ڈاکٹر محمّد افضال کروڑی کا تعلق پنجاب کے ایک معروف شہر، بھکر سے ہے، جہاں سے انُہوں نے میٹرک، ایف ایس سی اور بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور پھر 1998ء میں گورنمنٹ کالج، لاہور سے فزکس میں ایم ایس سی کی سند حاصل کی۔ 2001ء سے پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور اِس دوران مختلف مقامات پر خدمات انجام دیں، جب کہ 2013ء میں یونی ورسٹی آف چائینز اکیڈیمی آف سائنسز، انسٹی ٹیوٹ آف ایٹمسفیرک فزکس (Atmospheric Physics) سے پی ایچ ڈی کی۔
اِن دنوں بطور چیف میٹرالوجسٹ(ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ)، پاکستان میٹرالوجیکل ڈیپارٹمنٹ، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں اسموگ کی حالیہ تباہ کاریوں کے حوالے سے اُن سے کی گئی خصوصی بات چیت قارئین کی نذر ہے۔
س: پاکستان میں تو اسموگ ایک آفت بن کر نازل ہوئی ہے؟
ج: جی ایسا ہی ہے۔ پاکستان میں پہلے سیلاب، بارشوں، آندھیوں کی صُورت ارضی و سماوی آفتیں آتی تھیں، اب ان میں اسموگ بھی شامل ہو گئی اور گزشتہ چند برسوں سے تو یہ ہمارے ہاں’’پانچویں موسم‘‘ کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ لوگ اِس سے امراضِ چشم، دَمہ، سانس، کینسر، نزلہ زکام اور دوسری لاتعداد بیماریوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
حالیہ اسموگ میں صرف لاہور کے اسپتالوں سے اب تک 20 لاکھ سے زاید مریض رجوع کر چُکے ہیں کہ اسموگ جنس اور عُمر کا امتیاز کیے بغیر عورتوں، مَردوں، بچّوں، بوڑھوں سب کو اپنا نشانہ بناتی ہے، حتیٰ کہ دورانِ حمل پیٹ میں پرورش پانے والے بچّوں کو بھی نہیں چھوڑتی۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پاکستان کو اسموگ کی وجہ سے زرعی، صنعتی، کاروباری اور دفتری شعبوں میں 20ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، جو مُلک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 6فی صد ہے۔ اگر پوری دنیا میں اسموگ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے، تو اس کا تخمینہ 8کھرب ڈالرز ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بہتری کی بجائے، ہر سال حالات مزید خراب ہی ہو رہے ہیں۔
لاہور گزشتہ کئی برسوں سے پوری دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پا رہا ہے اور اِس بار ملتان کو بھی یہ’’اعزاز ‘‘مل گیا، جہاں کا ائیر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار کی حد بھی عبور کر گیا، جب کہ ڈیڑھ،دو سو سے زائد ائیر انڈیکس بھی صحت کے لیے انتہائی مضر قرار دیا جاتا ہے۔
طبّی ماہرین کے مطابق، لاہور میں فضائی آلودگی کے سبب شہریوں کی اوسط عُمر میں 5سال کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اِس سے پنجاب کے تمام اضلاع بُری طرح متاثر ہوئے، جب کہ خیبر پختون خوا کے میدانی علاقے بھی اس کی زَد میں رہے۔
س: اسموگ ہے کیا؟
ج: یہ دو الفاظ، اسموک اور فوگ کا مجموعہ ہےاسموگ دھویں، گردو غبار، کیمیاوی اجزا اور زہریلی گیسز کا مرکب ہے، جو فضا کو آلودہ کرتا ہے۔ اسموگ کی اصطلاح سب سے پہلے 5دسمبر 1952ء میں اُس وقت سامنے آئی، جب’’گریٹ اسموگ آف لندن‘‘ کا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔لندن میں کچھ دِکھائی نہیں دیتا تھا اور تین، چار دن تک ہر طرف اندھیرا چھایا رہا۔
پہلے 5روز میں سانس کی بیماریوں سے 4ہزار اور اگلے ہفتوں میں مزید 8ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ پھر حکومت نے جنگی بنیادوں پر اِس آفت سے بچاؤ کے اقدامات کیے اور اب لندن کا ائیر انڈیکس بالعموم 49اور 50 رہتا ہے۔
س: برطانیہ میں اسموگ کی کیا وجہ رہی تھی؟
ج: بنیادی طور پر یہ صنعتی انقلاب کا شاخسانہ تھا، جس میں کوئلے سے چلنے والے کارخانوں اور گاڑیوں کے دھویں کا اہم کردار تھا۔ اس زہر آلود فضا کا جب تجزیہ کیا گیا، تو اس میں140ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ، 14ٹن فلورین کمپائونڈ اور 370ٹن سلفر آکسائیڈ پائی گئی۔ پھر ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس کا حل نکالنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ حکومت نے ہاؤس آف کامنز کے ایک رُکن، جیرلڈ ڈیوڈ کو تجاویز جمع کرنے کا کام سونپا۔
اُنہوں نے مختلف شعبوں سے مشاورت کے بعد ایک’’ کلین ائیر ایکٹ‘‘ تجویز کیا، جسے 5جولائی 1956ء کو نافذ کردیا گیا۔ اس ایکٹ میں کوئلے کے استعمال پر پابندی عاید کرتے ہوئے عوام کو گھر گرم رکھنے کے لیے متبادل ذرائع اپنانے کی ہدایت کی گئی اور ایک سال میں یہ ذرائع، ماڈرن ہیٹنگ سسٹم کی صُورت فراہم بھی کر دئیے گئے۔ سردیوں میں بجلی سَستی کر دی گئی۔شہر میں فیکٹریز بند کرکے مالکان کو شہر سے دُور جگہ فراہم کی گئی، جب کہ اراضی مفت دی گئی اور ٹیکس بھی کم کر دئیے گئے۔
بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس لندن سے دُور جنگلوں میں منتقل کر دئیے گئے۔ لندن کے اطراف درخت کاٹنے اور گرین ایریا کے خاتمے پر پابندی عاید کردی گئی۔ اِس ایکٹ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں نجی گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور اس کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا گیا۔ پیٹرول کا معیار بہت بہتر بنا دیا گیا۔ اِن اقدامات کے نتیجے میں صرف 4سال میں لندن کی فضا مکمل طور پر صاف ہو گئی۔
س: چین بھی چند سال قبل تک شدید فضائی آلودگی کا شکار رہا، وہاں اب کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: بیجنگ چند سال قبل تک دنیا کا آلودہ ترین شہر شمار ہوتا تھا اور مَیں اس کا عینی شاہد ہوں کہ اُن دنوں وہاں پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر رہا تھا۔ اُس وقت وہاں فضائی آلودگی لاہور جیسی ہی تھی۔ گلے اور پھیپھڑوں کے امراض بھی عام تھے۔ اسپتال مریضوں سے بَھر گئے تھے۔ چین نے بھی 2014ء میں کلین ائیر ایکٹ منظور کیا اور پھر سختی سے اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا۔ چین نے بھی کم و بیش وہی اقدامات کیے، جو برطانیہ نے کیے تھے۔
یعنی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی، شجر کاری کا فروغ اور کارخانوں کی شہر سے باہر منتقلی۔ مَیں جب دوبارہ چین گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے زمانے میں جو شہر کنکریٹ کا مرکز لگتا تھا، اب وہ شجر کاری کی بدولت گھنا جنگل معلوم ہوتا ہے۔
آسمان بالکل نیلا اور چاند تاروں سے بَھرا ہوا تھا۔ برطانیہ اور چین کے اِن اقدامات میں پاکستان کے لیے اسباق پوشیدہ ہیں کہ اگر دوسرے ممالک اسموگ پر قابو پاسکتے ہیں، تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے، بس صرف نیّت درست ہونی چاہیے۔
س: پاکستان کی کیا صُورتِ حال ہے؟
ج : موسمیاتی آلودگی اور اسموگ کے لحاظ سے تو پاکستان میں ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہے۔ اندازہ لگائیں، لاہور اور ملتان میں ائیر کوالٹی انڈکس 1000 تک پہنچ گیا۔ جب سے فضائی آلودگی پیمائش کرنے والا ادارہ بنا ہے، اُس کی تاریخ میں اِس سے پہلے کبھی اِتنا ہائی ائیر انڈیکس نہیں دیکھا گیا۔ 100اور 150کے بعد تو فضا زہر ناک ہو جاتی ہے اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں لوگ ایک دن میں اِتنی زیادہ اسموگ کا سامنا کرتے ہیں، جیسے اُنہوں نے پچاس سے ساٹھ سگریٹ پیے ہوں۔
صرف لاہور میں نہیں، پورا پنجاب ہی اِس کی لپیٹ میں ہے۔ جہاں تک وجوہ کا تعلق ہے، تو اس میں ہمارا اپنا عمل دخل بھی ہے، لیکن بھارت کے ضلعے ہریانہ اور مشرقی پنجاب کا بھی اس میں کافی ہاتھ ہے کہ وہاں گزشتہ دس سال میں چاول کی پیداوار میں تقریباً آٹھ گُنا اضافہ ہوا ہے، جس کی باقیات جلانے سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور ہوا کا رُخ کچھ ایسا ہے کہ یہ زہر آلود ہوائیں پاکستان میں داخل ہوجاتی ہیں۔
سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ اثر لاہور پر پڑتا ہے۔ بلاشبہ فصلوں کی باقیات پہلے بھی جلائی جاتی تھیں، لیکن اب جدید زرعی ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیداوار کئی گُنا بڑھ گئی ہے، تو اِن کی باقیات میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہوا ہے۔ فضائی آلودگی کی دوسری بڑی وجہ لاہورکے گردونواح میں فیکٹریز میں بے تحاشا اضافہ ہے۔
حکومت نے خود لاہور کے نواح میں ایک درجن سے زائد پاور پلانٹس لگا رکھے ہیں۔ نیز، شہر کے مختلف علاقوں میں ٹائرز جلا کر تاریں اور تیل حاصل کیا جاتا ہے۔ناقص منصوبہ بندی کے سبب شہروں کے قریب دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم ہو رہی ہیں اور گرین ایریا ختم ہوتا جا رہا ہے۔
س: دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی تو ایک بڑا مسئلہ ہیں؟
ج: جی، مَیں اِسی طرف آ رہا ہوں۔ یہ فیکٹر اِتنا اہم ہے کہ اسے الگ سے ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں دو، تین ریسرچ رپورٹس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ 2019ء میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق لاہور اور دوسرے شہروں پر چھائی اسموگ میں 50فی صد حصّہ کاروں، بسز، ویگنز، موٹر سائیکلز، رکشوں اور دیگر گاڑیوں کا ہے۔ دوسرے نمبر پر کارخانوں سے نکلنے والا دھواں ہے، جس کا آلودگی میں25 فی صد حصّہ ہے، جب کہ 15فی صد حصّہ فصلوں کی باقیات جلانے کا ہے۔
ایک اور اسٹڈی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ کی ہے۔ 2020ء میں’’ ائیر کوالٹی اینڈ اسموگ‘‘ کے عنوان سے کی گئی اِس تحقیق میں گاڑیوں کو اسموگ کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ اِس ریسرچ کے مطابق، اسموگ میں وہیکلز کا حصّہ 45فی صد ہے۔2018ء کی ایک تحقیق میں بھی وہیکلز کو اس کا ذمّے دار قرار دیا گیا، اگرچہ اس کی شرح 30فی صد اور40 فی صد فصلوں کی باقیات کو قرار دیا گیا۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق موجودہ اسموگ میں فصلوں کی باقیات جلانے کا حصّہ لاہور میں تین اعشاریہ نو فی صد اور صوبہ پنجاب میں گیارہ فی صد ہے۔ ان اعداد و شمار سے اسموگ کا اصل منبع جاننے میں مدد لی جا سکتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے کی جانے والی کوششوں کی سمت کا درست تعیّن کیا جا سکتا ہے۔
س: آخر اسموگ میں ہوتا کیا ہے؟
ج: سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ اسموگ سردیوں یا اس کے آغاز میں کیوں ہوتی ہے۔ گرمیوں میں بھی فضائی آلودگی اتنی ہی ہوتی ہے، لیکن اس موسم میں یہ ساری آلودگی، تمازت کی وجہ سے آسمانوں کی طرف بلند ہو جاتی ہے، جب کہ سردیوں میں خنکی اور سرد موسم ان ذرّات کو زمین ہی پر جکڑ لیتا ہے اور یوں ہمارے اردگرد گاڑیوں، فیکٹریز کا دھواں، گرد وغبار اور فصلوں کی باقیات کا دھواں زمین میں ایک حصار بنا کر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور ہوا میں ٹھنڈک کی وجہ سے اوپر نہیں اُٹھ پاتا۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ فوگ کن زہریلے ذرّات پر مشتمل ہوتی ہے، تو اس میں تین بڑے کیمیاوی اجزاء نائٹروجن آکسائیڈ (جو کہ گاڑیوں اور بَھٹّوں کے دھویں میں زیادہ ہوتی ہے)، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ شامل ہوتے ہیں، جب کہ بعض دیگر زہریلی گیسز بھی اس میں ہوتی ہیں، لیکن نائیٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ بہت نقصان دہ ہیں۔ یہ جسم کے ہر عضو کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
انسانی پھیپھڑے ایک خاص حد تک انھیں برداشت کر سکتے ہیں، لیکن لاہور میں ان زہریلی گیسز کی صُورتِ حال یہ ہوئی کہ کوئی شخص ایک دن میں جتنا یہ دھواں اپنے سینے میں اُتارتا ہے، وہ50 سے60 سگریٹس پینے کے برابر ہے۔ اسموگ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی کافی عمل دخل ہے، جو انسان کی اپنی ہی کارستانی ہے۔ جیسے شجرکاری کم ہو رہی ہے۔ زرعی زمینیں، کنکریٹ کی عمارتوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔
انسانی آبادی، کارخانے اور گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جب کہ جنگلات کم ہو رہے ہیں۔ جنگلات کو کرّۂ ارض کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے، جو فضا صاف کرتے ہیں، مگر ہم خود ان پھیپھڑوں کا خاتمہ کر رہے ہیں، پھر ظاہر ہے، ہمارا دَم تو گُھٹے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین اسموگ جیسی آفتوں کو ایسی تباہی کہتے ہیں، جو انسان کی خود پیدا کردہ ہیں۔
س: ہم نے اس کے تدارک کے لیے بھی تو کچھ نہیں کیا؟
ج: جی بالکل۔ ہم نے موسمیاتی تبدیلیاں مدّ ِنظر رکھتے ہوئے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ اِس سلسلے میں کوئی مؤثر قانون سازی بھی سامنے نہیں ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، بھٹّوں اور کارخانوں کے خلاف بروقت کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ آپ کہہ لیں کہ اِس ضمن میں دلیرانہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
اگرچہ حکومتِ پنجاب اور محکمۂ موسمیات کے درمیان صوبائی اور وفاقی سطح پر خاصا تعاون ہے، تاہم، اِس سلسلے میں مزید جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم مصنوعی بارش کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں، لیکن یہ مختصر مدّت کے اقدامات ہیں۔
حکومتِ پنجاب کے محکمۂ ماحولیات نے زگ زیگ نہ اپنانے والے بھٹّوں اور دھواں چھوڑنے والے کارخانوں کے خلاف جو اقدامات اُٹھائے، وہ حوصلہ افزا ہیں، البتہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی بڑے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ کلین ائیر ایکٹ قومی اور صوبائی سطح پر منظور کیا جائے۔
ان قوانین پر عمل درآمد کرتے وقت سب کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے اور ایسے بااثر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے، جو آلودگی پھیلانے والے کارخانوں یا گاڑیوں کے مالک ہیں۔ اسے Environmental Justice کہنا بجا ہو گا۔ عالمی سطح پر پاکستان نے کئی معاہدوں پر دست خط کیے ہیں، تاہم مقامی سطح پر بھارت کے ساتھ مل کر بھی مشترکہ لائحۂ عمل بنایا جائے اور دونوں ممالک اسموگ کنٹرول معاہدہ کریں۔
اسموگ کی مثال ایک لیک کرنے والی پانی کی ٹونٹی جیسی ہے۔ ہم لیکجز سے جمع ہونے والے پانی کو تو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ٹونٹی کی مرمّت نہیں کرتے۔ آؤٹ ڈور ایئر پیوریفائرز لگانا قابلِ عمل نہیں، کیوں کہ ایک تو یہ بہت منہگا حل ہے، جس کا ہمارا مُلک متحمّل نہیں ہو سکتا، دوسرے یہ ایک انتہائی محدود علاقے کی فضا کو محدود وقت کے لیے صاف رکھ سکتا ہے۔ اِس لیے اسموگ کو اس کے سورس سے بند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گاڑیوں کی فٹنس پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دیا جائے۔ چین میں بجلی سے چلنے والی چھوٹی اور بڑی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اِس وقت وہاں سڑکوں پر چلنے والی 50فی صد گاڑیاں بجلی ہی سے چلتی ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ کا معیار بہتر بنایا جائے۔مختصر یہ کہ اسموگ پر کنٹرول کے لیے جنگی بنیادوں پر منصوبے بنانے اور ان پر عمل کی ضرورت ہے۔