• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانتہ رابعہ، گوجرہ

شادی کے سوا تین سال بعد انوار الحق کے ہاں ایک گُل گوتھنی، گپلو سی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔باپ بننے کی خوشی اس قدر تھی کہ اس نے کمپنی میں چُھٹیوں کی درخواست ایک ماہ پہلے ہی دے دی تھی تاکہ وہ بیٹی کی پیدائش کے وقت پاکستان میں ہو۔ ویسے تو وہ کوئی مثالی شوہر نہیں تھا، لیکن اولاد کے لیے اس کے دل میں محبّت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جانے کب سے موجزن تھا۔ غیروں کے بچّے بھی اس کی توجّہ کھینچ لیتے تھے، کویت سے آتے ہوئے وہ محلّے کے بچّوں کے لیے بھی ڈھیروں تحائف،چاکلیٹس، ٹافیاں، اسٹیشنری ، زیرو سائز جوتے، چھوٹے فیڈرز اور کھلونے وغیرہ اُٹھا لاتا۔ 

اور اس کی امّاں بے چاری سر پیٹتی رہ جاتیں، انہیں تو یہ سوچ سوچ کر ہی سر درد شروع ہوجاتا کہ پردیسی بیٹے کی کمائی پر غیروں کے بچّے مزے کر رہے ہیں۔ ’ ’ ہائے ہائے!! میرے بچّے کی محنت کی کمائی کیسے ضایع ہو رہی ہے۔‘‘ وہ ٹھنڈی آہ بھر کراپنی جلن باہر نکالتیں، منہ میں دیر تلک کچھ بدبداتیں، اب ان کا اپنا کوئی نواسا، نواسی بھی نہیں تھی کہ یہ تحفے، تحائف اسےدے دیتیں، لہٰذا اکلوتے بیٹے کی خوشی پر خوش ہونے کی اداکاری کرتیں۔ 

’’آخر ایسا کب تک چلے گا، اس بار انوار آئے گا، تو مَیں اس کی شادی کروادوں گی۔‘‘بہت سوچ بچار کے بعد انوار الحق کی امّاں نے ایک یہی حل نکالا کہ کم از کم اس کا پیسا اپنے خون پر تو لگے گا۔ پھر انوار الحق کے چھٹیوں پر آنے سے قبل ہی انہوں نے بہو کی تلاش شروع کردی، تاکہ انوار کے آتے ہی چٹ منگنی، پٹ بیاہ کردیا جائے۔ 

جب انوار آیا، تو ماں نے لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے اس کی رضامندی پوچھی ، جس پر انوار نے بغیر چُون و چرا ماں کا فیصلہ قبول کرلیا۔ اس طرح ہفتے، دس دن میں انوارالحق کی شادی ہوگئی۔ پھر شادی کی دعوتیں بھگتانے میں کب مہینہ گزرا اور اس کے جانے کی تاریخ آگئی، پتا ہی نہیں چلا۔

پھرسال، چھے ماہ میں اُس کا جب کبھی پاکستان چکّر لگا ،تو وہ بیوی اور ماں سے زیادہ اُس ہستی کے لیے تحائف لاتا، جس کا ابھی کوئی نام و نشان ہی نہ تھا۔ نو مولود کے جوتے، کپڑے، فیڈرز، کمبل، کھلونے…وہ جہاں بھر کا سامان اکٹھا کیے جا رہا تھا۔ لیکن فی الحال اللہ نے اس کے نصیب میں باپ بننے کی خوشی نہیں لکھی تھی، البتہ جس سالے کے ولیمے کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی، اُس کے ہاں دو بچّوں کی پیدائش ہو چُکی تھی، تو بھائی کی محبّت میں انوارالحق کی بیوی نے شوہر کی لائی چیزیں میکے میں دینی شروع کردیں، تو اس کی ساس پر پھر غشی طاری ہونے لگی کہ بیٹے کی محنت کی کمائی، جمع پونجی اس کے سسرالیوں پر خرچ ہو رہی ہے۔

وہ دن، رات، اُٹھتے بیٹھتے بہو کی گود بھرنے کی دُعائیں کرنے لگیں۔ پوتا گود میں کھلانے کی آرزو میں جانے کتنی منّتیں، مُرادیں مانگیں، غریبوں کو کھانا کھلایا، غرض کہ جو اُن کے ہاتھ میں تھا، سب کیا ،بالآخر تین ، سوا تین سال بعد اوپر والے نےان کی دُعائیں سُن لیں اور انوارالحق ایک بیٹی کا باپ بن گیا۔

بچّی دنیا میں کیا آئی ، انوارکی تو جیسے زندگی کی سب سے بڑی مراد پوری ہوگئی۔ حالاں کہ انوارالحق کی ماں پوتے کی آس لگائے بیٹھی تھیں، لیکن بیٹے کی خوشی دیکھتے ہوئے کچھ نہ بولیں۔ جس دن اس کی بیوی کو اسپتال سے چُھٹی ملی، تو انوار نے پورے محلّے میں کھانا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ بچّی کا نام اپنے نام کی مناسبت سے نورالعین رکھا۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے نور گھر بھر کی آنکھوں کا نور اور دل کا سکون بن گئی۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد جب پہلی مرتبہ وہ کویت واپس گیا ،تو اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں، وہی جانتا تھا کہ وہ کس دل سے واپس جا رہا ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد بھی دن میں کم از کم تین، چار بار ویڈیو کال کرتا۔ نور کے لیے ڈھیروں کپڑے اور میچنگ جوتے بھیجتا۔ 

ویڈیو کالز پر اسے لوری سُناتا، بسا اوقات لوری سناتے سناتے خود بھی سوجاتا، تو بیوی دونوں باپ، بیٹی کو دیکھ کر بس ہنستی رہتی۔ انوار کی ماں اُسے ’’جھلّا‘‘ کہتی تھی۔ ’’جانتی ہو بہو! انوار کا ابّا بھی ایسا ہی تھا۔ بچّوں پر جان چھڑکنے والا، جگ بھر کے بچّوں کا مَن پسند کہ سب کو چیزیں جو دلاتا تھا۔‘‘ انوار کو نورالعین سے فون پر باتیں کرتا دیکھ کر انوار کی ماں نے بہو سے کہا۔ ’’مجھے تو لگتا ہے، اگر ان کا بس چلے تو ہر روز اپنی لاڈلی سے ملنے پردیس سے یہاں آجائیں۔‘‘ انوار کی بیوی نے بچّی کے کپڑے تہہ کرتے ہوئے کہا۔

انوار نے اب اپنی ڈیوٹی کے ساتھ دو مزید جگہوں پر جزوقتی ملازمت کرلی تھی اور جتنا دو سال میں کما کر جمع کرتا تھا، اتنا سات ماہ تیرہ دن میں کما کر پھر پاکستان آگیا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی نور پَری کی زندگی کا ہر مرحلہ اس کی آنکھوں کے سامنے طے ہو، جب وہ پہلا قدم اُٹھائے، بولنا شروع کرے، تو وہ اس کے ساتھ ہو۔ اور نور بھی تو اپنے بابا سے حد درجہ پیار کرتی تھی، اس نے پہلا لفظ بھی ’’بابا‘‘ سیکھا تھا۔

وہ جس دل سے کویت جاتا تھا، بس وہی جانتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی کمپنی والے بھی اب اسے ’’نور کا بابا‘‘ ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ دو، سوا دو سال انہی آنیوں، جانیوں میں گزر گئے، پھر اللہ نے اسے دوسری بیٹی کا باپ بھی بنا دیا، جس کا نام اس نے نورالہدیٰ رکھا۔ وہ بھی بڑی بہن کی طرح باپ کی بےحد چہیتی تھی۔ 

حالاں کہ اس کی ولادت پر انوار کی ماں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اللہ اس بار بیٹا دے دیتا، تو میری بوڑھی آنکھیں اپنا وارث بھی دیکھ لیتیں۔‘‘ جس پر انوار نے جواب دیاتھا کہ ’’امّاں! آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں اپنی رحمتیں عطا کیں اور کیا یہ بچیاں میری وارث نہیں ؟‘‘ 

جس پر انوار کی ماں کچھ نہ کہہ سکی تھی۔ انوار کی دونوں بیٹیاں اس کے گلے کا ہار تھیں، دونوں میں جیسے اس کا دل دھڑکتا تھا۔ جس قدر وہ اپنی بچیوں سے محبت کرتا تھا، اسی قدر اس میں احساسِ ذمّےداری بھی تھا، جب ہی اس نے پہلے سے زیادہ محنت شروع کردی تھی تاکہ اپنے گھر والوں، بالخصوص بچیوں کو ہر آسائش، ہر آسانی مہیا کر سکے۔ اور وہ اس میں کام یاب بھی ہورہا تھا، بچیوں کے منہ سے نکلی ہر بات پوری کرتا، ان کی آنکھ کا ایک آنسو اس سے برداشت نہیں ہوتا ۔ کوئی کھلونا، کوئی چیز ایسی نہ تھی، جس پر اس کی بچیاں ہاتھ رکھتیں اور وہ خرید کر نہ دیتا۔ 

لوگ کہتے ’’واقعی اللہ نے بیٹیوں کو انوارالحق کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، ان کی پیدائش کے بعد سے اُن کےہاں مال و دولت کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ ‘‘ملازمت تو پہلے بھی اچھی تھی، لیکن چار، پانچ سالوں میں تین بار پروموشن ہوچُکی تھی۔ پہلے اپنے پیسوں پر پاکستان آتا تھا، اب سال میں ایک مرتبہ ٹکٹ کمپنی کی طرف سے ملنے لگا تھا۔ پھر بیوی اور ماں کے سمجھانے پر اس نے زندگی کی جمع پونجی کاروبار میں لگادی، جس سے منافع ہوا تو اگلے چھے ماہ میں ایک دُکان خرید کر کرائے پر چڑھا دی۔ 

اب کچھ سالوں میں پیسے جمع کرکے ایک مکان یا پلاٹ خریدنے کا ارادہ تھا کہ گرمیوں کی ایک صبح، جب آدھی خلقت خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھی تو انوار الحق کے گھر کوئی مستقل دستک دے رہا تھا، دروازہ نہ کُھلنے پرکسی نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا، تو اس کی بیوی آنکھیں ملتی دروازے پر آئی۔’’کون ہے؟‘‘ اس نے جمائی روکتے ہوئے خمار آلود لہجے میں پوچھا۔’’دروازہ کھولو، مَیں ہوں انوار…‘‘ ’’ک… ک…کون؟‘‘،بیوی نے بے یقینی کے عالم میں پوچھا کہ انوار تو کویت میں تھا، ابھی پچھلے ماہ ہی تو واپس گیا تھا، تو اچانک کیسے آگیا۔ لیکن اس نے جھٹ دروازہ کھول دیا، ’’کل ہی تو آپ سےبات ہوئی تھی ، خیریت تو ہے ناں؟‘‘ انوار کی بیوی نے کہا۔ 

’’ہاں سب خیریت ہے‘‘انوار نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔’’تو پھر آپ اچانک کیسے آگئے؟ میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔‘‘بیوی ہکّا بکّا اس کا منہ تک رہی تھی۔ ’’نور اور عینی کہاں ہیں؟‘‘وہ پریشانی سے بولا۔ ’’سورہی ہیں، کیوں؟‘‘ بیوی تا حال حیران تھی، ’’آپ یہ پوچھنے کے لیے اتنی دُور سے آئے ہیں؟‘‘’’کہاں سو رہی ہیں؟ مَیں کل سے تم سے کہہ رہا ہوں کہ میری ان سے ویڈیو کال کروادو یا چلو کال پر ہی بات کروادو، پر تم نہیں کروا رہیں، کہیں میری بچیوں کو کچھ ہو تو نہیں گیا؟‘‘یہ کہتے ہوئے وہ دیوانہ وارکمرے کی طرف بھاگا، جہاں اس کی گڑیاں پُر سکون نیند سو رہی تھیں۔

’’دیکھ لیا، ہو گئی تسلّی؟ آپ تو ایسے بات کر رہے تھے، جیسے مَیں ان کی سوتیلی ماں ہوں۔ مجھے بھی اپنی بچیوں کا اتنا ہی خیال ہے، جتنا آپ کو۔اب آپ بتائیں کہ آخر ہوا کیا ہے، اتنی بوکھلاہٹ میں کیوں آئے؟‘‘ بیوی نے غصّے اور پریشانی کے ملے جُلے جذبات میں فریج سے پانی نکال کر میاں کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’وہ…مجھے میرے ایک بچپن کے دوست نےکل بتایا کہ ہمارے محلّے سے دو بچیاں اغوا ہوگئی ہیں۔ اسے بچیوں کا نام معلوم تھا، نہ پتا، پھر جب کل مَیں نے تمہیں فون کیا، تو تم نے بھی سرسری سی بات کرکے کال بند کردی اور بچیوں سے میری بات نہیں کروائی، امّاں کو بھی کال کرتا رہا، لیکن لائن نہیں مل رہی تھی، تو مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، سو مَیں بھاگم بھاگ چلا آیا۔‘‘ 

انوار نے پانی کا گھونٹ لینے کے بعد سارا ماجراکہہ سُنایا۔ ’’وہ بچیاں ایک گھر کی نہیں، دو الگ الگ گھروں کی تھیں اور دونوں ٹیوشن سے واپس آرہی تھیں کہ راستے سے غائب ہوگئیں اور کل رات کچرے کے ڈھیر سے مُردہ حالت میں ملیں۔ مَیں اور امّاں رات وہیں گئے ہوئے تھے، اسی لیے آپ سے ٹھیک طرح بات نہیں کرسکے اور پہلے اس حادثے کے بارے میں اس لیے نہیں بتایا کہ آپ پریشان ہوجاتے۔‘‘بیوی نے انوار کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ ’’بہت بُرے حالات ہوگئے ہیں اس مُلک کے، یہ درندے چھوٹے بچّوں تک پر ترس نہیں کھاتے، جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔

کیا گزر رہی ہوگی ان معصوم بچیوں کے ماں، باپ اور گھر والوں پر، مَیں نے تو جب سے سُنا ہے،دماغ ماؤف سا ہوگیا ہے۔ اسی لیے مَیں پردیس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ آیا ہوں۔ باپ تو اولاد کی چھت، سر کا سایہ ہوتا ہے۔ پردیس رہ کر جتنا کمانا تھا کمالیا، اب یہیں رہ کر روزی، روٹی کماؤں گا، پر اپنے بچّوں کو اس ظالم زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ 

انہیں مَیں خود اسکول، ٹیوشن، پارک وغیرہ لے کرجایا کروں گا اور پھر تم، تمہیں اور میری بوڑھی ماں کو بھی تو میری ضرورت ہے ، گھر میں مرد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مَیں اپنی بچیوں پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا…‘‘ انوار نے نم آنکھوں سے کہا، تو بیوی اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی ’’مَیں آپ کے ہر فیصلے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ واقعی، بچّوں کو باپ کے لاڈ، پیار، دُلار سے زیادہ اُس کے گھنے سائے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘