پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی لیکن حکومت نے اسے سنبھالا دینے کیلئے جو مثبت اور غیرمعمولی اقدامات کئے ،ان کے نتیجے میں صرف 14ماہ کے مختصر عرصے میں استحکام کی راہ پر گامزن ہوگئی ہے،جس کا اعتراف آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی کھلے دل سے کیا ہے۔افراط زر کی شرح 38سے کم ہوکر 7فیصد پر آگئی ہے ۔زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔مہنگائی اور سود کی شرح میں واضح کمی آئی ہے لیکن وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے ٹیلی وژن پر اپنی تقریر میں ملکی معیشت میں بہتری کے خدوخال اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ان کامیابیوں پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جانا چاہئے بلکہ ملکی مفادات میں آگے بڑھنے کیلئے ایسے اقدامات جاری رکھنے چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وزیراعظم جلد ہی روڈ میپ کا اعلان کریں گے۔معاشی بحالی میں جہاں عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کی اعانت شامل ہے وہاں ملک کے ٹیکس دہندگان کا بھی بڑاکردار ہے جنھوں نے مشکلات پر قابو پانے میں حصہ لیااور نئے یا اضافی ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کیا۔آئی ایم ایف مشن کے حالیہ دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے وفد سے ٹیکس،توانائی اور دستاویزی اصلاحات اور پبلک فنانس کے معاملات پر سیر حاصل تبادلہ خیال ہوا۔حکومت نے پبلک فنانس کے تحت رائٹ سائزنگ کا اپنا منصوبہ مشن کے ساتھ شیئر کیااور آئی ایم ایف سے موسمیاتی فنانسنگ کی درخواست کی ،کیونکہ موسمیاتی ایمرجنسی اور فضائی آلودگی بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے۔معیشت کے ساتھ ہمیں میثاق ماحولیات پر بھی دستخط کرنا ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ ،زراعت اور ہول سیلرز سمیت تمام شعبوں پر ٹیکس لگے گاکیونکہ تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچررز پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔پاکستان کو ہم وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں یہ پہلے پہنچ چکا تھا۔اس کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔چاروں وزرائے اعلیٰ نے معیشت کی بہتری کیلئےتعاون کا یقین دلایا ہےاور یقین ہے کہ ہم معیشت کو مستحکم کرنےکے مقررہ اہداف حاصل کرلیں گے۔یہ کامیابی مقدار اور معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس نیٹ بڑھاکر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی آبادی جس طرح سے بڑھ رہی ہے،اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ ان اقدامات کے بغیر آگے بڑھنے کی رفتار برقرار رکھی جاسکے۔غذائی قلت کے شکار ملک کے 40فیصد بچوں کا مستقبل بھی ان ہی اقدامات سے جڑا ہوا ہے۔پنشن کے معاملات بھی اس حوالے سے زیر غور ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کا مشن اپنے اربوں روپے کے قرضوں کےپس منظر میں معاشی بحالی کیلئے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے آیا تھا اور ان قرضوں کے استعمال کے حوالے سے مطمئن ہوکر واپس گیا ہے۔مگر ساتھ ہی کچھ نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور مالیاتی معاملات درست کرنے پر بھی اس نے زور دیا ہے۔ وزیرخزانہ نے اسی پس منظر میں مزید شعبوں پر ٹیکس لگانے کی بات کی ہےجو یقیناً ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے ضروری ہےمگر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ملک معاشی تبدیلی کے جس مشکل مرحلے سے گزررہا ہے ،اس میں فیصلہ سازوں کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے چاہئیں۔اس وقت تنخواہ دار طبقہ ہی ایسا ہے جو مجبوری کے تحت ٹیکسوں میں اضافے کا ناقابل برداشت بوجھ برداشت کرتا چلا آرہا ہے ۔نئے ٹیکسوں کی جو بات وزیرخزانہ نے کی ہے ،یہ شعبے پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ،اس لیے مناسب ہوگا کہ اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مشاورت اور باہمی رضامندی سے فیصلے کیے جائیں۔