر بہت اچھی تھی، لیکن اصل حجاب تو ’’شٹل کاک برقع‘‘ ہے۔ یہ ’’ڈاکو برقع‘‘ تو محض اپنی آنکھیں دکھانے کےلیے ہوتا ہے اور ہاں، جب ’’اسٹائل‘‘ کے صفحے پر بعض دفعہ دو، تین یا چار، ماڈلز ہوتی ہیں، تو ہم ’’مہذّب لوگوں‘‘ کو یہ کیسے پتا چلے کہ کون سا نام کس ماڈل کا ہے۔ (محمّد اسلم بلوچ، روڈی خیل، کلورکوٹ، بھکر)
ج: ایک طرف اصل حجاب ’’شٹل کاک برقع‘‘ ہے، ’’ڈاکو برقع‘‘ آنکھوں کی نمائش کے لیے ہے۔ دوسری جانب ماڈلز کا ایکس رے، اُن کے ناموں کے ساتھ کرنے کی بھی خواہش ہے۔ بخدا ایسی شان دار’’تہذیب‘‘ کچھ پاکستانی مَردوں ہی کا خاصّہ ہے۔ اور ’’نرگسیت‘‘ سے متعلق ہماری تحقیق تو مصدّقہ ہے، آپ دل لگی، رنگینیٔ مزاج کےلیےاِسےبھی کسی خاتون سے موسوم کرلیں، ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
’’اسٹائل‘‘ کی تحریروں کا مجموعہ
یہ بات ہمارے لیے بےحد خوشی وانبساط کا سبب ہےکہ آپ نےاتنےمصروف، نفسانفسی کے دَورمیں بھی محض اپنی کاوشوں سے شاعروں، ادیبوں کا ایک پسندیدہ قدیم مشغلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہم ضرورپڑھتے ہیں، خصوصاًمسند پر براجمان شخصیت کاخط۔ ویسے زیادہ تر ہمیں عالمی سیاسی حالات اور مُلکی سیاست ہی سے دل چسپی رہتی ہے۔ خود بھی کالم وغیرہ لکھتے ہیں۔ جنگ کے میگزین میں عرصہ ہوا دو عدد افسانے ’’بورڈنگ ہائوس کی سیڑھیوں پر‘‘ اور ’’ہم ہوئے تمہارے‘‘ بھی شائع ہوچُکے ہیں۔ خط لکھنا اور پھر ڈاک خانے جا کے پوسٹ کرنا کارِدارد ہے۔
آج بھی نامعلوم کون سی مرتبہ خط لکھا ہے اور اِس کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جدید فیشن کے صفحے میں، آپ جو کبھی مختصراور کبھی تفصیلی تحریرلکھتی ہیں، نہ جانے کون سے شہد اورکون سے رنگوں میں ڈبو کرلکھتی ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ وہی جریدے کی خُوب صُورت ترین تحریر ہوتی ہے اور ہم سے پوراہفتہ حاصلِ میگزین سمجھ کرانتظار کرواتی ہے، تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اگر آپ کی ان تحریروں کا کوئی مجموعہ شائع ہواہے، تو عنوان بتا دیں، ہم اردو بازار سےخرید لیں گے اور نہیں شائع ہوا، توضرور شائع کروائیں۔ (جمیل ادیب سیّد، شاہ فیصل ٹائون، کراچی)
ج: ذرّہ نوازی کا بے حد شکریہ۔ کوئی 25برس سے تو ’’اسٹائل‘‘ کی تحریریں لکھی جارہی ہیں۔ سو، اُن کا ایک مجموعے میں سمانا تو ناممکن ہے اور10 مجموعے شائع کروانے کے لیے گردہ بیچنا پڑے گا۔ اِس لیے ہم نے تو کبھی بھول کے بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں باندھا۔ ویسے ہمارے والد صاحب کے بعد آپ دوسرے شخص ہیں، جنہوں نے اِس قیمتی مشورے سے نوازا ہے۔
سب سے ناراض ناراض
دُعا ہے، قدم، قدم خوشیاں، کام یابیاں و کام رانیاں آپ کے ساتھ ہوں۔ میگزین میرے ہاتھوں میں ہے۔ بالآخر میرا ارسال کردہ خط بھی شاملِ اشاعت ہوا،خواہ دیر ہی سے سہی، ازحد شکریہ۔ پچھلے کوئی مہینہ ڈیڑھ سے کافی مصروفیت اورپریشانی میں مبتلارہا۔یکےبعددیگرے دوبار والدہ صاحبہ سخت بیمار ہوگئیں۔ اِسی دوران آبائی علاقےمیں ہم شیرہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ سے اور تمام قارئینِ جنگ، سنڈے میگزین سے اُن کے لیے دُعائے مغفرت اور والدہ کے لیے دُعائے صحت کی درخواست ہے۔
جلد اپنی کوئی تحریراورماموں (مرحوم) کا سفر نامہ اشاعت کے لیے بھیجوں گا۔ مجموعی طور پر پورا میگزین ہی بہترین ہے۔ اس ہفتے ٹائٹل پر ماڈل اقرا علی جلوہ افروز تھی۔ ماشاءاللہ سرتاپا حُسن و خُوب صورتی کا مجموعہ، مگر ایک کمی ضرورمحسوس ہوئی، جس پرشاید کسی نے توجّہ بھی نہ دی کہ ماڈل پر پہلی نظر ڈالتے ہی یوں لگا، جیسے وہ سب سے ناراض، ناراض ہیں۔
سینٹر میں کل9 تصاویر تھیں، مگر کسی ایک میں بھی چہرے پر مسکراہٹ دکھائی نہیں دی، حالاں کہ ذرا سی مسکان سے حُسن میں کہیں زیادہ نکھار آجاتا۔ آپ کی تحریر کا بھی جواب نہ تھا، بہت ہی باریک بینی سے نوخیز دوشیزائوں کے اندرونی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی اور یہ یقیناً آپ ہی کا خاصّہ ہے۔ (محمّد صفدر خان ساغر، محلہ شریف فارم، نزد مکّی مسجد راہ والی، گوجرانوالہ)
ج: ماڈل پر اس قدر عمیق تحقیق کی بجائے والدہ کی تھوڑی خدمت کرتے، ہم شیرہ کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک سیپارہ پڑھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اللہ رب العزت آپ کی بہن صاحبہ کی کامل مغفرت فرمائیں۔ والدہ ماجدہ کو صحت کی دولت سے مالا مال رکھیں اور آپ بھی ناحق کسی غم میں گُھلنے سےمحفوظ رہیں کہ یہ تو ہم آپ کو لکھ کے دینے کو تیار ہیں کہ اقراء کم ازکم آپ سے ہرگز ناراض نہیں تھی۔
جو اُردو بول سکتے ہیں…
آج ’’سنڈے میگزین‘‘ کی جاں فزا بہار میں جو اپنا صفحہ اُلٹا، تو بےاختیار نظر پہلی ہی سطر و عنوان پر جم کر رہ گئی۔ شعر کی کھنکتی تار کے ساتھ اپنی اعزازی چٹھی پر شمائلہ نیازکی مبارک باد نے یوں دل شاد، مسحورکیا کہ لگا ’’رقم بمع سود وصول ہوگئی‘‘ شمائلہ!یہ شعر اِسی ادبی محفل کا عنایت کردہ ہے کہ ہم جو اچھے اشعارکی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، تو9 فروری 2020ء کے شمارے میں پروفیسر ظفر انوار حمیدی (مرحوم) نے اپنے خط میں یہ شعر لکھا تھا اور جواب میں اِسے پورا کرتے ہوئے نرجس ملک نے پوری غزل ہی عنایت کر دی تھی، تو ہم نے وہ تراشا کاٹ کر اپنی فائل میں محفوظ کرلیا تھا۔
اب وہی اشعار آپ کے شعری ذوق کی نذر کرتے ہیں کہ ؎ خوشبو ہیں تو ہردَور کو مہکائیں گے ہم لوگ…مٹّی ہیں تو پَل بھرمیں بکھرجائیں گےہم لوگ…کہنا ہے یہ ناقدریٔ اربابِ جہاں سے…اِک بار جو بکھرے تو ہاتھ نہ آئیں گے ہم لوگ…بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھائوں میسّر…ڈھلتا ہوا سایہ ہیں، گزر جائیں گے ہم لوگ۔ اور ہاں، جس طرح ہم آج تک خالدہ سمیع کا قلمی دوستی کا بڑھا ہوا ہاتھ، اُمِ حبیبہ کاخط کو’’قلمی چھکا‘‘کہنا، پرنس افضل کی قدردانی، پروفیسر منصور کا خراجِ تحسین نہیں بُھلاسکے، ایک مَن پسند شعر کے دامن سے لِپٹی مبارک باد بھی نہ بھول پائیں گے کہ یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں توتلخیٔ زیست کم کرکے زندگی عطا کرتی، قلم کو رواں کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بلاشبہ اس محفل ہی نے باور کروایا ہے کہ ؎ سلیقے سے ہواؤں میں جو خُوشبو گھول سکتے ہیں…ابھی کچھ لوگ باقی ہیں، جو اُردو بول سکتے ہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: کوشش کیا کریں کہ آپ بھی جو اُردو لکھیں، وہ ہم سمیت سب سمجھ بھی پایا کریں۔
راندۂ درگاہ لوگ…؟؟
آپ کی محبّت و شفقت کے طفیل راندۂ درگاہ لوگ بھی مثلاً نواب زادہ بےکار ملک، نازلی فیصل، سید زاہد علی، شری مُرلی چند و دیگر آخر کار کام یابی کا زینہ طے کر ہی جاتے ہیں۔ ویسے اکثراحباب ’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھنے، خوب ہنسنے، محظوظ ہونے کے باوجود صرف اِس خوف سے بزم میں شامل ہونے سے ہچکچاتے ہیں کہ نامعلوم آپ کیسے عزت افزائی کریں۔ پھر اب لفافہ بھی 30 روپے کا کردیا گیا ہے۔
خیر، ربیع الاول کی مناسبت سے حافظ محمّد ثانی کا شاہ کار، ایمان افروز تھا۔ دل کو خُوب تازگی بخشی۔ ڈاکٹرعزیزہ انجم کا یہ لکھنا کہ ’’نبی کریمﷺ ہمیشہ مُسکراتے تھے‘‘، سیدھا دل میں اُتر گیا۔ منور راجپوت نے معروف خطّاط، واصل شاہد سے اچھاانٹرویو کیا۔
عبدالستار ترین بلوچستان کے مسائل کا رونا رو رہے تھے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سیّد زاہد علی، شری مرلی چند، عائشہ ناصر، رونق برقی، نازلی فیصل، نواب زادہ بےکار ملک کے خطوط شامل ہونے اور عشرت جہاں کے ونر بننے پرمبارک باد پیش کرتی ہوں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظّرگڑھ)
ج:شمائلہ بی بی! اپنی تحریر میں کوئی نیا لفظ استعمال کرنے سے پہلے اُس کے معنی پرغور فرمانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ محض بھاری بھرکم (لیکن بےموقع، بے محل) الفاظ کےاستعمال سے تحریروزنی ہوجاتی ہے، توایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ کو ’’راندۂ درگاہ‘‘ کے معنی بھی معلوم ہیں۔ کم ازکم لفظ لکھنے سے پہلے اُس کے معنی تو چیک کرلیتیں، جب کہ دورِحاضر میں تو یہ صرف ایک کلک کا کام ہے۔
نوجوان نسل سارا سارا دن موبائل فون میں گُھسی رہتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ لغت کے استعمال کی بھی عادت ڈالے۔ پھر آپ نے ایک معروف نعت کامصرع بھی بالکل غلط استعمال کیا (جسے ایڈٹ کر دیا گیا)۔ آئندہ خط بھیجنے سےپہلے اُسے کم ازکم چار بار ضرور پڑھیں، وگرنہ ممکن ہےکہ ’’راندۂ درگاہ‘‘ کے معنی عملی طور پر معلوم ہوجائیں۔
تابش دہلوی کے چاہنے والے!!
تازہ سنڈے میگزین کے ’’متفرق‘‘ میں محمّد واصل عثمانی کا تابش دہلوی پر مضمون پڑھنے کوملا، بہت ہی شان دار تحریرتھی۔ کتنی اچھی بات ہے کہ آج بھی تابش دہلوی کے اتنےچاہنے والے موجود ہیں، اسی لیے ہر سال اُن کی برسی پر کوئی نہ کوئی مضمون پڑھنےکومل جاتا ہے۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد کی ’’ڈنک‘‘ پسند آئی اور ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں مشرقی لڑکی کا خط پڑھ کر اچھا لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ای میل کافی طویل تھی، تب ہی فونٹ باریک کیا گیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی، آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا، ای میل کافی زیادہ ایڈٹ کی گئی (حالاں کہ بہت عُمدہ انداز سے لکھی گئی تھی) اِس کے باوجود کالم میں سما نہیں پارہی تھی، تو کالم سائز بڑھایا اور فونٹ سائز کم کیا گیا۔
فی امان اللہ
شمارہ متنوّع، قابلِ قدراورمعلومات افزا مضامین لیے دعوتِ مطالعہ دے رہا تھا۔ سرِورق پر سبز رنگوں کی پھوار، جیسے گلستاں میں اُتری ہو بہار۔’’جشنِ آزادی ایڈیشن‘‘لائقِ صد ستائش ٹھہرا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’نظام ِتعلیم کی تشکیل میں قرآن و سنّت سے رہنمائی‘‘ انتہائی خُوب صُورت مضمون تھا۔ واقعی، ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم اسلامی اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹرغلام مصطفیٰ نے تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں سندھی رہنماؤں کے کلیدی کردار کو واضح کیا۔
’’متفرق‘‘ میں اقبال شاکر نے عظیم رہنما، قائدِاعظم محمّد علی جناح کے طرزِ زندگی، طرز سیاست اور طرزِحُکم رانی پر دل نشین انداز میں روشنی ڈالی۔ بلاشہ قائدِاعظم جیسے نابغۂ روزگار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ ہےناں کہ ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے…بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ وَر پیدا۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ ہی میں ڈاکٹر قمرعباس اپنے انوکھے طرزِ تحریر کے ساتھ رقم طراز تھےاورقائدِاعظم کی دُور اندیشی، معاملہ فہمی، فراست وذہانت اور مستقبل شناسی پرروشنی ڈال رہے تھے بقول میر تقی میر ؎ مَت سہل ہمیں جانو، پِھرتا ہے فلک برسوں…تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں سبز پہناووں میں لپٹی، سبزہلالی پرچم سے سجی بزم، ایڈیٹرصاحبہ کی شاہ کار تحریر کے ساتھ بہت خُوش کن لگی۔ اے کاش! ہم وطنِ عزیزکےلیےدی گئی قربانیوں کو یاد رکھیں اورمُلک ہر چیز پر مقدّم ہو۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ ؎ دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف…اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بھارت کے دفاعی بجٹ کے اعدادوشمار بتارہےتھے، جو یقیناً ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک ہم ہیں، جو ماضی ہی سے نہیں نکل رہے۔ بقول اقبالؒ ؎ ’’فکرِ فردا نہ کروں، محوِغم دوش رہوں‘‘ کی مثال بنے ہوئےہیں۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی نے عمر خیامؒ سے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں، یہاں مَیں عمرخیامؒ کی مشہور رباعی کے چند اشعار کا انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی جسارت کروں گا، جو کہ یونی ورسل خیالات کے حامل ہیں۔How time is slipping underneath our feet: Unborn tomorrow, and dead yesterday, Why fret about them if today be sweet’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے بڑے ہی دل نشیں انداز میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ واقعی، پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
ارسلان اللہ خان نے بھی بڑے اچھے انداز سے جدید، اسلامی، فلاحی مملکت کا نقشہ پیش کیا۔ ڈاکٹرعزیزہ انجم اورارسلان اللہ خان دونوں کواتنے خُوب صُورت مضامین تحریر کرنے پر دلی مبارک باد۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد کی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تحریر پسند آئی، خاص طور پر اختتام۔ خیال الپاک ظفر کا نغمۂ پاکستان، محمّد جاوید اقبال کا ملی نغمہ اور سخاوت علی کی دُعا ؎ سرسبز و شاداب رہے، ایسا چمن دے، بہت ہی پیارے اور اِخلاص بھرے خیالات و الفاظ تھے۔ رہی بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، تو یہ تو ہےہی پیارے پیارے لوگوں کا پیارا صفحہ۔ دُعا ہے کہ یہ محفل سدا ایسے ہی سجی رہے۔ (جاوید اقبال، اسٹریٹ 1، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)
ج: ماضی میں آپ کا خط زیادہ متوازن ہوتاتھا، جب کچھ غلطیوں کی نشان دہی، مثبت تنقید بھی فرماتے تھے۔ خالی خولی مدح سرائی ہمیں کچھ زیادہ بھائی نہیں۔ بس، طرزِ نگارش کی عُمدگی کے سبب مسند دے ڈالی ہے۔
* مَیں نے آپ کو اپنی شاعری کی کتاب ’’تحفۂ بہار‘‘ کےنام سے تبصرے کے لیے بھیجی تھی۔ ایک ماہ سےزائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سنڈے میگزین میں ری ویو کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ کیا مَیں جان سکتا ہوں کہ کسی نئی کتاب پرتبصرہ شائع ہونے میں عام طور پر کتنا وقت لگتا ہے؟ (ڈاکٹر نجیب اللہ خان)
ج: تبصرے کی اشاعت میں وقت تو لگتا ہے، جو تین سے چار ماہ پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ مگرآپ کی کتاب کا معاملہ کچھ اور تھا۔ یقیناً منور راجپوت نےآپ کو ذاتی طور پرآگاہ کر دیا ہوگا۔
* میگزین عین بقرعید اور فادرزڈے کو موصول ہوا۔ پاکستانی قوم کتنی چٹوری ہے، اس کا اصل اندازہ عید/بقرعید پہ ہوتا ہے۔ شیرازاپل کو جانتی تونہیں تھی، لیکن انٹرویو سے لطف اندوز ہوئی۔ اسٹائل کی تصاویر کا رزلٹ بہت خراب تھا۔ جیسے بچپن میں ہم مختلف اخبارات سے تصویریں کاٹ کے اپنی ڈائری میں چپکاتے تھے، بالکل ویسی لگ رہی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے دونوں افسانے بہت پسند آئے۔ کبھی کسی فادرز ڈے پر اُن باپوں پر بھی کچھ لکھوائیں، جو اپنی فیملی کی بالکل پروا نہیں کرتے۔
پیارا گھر کی تراکیب نوٹ کرلی ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم انور کےخط کےجواب میں آپ نے جو اتنا پیارا گیت لکھا، پڑھ کے آنکھیں بھیگ گئیں۔ ویسے تو یہاں کی زندگی بہت آرام دہ ہے، لیکن مجھے اپنے بچپن کی گلیاں، اسکول، سہیلیاں بہت یاد آتی ہیں۔ اور ہاں، ’’ اس ہفتے کی ای میل‘‘ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی۔ شاید کبھی یہاں میرابھی نام جگمگائے۔ ان شاءاللہ۔ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)
* مجھے کچھ معلومات درکار ہیں، کیا افسانہ یا ناول وغیرہ بھی میگزین میں شائع ہوسکتا ہے اور اسکے معاوضے کی ادائی کا کیا طریقۂ کار ہے؟؟ (ماہ نور احمد)
ج: اگر کوئی افسانہ یاناول ہمارےمعیارکے مطابق ہو، تو ضرور شایع ہوسکتاہے، لیکن معاوضے کی ادائی کا کوئی طریقۂ کارنہیں کہ ہمارے یہاں سرے سے ایسی کوئی روایت ہی نہیں۔ سمجھیں، ’’سنڈے میگزین‘‘ میں تحریر کی اشاعت ہی مصنف کا اعزازیہ ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk