• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منزلوں کی تلاش میں شہروں کارُخ کرنے والے شہروں کی آسائشوں ہی کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر شہروں کی بِھیڑ میں گُم ہو کر گائوں کے رستے بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن… ان آسائشوں کو منزل سمجھنے والوں کی زندگیاں ، آسائشوں کے پیچھے بھاگتے اور منزل کی جستجو کرتے کرتےہی ختم ہو جاتی ہیں۔

گاڑی گاؤں میں داخل ہو چُکی تھی۔ ٹوٹی سڑک کی جگہ نئی کشادہ سڑک پر اب بیل گاڑیوں کی جگہ چِنگ چی رکشے دَوڑ رہے تھے۔نہر کے کچّے پُل کی جگہ پکّے پُل نے لے لی تھی، لیکن وہ منظر بڑا دل خراش تھا کہ جب کچّے پُل سے چھلانگ لگا کر نہر میں کُودنے والے مَن چلوں کی جگہ پُل پر سیلفیاں لیتے نوجوان نظر آئے۔ وہ منظر دیکھ کر احساس ہوا کہ واقعی وقت بہت بدل گیا ہے۔نہر کے کنارے دو تین رکشوں والے اپنے رکشے دھو رہے تھے،والی بال کا گرائونڈ ویران پڑا تھا، چاچا نذیر کےجلیبی ، نمک پارے کے چھپرے کی جگہ ’’نذیر سوئیٹس‘‘ نامی دُکان نے لے لی تھی۔جیرا نائی،جس درخت کے نیچے شیشہ ڈال کر پورے گائوں کی حجامت کرتا تھا، اب اُس جگہ اُس کا بیٹا ہیئر ڈریسنگ کی دُکان کھولے بیٹھا تھا۔

ماما شفیق کی پرچون کی آٹھ بائی دس کی ہٹّی، اب اسٹور کی شکل اختیار کر چُکی تھی۔گنّوں کا رس نکالنے والی مشین کی جگہ مِلک شیک اور سافٹ ڈرنکس کا کھوکھا نظر آ رہا تھا،چائے کا چھپرے والا ہوٹل، پکّی اینٹوں کےہوٹل میں تبدیل ہو چُکا ہے۔ گاؤں کے سب لوگ کام کاج سے فارغ ہو کرجہاں بیٹھتے اور گاؤں کے داخلی معاملات سمیت پوری دنیا کے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، وہاں اب بھی کچھ شناسا چہرے نظر آرہے تھے، لیکن ہر کوئی موبائل فون کی اسکرین میں محو تھا۔گاڑی بازار سے نکل کر حویلی کے مرکزی دروازے پر رُکی تو ڈرائیور کی آواز نے اُسے چونکا دیا۔

’’صاحب حویلی کا دروازہ بند ہے۔‘‘وہ گاڑی سے باہر آیا،دروازے پر تالا نہیں تھا۔وہ کُنڈی کھول کر اندر داخل ہوا، تو سامنے حویلی کی پُر شکوہ، مگر اجاڑ و خاموش عمارت کھڑی تھی،بالکل سردیوں کی ٹھٹھرتی رات کی طرح۔خالدہ بھی آخری بار اُس سے ملتے ہوئے ایسے ہی خاموش تھی۔ایسی خاموشی،جو سب کچھ کہہ دے۔کبھی اس حویلی میں ہر طرف آوازیں گونجتی تھیں،صبح کی اذان کے بعد ہی سے حویلی میں چہل پہل شروع ہو جاتی،نماز کے بعد ناشتے اور حویلی کی صفائی کا آغاز ہوتا۔ملازم، امّاں کے ہر حکم پر دَوڑے دَوڑے پھرتے، ٹریکٹر کی آواز سُن کر ہی سب کو معلوم ہو جاتا کہ ابّا اور چچا زمینوں کی طرف چل دئیے ہیں۔

امّاں حویلی کے کاموں سے فارغ ہو کر صحن میں چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتیں اور گائوں کی عورتیں چارپائی کے گرد ڈیرہ ڈال لیتیں۔ گائوں کی عورتوں کے جھگڑے نمٹانے سمیت ان کے مسائل اور ضروریات حل کرنے کی ذمّےداری بھی امّاں نے اُٹھا رکھی تھی۔ دوپہر کو ابّا کے واپس آتے ہی عورتیں اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتیں اور امّاں، ابّا کی خدمت میں جُت جاتیں۔ دونوں چچاؤں کے گھرانے بھی حویلی ہی میں رہتےتھے۔ شام کو مردانے میں ابّا کی بیٹھک شروع ہوتی اور رات کے کھانے تک وہاں چائے اور لسّی کے کئی دَور چلتے۔

ابّا بھی گائوں کے مسائل اور تنازعات کے فیصلے کرتے اور سب بخوشی ان فیصلوں کو قبول کر کے گلے لگ جاتے۔ اسی دوران اچانک کہیں سے ملنگ سائیں کی آواز آتی ’’سب نے ٹُر جانا ہے( سب نے چلے جانا ہے )‘‘ اور پھر ملنگ سائیں وہاں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا۔ سب ملنگ سائیں سےپورا دن گائوں میں ہونے والے واقعات کی تفصیلات سُن سُن کر محظوظ ہوتے۔ملنگ سائیں کون تھا، یہ اُسے بھی معلوم نہیں تھا۔ 

بس اتنا پتا تھا کہ جب سے اس نے ہوش سنبھالا ،ملنگ سائیں کو اسی حالت میں دیکھا۔وہ دن بھر گائوں گائوں گھومتااور شام کو خود ہی حویلی لَوٹ آتااور پھر اپنا تکیہ کلام ’’سب نے ٹُر جانا ہے‘‘ دُہراتے ہوئے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا۔قبرستان کے ساتھ واقع مزار ملنگ سائیں کا پکّا ٹھکانا تھا۔ برسوں سے ملنگ سائیں اور اس حویلی کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔لیکن پھر، پہلے چھوٹے چچا نے حویلی چھوڑ کر شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور بعد میں بڑے چچا بھی گاؤں کی ناکافی سہولتوں کا شکوہ کرتے کرتے شہر جا بسے۔ یونی وَرسٹی میں ایڈمیشن کے بعد وہ بھی شہر منتقل ہو گیا تھا،جب تک امّاں، ابّا حیات تھے، اس کی زندگی حویلی کے بغیر نامکمل تھی۔ سو ،وہ ہفتہ وار چھٹّی حویلی ہی میں گزارتا، لیکن اُن کے جانے کے بعد جیسے سب کچھ بکھر سا گیا تھا۔

ہر دَم قہقہوں اور آوازوں سے گونجتی یہ حویلی آج خالی ، خاموش، ویران کھڑی تھی۔ اُسے اس خاموشی سے خوف محسوس ہونے لگا۔ خالدہ نے کہا تھا’’میرے آنسو ہمیشہ تمہارا پیچھا کریں گے۔‘‘ خالدہ اور وہ بچپن کے ساتھی تھے۔ ایک ساتھ کھیلتے کودتے جوان ہوئے،لیکن وہ ہمیشہ اسے کہتا کہ ’’میرے اور تمہارے راستے اور منزلیں الگ الگ ہیں‘‘شہر جانے سے ایک رات پہلے خالدہ اُس کے پاس آئی تھی،کافی دیر بیٹھے رہنے کے باوجود اس نے ایک لفظ نہیں کہا تھا یا شاید نہ کہہ کر بھی سب کہہ گئی تھی۔

اس کی خاموشی سے اسے خوف محسوس ہونے لگا تھا، پھر اچانک وہ جانے کے لیے اُٹھی،دروازے پر پہنچ کر مُڑی تو اس نے اسے دیکھا۔ گہری کالی آنکھوں میں سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔خالدہ کو دیکھ کر اس کا دل بھر آیا تھا، لیکن وہ کم زور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔وہ خالدہ سے تو پیچھا چُھڑا آیا، لیکن اُن بہتی آنکھوں نے کبھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اُس روز خالدہ اس کے کمرے سے تو چلی گئی تھی، لیکن دل سے جانے کا کوئی وعدہ وہ نہ کر پائی۔

وہ حویلی کے اندر جانا چاہتا تھا، لیکن اس کے قدم جیسے اس کا ساتھ چھوڑ چُکے تھے،پوری حویلی خالدہ کی آنکھوں کی طرح اشکوں سے بھیگی ہوئی تھی۔صحن میں گھاس کی جگہ بڑی بڑی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں اور حویلی کی دیواریں بھی خستہ حالی کا شکار تھیں۔ اُسے یاد آیا، شہر جاتے ہوئے گاؤں کے نکّڑ پر، ملنگ سائیں نے اسے جاتا دیکھ کر کہا تھا ’’مَیں نہ کہتا تھا، سب نے ٹُر جانا ہے‘‘اس نے بوجھل قدموں سے حویلی کا دروازہ بند کرنے سے پہلے اس اُجاڑ مسکن پر نظر ڈالی،تو اس کا دل بھر آیا۔ کبھی اس حویلی کے درو دیوار سے زندگی جھلکتی تھی،پیار تھا،خلوص تھا، محبّت تھی اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے لیے وقت تھا۔مکان تو مکینوں ہی سےبستے ہیں ،مکین رخصت ہو جائیں،تو مکان بھی ٹوٹے دِلوں کی طرح شکستہ ہو جاتے ہیں۔

امّاں، ابّا کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر وہ واپس جانا چاہتا تھا،قبرستان کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر گاڑی سے اتر آیا کہ شاید کوئی جنازہ تھا،لوگ دائرے کی شکل میں کھڑے تھے،وہ بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے پہنچا، تو سامنے ایک لاش پڑی تھی۔ لوگوں نے لاش کے چہرے پر ایک بوسیدہ سا کپڑا ڈال رکھا تھا۔ اُس نے کپڑا ہٹایا، تو جیسے اس کا دل اُچھل کر حلق سے باہر آگیا، سامنے ملنگ سائیں کی لاش پڑی تھی۔

اُسے کہیں دُور سے ایک آواز آتی سنائی دی’’سب نے ٹُر جانا ہے،سب چلے جاتے ہیں کوئی واپس نہیں آتا‘‘۔اس کا ذہن مائوف ہو چُکا تھا، گاؤں سے شاید اس کا آخری رشتہ بھی آج ختم ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ آگے بڑھے اور ملنگ سائیں کی لاش کو کندھا دےکر قبرستان لے گئے۔ اور…وہ بوجھل دل اور قدموں سے واپس چل دیاکہ وہ بھی آسائشوں کا عادی ہو چُکا تھا اور آسائشوں کے عادی لوگوں سے منزلیں چُھوٹ جاتی ہیں، لیکن آسائشیں نہیں چُھوٹتیں۔

تازہ ترین