عندلیب زہرا ،راول پنڈی
مَیں پوری طرح مارننگ شو میں کھوئی ہوئی تھی۔ شادی بیاہ کا سیگمینٹ چل رہا تھا۔ عروسی ملبوسات، بھاری بھرکم جیولری، دل نشین میک اَپ کہ اچانک ’’باجی…‘‘ کی صدا پر میرا ارتکاز ٹُوٹ گیا۔ مَیں نے بدمزہ ہو کر سامنے دیکھا، تو سُکھاں کھڑی اپنے سیاہ کُھردرے، گیلے ہاتھ دوپٹّے سے خشک کر رہی تھی۔ مَیں نے خُود کو ذہنی طور پر اُس کی رام کہانی سُننے کے لیے تیار کر لیا۔
’’کیا ہوا سُکھاں…؟‘‘بس، یہ پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ پھپھک پھپھک کے رونے لگی۔ واقعی اُس کی داستان بہت غم ناک تھی۔ اُس کا نشئی شوہر اُس کی کمیٹی لےکر بھاگ گیا تھا، جو اُس نے بیٹی کی شادی کے لیے ڈالی تھی۔ اور اِس المیہ کہانی کا انجام ہمیشہ کی طرح اِسی فقرے پر ہوا کہ ’’باجی! سُکھاں کی زندگی میں کوئی سُکھ نہیں…ہر شےکی کمی ہے، ہر رشتہ ماڑا ہے جی۔‘‘
اس نے سُڑ کی آواز کے ساتھ اپنی ناک پونچھی۔ مَیں نے بہت کوفت سے اُس کی طرف دیکھا، تاہم خاموش رہی، کیوں کہ اُس کا چہرہ شدید رنج وغم سے عبارت تھا۔ مَیں نے پرس سے پانچ سو روپے نکال کر اُسے دیے تاکہ اُس کےغم کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ اُس نے نوٹ کو عقیدت سے دیکھتے ہوئے تھام لیا، تو مَیں دوبارہ شو کی طرف متوجّہ ہوگئی۔ اور وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔
بچّوں کے اسکول سے آنے کا ٹائم ہو رہا تھا۔ مَیں نے آٹا سیلیب پر رکھا۔ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں نکالیں، تو بالائی کا پیکٹ اور تین انڈے غائب تھے۔ مَیں سمجھ گئی، یہ کس کا کام ہے، مگر سر جھٹک کر توے سے گرم گرم پھلکے اتارنے لگی۔ سُکھاں ہمارے گھر تقریبآ آٹھ برس سے کام کر رہی تھی۔ اِن آٹھ برسوں میں وقت بہت بدل گیا تھا۔
ہر شے تبدیلی کے عمل سے گزر رہی تھی، ماسوائے سُکھاں کےحالات کے۔ اُس کے صرف مسائل کی نوعیت ہی بدلتی تھی۔ کبھی خاوند کی بےروزگاری، کبھی نکما پن، کبھی اولاد کی نافرمانی۔ مَیں کبھی بہت ہم دردی کرتی، تو کبھی بے زار بھی ہو جاتی۔ ’’دُکھی سُکھاں‘‘ بچّوں نے تو اُسے لقب ہی یہ دے رکھا تھا۔
رافع نے بہت پیارا پینسل کیس خریدا تھا۔ سُکھاں کی چھوٹی بیٹی چوری چوری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ رافع کی ہم عُمر تھی۔ مَیں اگلی بار مارکیٹ گئی، تو اُس کے لیے بھی ایک سستا لیکن خُوب صُورت پینسل کیس خرید لیا۔ سُکھاں بہت شُکر گزار ہوئی۔ بچّی نئی چیز پا کر بہت خوش تھی، بار بار ہاتھ لگاتی۔ دوسروں کو دی جانے والی چھوٹی چھوٹی آسودگیاں اپنی زندگی میں بھی آسانیاں لاتی ہیں، میرا ایمان تھا۔
مناہل کو رنگ برنگی پونیوں، ہئیرکلپس کا بہت شوق تھا۔ ہمہ وقت اُس کے بالوں میں سجی رہتیں۔ اتوار کو مَیں کچن میں مصروف تھی، جب مناہل سنجیدہ چہرے کےساتھ میرے پاس آئی۔ اُس کے ہاتھ میں گلابی کلپ تھا، جو وہ کئی روز سے ڈھونڈ رہی تھی۔ ’’ماما! یہ سُکھاں کی بیٹی کے بالوں میں لگا تھا۔ مَیں اُتار کر لائی ہوں۔ اُس نے میری اجازت کے بغیر اُٹھایا ہے اور یہ چوری ہے۔‘‘ اُس نےشکایتی لہجے میں کہا۔
مجھے بھی یہ حرکت بُری لگی، تاہم مناہل کو پیار سے سمجھاکر مَیں نے سوچا، سُکھاں سے بات کروں گی کہ ’’جب سب کچھ مل جاتاہے، تو بِنا اجازت اس طرح چیزیں اُٹھانا…‘‘لیکن اِس کی نوبت ہی نہ آئی۔ اِس سے پہلے کہ مَیں عدالت لگاتی، سُکھاں آنکھ پر نیل لیےچلی آئی۔ ’’باجی! روڈ کراس کررہی تھی۔
گڈی والے نے ٹکر ماری۔ مَیں اِدھر گِری، منزہ باجی نے پھلوں کا تھیلا دیا تھا، وہ اُدھر… سب پچک گئے۔‘‘ وہ سُوں سُوں کر رہی تھی۔ مجھے بھی افسوس ہوا۔ جھٹ اُسے فریج سےنکال کے مالٹے، سیب دیے۔ اور پیناڈول کے ساتھ چائے، جسے وہ سڑپ سڑپ پی رہی تھی۔ گولی بھی اس نے ٹافی کی طرح چبا کر حلق میں اتاری۔ ’’ڈر لگتا ہے، گلے میں پھنس نہ جائے۔‘‘ اُس کی بُری سی بنی شکل دیکھ کر مَیں نے گھورا، تو فوراً بولی۔’’میری زندگی بھی بہت کڑوی ہےباجی! بالکل اِس گولی کی طرح۔ میری زندگی میں کوئی سُکھ نہیں۔‘‘ اور روتی دھوتی گیٹ سے نکل گئی۔
مناہل کے نیلے موزے الگنی سے غائب تھے۔ مَیں سُکھاں کی عادت سے نالاں تھی، کبھی کبھی ٹوکتی بھی تھی۔ لیکن اُس کے حالات، بے چارگی، شوہر، بچّوں کی طرف سے کوئی سُکھ نہ ہونے کے خیال سے چُپ ہو رہتی۔ اکثر اشعر کوبھی بتاتی۔ مگر وہ بھی خدا خوفی کے سبب خاموش ہی رہ جاتے۔ امّی(میری ساس) میرے پاس رہنے آ رہی تھیں۔ ہم دونوں روایتی ساس بہوقطعاً نہ تھیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مَیں نے اپنی ساس سے بہت کچھ سیکھا تھا۔
اُن میں رعب و دبدبہ تھا، لیکن حلاوت بھی تھی۔ وہ جب بھی آتیں، سُکھاں سے فاصلہ رکھتیں۔ اب بھی وہ سب کے لیے تحفے، تحائف لائیں، تو سُکھاں کو نقد رقم دی۔ مگر جواباً وہ ہمیشہ کی طرح اپنے دُکھڑے رونے لگی۔ ’’بیٹے نافرمان ہیں جی…باپ پرگئے ہیں اور بیٹیاں ڈھیٹ۔ معلوم نہیں، میری زندگی میں کوئی سُکھ کیوں نہیں…‘‘ وہ زارو قطاررونے لگی، تو مَیں بھی آب دیدہ ہوگئی کہ اس کی پریشانیاں، آنسو سچّے تھے۔
’’نہ جانے اِس کی زندگی میں کوئی سُکھ کیوں نہیں۔ بچّوں کی خاطراِس نےاپنی پوری جوانی تیاگ دی۔ ہاتھوں، پیروں میں چھالے پڑے رہتے ہیں، لیکن اس کی زندگی کے دُکھ ختم نہیں ہوتے۔‘‘ مَیں نےاُس کے جانے کے بعد امّی سے کہا۔ وہ چُپ چاپ میری باتیں سُنتی رہیں۔ ’’تم جانتی ہو، اِس کی پریشانیاں کیوں ختم نہیں ہوتیں؟‘‘ کچھ دیر بعد اُنھوں نے اُلٹا مجھ سے استفسار کیا۔ ’’آسمان کو چُھوتی منہگائی، نشئی شوہر، اور نافرمان اولاد کی وجہ سے…‘‘ مَیں نے اُس کے نصیب کے کھوٹے سکّے گنوانے چاہے۔ ’’نہیں بہو!اِس کی یہ چھوٹی چھوٹی چوریاں…ہیرا پھیری کی عادت ۔‘‘ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ ’’سُکھاں سے جب سبزی منگواؤ، تو دس بیس روپے ضرور کم ہوتے ہیں۔‘‘ سامنے والی رقیہ آنٹی کی شکایت یاد آگئی۔ مناہل کا گلابی کلپ… انڈے… موزے… بظاہر کتنی معمولی چیزیں تھیں، مگر شاید یہی سب ایک عفریت بن کر اُس کی قسمت پرحاوی ہوگئی تھیں۔ اور شاید ہماری چشم پوشی بھی…جو ہر غریب کو مظلوم سمجھ لیتی ہے۔ سامنے پڑے ڈرائی فروٹ کے پیکٹس میں ایک کم تھا۔ مَیں نے دیکھا۔ اور بے اختیار ہی خُود کلامی کی۔ ’’اب مَیں سمجھ گئی سُکھاں، تمھاری غربت کم کیوں نہیں ہوتی۔‘‘