• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے 1952ء کے بعد سے ایندھن کا بڑا انحصار قدرتی گیس پر کیا ۔ان 72برسوں میں سوئی گیس کا ذخیرہ ختم ہونے کے قریب ہے اور متبادل پیداوارنہ ہونے سے گھریلو اور صنعتی صارفین کی مشکلات انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔بحران کے ابتدائی برسوں میں گیس کی بندش سردیوں میں رات کے وقت چند گھنٹوں پر محیط تھی،اب سارا سال رات کے اول پہر سے صبح تک اس کی لوڈشیڈنگ کرنی پڑرہی ہےجبکہ سردی کے موسم میںگیس نہ ہونے کی حد تک پریشر کم ہونے کی شکایات ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سردی کا سیزن آتے ہی اور پاور سیکٹر کی جانب سے درآمد شدہ گیس کی کھپت میں مزید کمی آنے سے گزشتہ پانچ دن میں گیس لائن انتہائی پریشر 5.12سے 5.228بی سی ایف ہوگئی ہے ،جس سے قومی گیس ٹرانسمیشن نیٹ ورک کوخطرے سے دوچار قرار دیا جارہا ہے۔ماہرین کے مطابق جب سسٹم میں پریشر 5بی سی ایف تک پہنچ جائے تو یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا اور پورے ملک کو گیس کی عدم دستیابی سے دوچار کرسکتاہے۔رپورٹ کے مطابق سردی کے آغاز کے ساتھ ہی سوئی نادرن نے مقامی گیس کی کھپت 200ایم ایم سی ایف سے کم کردی ہے لیکن لائن پریشر اب بھی خطرناک سطح سے اوپر 5بی سی ایف پر ہے۔ پیداواری کمپنیوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ گیس ٹرانسمیشن سسٹم کی حفاظت کیلئے مقامی گیس کا بہائو کم کرنا خطرناک ہےاور کنوئیں اگر اپنے اختتامی مراحل پر ہوں تو ان سے گیس کا بہائو کم کرنے اور پیداوار دوبارہ شروع کرنے کیلئے نئے سرے سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔اس بارے میں حوالہ دیا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ماضی میں کئی کنوئیں بڑے نقصان سے دوچار ہوئےاور دوبارہ استعمال کے قابل نہ رہے۔گیس حکام کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بغیر کوئی نقصان اٹھائے اس مسئلے کا بلاتاخیر حل نکالنا چاہئے۔

تازہ ترین