• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد حارث بشیر

مٹّی سے بنے گوشت پوست کے انسان کا مٹّی میں مل جانا قدرت کی طرف سے طے ہے۔ موت اٹل ہے، حقیقت ہے، برحق ہے، مگر تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ نہ صرف مرنے والے کے لیے بلکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے بھی۔ یہ احساس کہ اب ہم کبھی اپنے اُس پیارے کو دیکھ نہیں سکیں گے، اُسے پکار نہیں سکیں گے، اُسے سُن نہیں سکیں گے، اس سے وابستہ ہربات صرف یاد بن کرہی رہ جائے گی، دل کو چھلنی کر دینے کے لیے کافی ہے۔ 

اپنے باپ کی قبر پہ زخمی دل لیے کھڑا وہ شخص سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بھی تنہا تھا۔ اپنے سب سے بڑے سہارے کو اُس نے چند لمحے پہلے خُود سہارا دے کے قبر میں اُتارا تھا۔ ایک ایسا ڈاراؤنا خیال، جسے سوچتے ہوئے اُس کی روح لرز جاتی تھی، حقیقت کا روپ دھارے اُس کے سامنے موجود تھا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ لوگوں کو قبر تیار کرتے، ایک دوسرے کو ہدایات دیتے خالی الذہنی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ اُس کا دل غم سے پھٹنے کو تھا۔ 

دل خون کے آنسو کیسے روتا ہے، یہ اُس پہ اُس لمحے عیاں ہوا تھا۔ اُس کا باپ اُس کی بنجر آنکھوں کے سامنے مَنوں وزنی مٹی تلے چلا گیا تھا، وہ چہرہ جسے دیکھتے اُس کی صُبح، شام ہوا کرتی تھی، اب ہمیشہ کے لیے اِس صفحۂ ہستی سے غائب ہو چُکا تھا۔ زندگی ایک لمحے میں جیسے ہمیشہ کے لیے بدل گئی تھی۔ چند گھنٹے پہلے باپ کے سرہانے بیٹھے اُن سے باتیں کرتے، اُس نے کب سوچا تھا کہ وہ اُنہیں آخری بار زندہ دیکھ رہا ہے۔ علالت نے اُنہیں کم زور اور خاموش کر دیا تھا، تو وہ محض اُن کی آواز سُننے کے لیے اُن سے گھنٹوں بےسروپا باتیں کیے جاتا تھا۔

سفیر مُراد علی، چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اپنی ماں کا چہیتا، پلوٹھی کا بچّہ۔ ایک ذہین طالبِ علم، جو ایک دفعہ پہلے بھی قدرت کے ہاتھوں ایسے ہی بے بس ہوا تھا، جب اُس نے سترہ سال کی عُمر میں اپنی ماں کو کھویا تھا۔ وہ کم سِن تھا اور آفت ایسی اچانک تھی کہ گھر کے باقی افراد کی طرح اُسے بھی سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اپنی ماں کی موت کی خبر سُنتے ہی وہ کسی شیرخوار بچّے کی طرح پُھوٹ پُھوٹ کے رویا تھا۔ ماں کے جانے سے جو خلا اُن کی زندگیوں میں آیا تھا، وہ کبھی پُر نہ ہوسکا۔ 

اُس کے باپ نے ہمیشہ اپنے تئیں بچوں کی اِس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی، مُراد علی پہلے صرف ایک باپ تھے، بعد میں اُن کے دوست بن کے رہ گئے۔ نہ باپ والا رعب و دبدبہ رہا، نہ پہلے جیسی سختی۔ سچ تو یہ تھا کہ شریکِ حیات کے جانے کے غم نے اُن کو بھی اندر سے توڑ کے رکھ دیا تھا۔ وہ اُن کی کمی بچّوں کے ساتھ وقت گزار کے پوری کرنے لگے اور بچّے بھی باپ ہی میں ماں کا عکس ڈھونڈتے رہے۔ 

یہی وہ وقت تھا، جب سفیر اور مُراد ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ ایک گھر کا سربراہ، دوسرا گھرکا بڑا بیٹا۔ وہ بُرے وقتوں میں ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ وقت گزرتا گیا، زندگی کچھ سنبھلنے لگی۔ اُس کی شادی کے ایک سال بعد ایک ننّھی شہزادی اُس گھر کی رونقیں واپس کھینچ لائی تھی۔ وہ قدرت کی طرف سے ایک ایسا تحفہ تھی، جسے سفیر نے آنکھوں سے لگا کر دل میں بسایا تھا۔ اُس کی بیٹی، اُس کی ماں کے نقش لیے تھی۔

قبر تیار کی جا چُکی تھی۔ گلاب کی پتیوں نے مٹّی کے ذرّے ذرّے کو ڈھانپ لیا تھا۔ ہر سُو گلاب، کافور اور اگربتی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ واپسی کی راہ لے رہے تھے اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا مرنے کے بعد لوگ بس اتناہی ساتھ دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے اُس کی زبان باربار لرز رہی تھی۔ آنکھوں پہ چھائی دُھند چَھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آنسو آنکھوں کے اندر ایسے قید تھے کہ جیسے ؎اب رہائی ملے گی، تو مَر جائیں گے۔ 

ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے باپ کی موت پہ رویا نہیں تھا۔ ڈاکٹر کی طرف سے موت کی تصدیق کے بعد جب اس کے بہن، بھائی اُس سے آ لپٹے تھے، تو وہ زار و قطار رویا تھا، لیکن اب اِس احساس نے کہ وہ گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہے، اُس کے آنسوؤں پہ بند باندھ دیا تھا۔ اپنے باپ کو غسل دیتے، ان کو کفن پہناتے، رشتےداروں سے تعزیتی جملے سُنتے وہ بس خاموش رہا تھا۔ شاید اُس کے باپ نے جاتے جاتے خاموشی اُسے دان کر دی تھی۔

’’یااللہ! مجھے کبھی اپنے والدین کی موت کی خبر اِس حالت میں سننے کو نہ ملے کہ مَیں اُن سے دُور ہوں۔ موت گر برحق ہے، تو مجھے آخری وقت میں اُن کاساتھ نصیب کرنا۔‘‘ قبرستان سے واپسی کی راہ لیتے، اُسے وہ دُعا یاد آئی تھی، جو وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا۔ اوراللہ نے اُس کی دُعا قبول کی تھی۔ ماں باپ دونوں کے آخری وقت میں وہ اُن کے ساتھ تھا۔ اُسے ٹیلی فون پہ یہ قیامت خیز خبر سُننے کو نہیں ملی تھی۔ 

اُس کے دل میں خیال آیا کہ کاش وہ پہلے اِس دنیا سے چلا جاتا، تو اُسے یہ غم نہ دیکھنا پڑتا۔ اور یہ خیال پہلی دفعہ نہیں آیا تھا، لیکن پھر اُسے ہمیشہ ایک دوست کی بات یاد آ جاتی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ کیا تھی وہ بات…ہاں، ’’مَیں نے اپنے ماں باپ کو جو واحد خوشی دی ہے، وہ یہ کہ مَیں اُن کی زندگی میں اِس دنیا سے نہیں گیا۔‘‘ ماں باپ کے جانے کا غم، اولاد کے حصّے میں لکھا گیا ہے، جو نسل در نسل ہر کسی کو سہنا ہے، لیکن والدین کی زندگی میں اُن کی اولاد کا اِس دنیا سے چلے جانا ایک ناقابلِ برداشت دکھ ہے۔‘‘ اِس لیے وہ کبھی اُن کی موت سے پہلے اپنی موت کی دُعا نہیں مانگ سکا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی بہنوں اور عزیز واقارب کے رونے، سسکنے کی آوازیں سُنی تھیں، جن میں اضافہ اُس کو دیکھتے ہی ہو گیا تھا۔ اُس کی بہنیں اور چھوٹا بھائی اُس سے لپٹ کر رونے لگے تھے۔ وہ تمام بند، ضبط جو وہ خود پہ لگائے بیٹھا تھا، ٹوٹنے کی کنار پہ تھے۔ دل بےچینی میں گِھرا اور سر درد سے پھٹا جا رہا تھا مگر آنکھیں ہنوز خُشک تھیں اور دل اندر ہی اندر کٹ کے رہ گیا تھا۔ اُن کو دلاسا دے کر وہ خاموشی سے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور سر دیوار سے ٹکا دیا۔ ماں باپ چلے جائیں، تو گھر بھی یادوں کے قبرستان میں بدل جاتے ہیں۔ 

اُس کی بیوی بانو اُس کے قریب آ بیٹھی تھی۔ اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کے اُس نے شوہر کو دلاسا دینے کی ناکام کوشش کی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ تسلی کا کوئی لفظ، صبر کی کوئی تلقین اِس وقت اُس کے غم کا مداوا نہیں کرسکتی تھی۔ سفیر نے آنکھیں میچ لیں۔ بند آنکھوں سے بھی وہ بھی باپ کو گھر میں چلتے پِھرتے دیکھ سکتا تھا۔ وہ نہیں تھے، پھر بھی ہر جگہ تھے۔ اُن کی آواز اُس کے کانوں میں ابھی تک گونج رہی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے دفنانے کے باوجود بھی وہ اس حقیقت پہ یقین نہیں کر پا رہا تھا۔

گھر کے ایک حصّے میں بچّے کھیلنے کُودنے میں مصروف تھے۔ اِس آفت سے بےخبر، جو اس گھر کےباسیوں پہ ٹوٹ چُکی تھی۔ اُن بچّوں میں اُس کی سوا دو سال کی بیٹی بھی تھی، جو باپ کو دیکھ کے اُس کی طرف لپکی تھی۔ ’’بابا، بابا…‘‘ کی آواز سن کے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ آ کر اس کی گود میں بیٹھ گئی۔ اُس کے گالوں کو چومتے ہوئے اُس نے اُسے بے اختیار اپنے ساتھ لگایا تھا۔ 

وہ کچھ دیر اُس کے پاس بیٹھتی پھر دوبارہ بھاگ کر دوسرے بچّوں کے ساتھ کھیلنے چلی جاتی۔ وہ اِس مشکل وقت میں سفیر کی خوشی کا واحد سہارا تھی، جو ایک مشعل کی طرح اِس تاریک زندگی کو روشن کر رہی تھی۔ شوہر کے آرام کے خیال سے بانو بار بار اپنی بیٹی کو شرارتوں سے منع کررہی تھی، لیکن اُس نے نہ باز آنا تھا، نہ وہ سن رہی تھی۔ آخر تھک کر اُس نے اپنی بیٹی سے کہا۔ عنایہ! جاؤ بابا کے لیے پانی لے کر آؤ۔‘‘ ’’اوکے مما!!‘‘ وہ کہتے ہوئے بھاگی تھی۔ 

سفیر نے چونک کر پہلے عنایہ، پھر بانو کی طرف دیکھا۔ بانو کو اُس کے چونکنے کی وجہ جاننے میں لمحہ بھر لگا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب عنایہ چھے ماہ کی تھی۔ ایک رات سفیر نے باتوں باتوں میں بانو سے کہا تھا کہ ’’اماں تو میری اولاد کی خوشی نہیں دیکھ سکیں، لیکن مَیں چاہتا ہوں، ابّو کو وہ ساری خوشیاں دیکھنےکو ملیں۔ جیسے مَیں بھاگ بھاگ کے اُن کے کام کرتا ہوں، ویسے عنایہ بھی کرے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ وہ اُس سے پانی مانگیں، تو عنایہ اُنہیں لا کے دے۔‘‘

عنایہ بھاگتے ہوئے واٹر کولر کی طرف جا رہی تھی۔ اور وہ دَم سادھے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ قبرستان سے گھر واپسی تک وہ یہی سوچتا رہا کہ اس کی یہ خواہش تو اللہ نے پوری نہیں کی۔ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے گلاس اُٹھا کر اس نے زمین پہ رکھا، پھر دونوں ہاتھوں سے کولر کی ٹونٹی کو دباتے ہوئے وہ گلاس میں پانی ڈالنے لگی۔ 

اُس کا ضبط ٹوٹا تھا۔ آنسو کا ایک قطرہ اُس کے گال پہ لڑھکا تھا۔ گلاس اُٹھا کر آتی عنایہ سے تھوڑا سا پانی زمین پہ چھلکا تھا۔ آنسو اب بے اختیار اُس کے گالوں پہ بہنے لگے تھے۔ ’’بابا پانی…‘‘عنایہ نے گلاس آگے کرتے ہوئے کہا۔ اور… سفیر نے گلاس کو تھامتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا تھا۔

سنڈے میگزین سے مزید