• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ بات امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر جو پینتیس ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے اسے اتارنے کیلئے مستقبل قریب میں کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کو استعمال کیا جاسکتا ہے ۔یہ بات انتہائی حیران کن تھی کیونکہ اپنے سابقہ دور اقتدار میں ڈونلڈ ٹرمپ بٹ کوائن کی مخالفت کرتے رہے ہیں تاہم اب انھیں بھی کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی افادیت کا احساس ہوچکا ہے کہ یہ اتنی طاقتور کرنسی بنتی جارہی ہے جسے امریکہ اپنے پینتیس ٹریلین ڈالر کے قرض اتارنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلن مسک جو ایکس اور ٹیسلا کے مالک بھی ہیں وہ بھی بٹ کوائن پر اظہار اعتماد کرچکے ہیں اور اس میں بھاری سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں۔ امریکہ ،جاپان سمیت دنیا کے درجنوں ممالک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت حاصل ہوچکی ہے ،جاپان میں تو کرپٹو کرنسی کے روزمرہ استعمال کیلئے ملک بھر میں اے ٹی ایم مشینیں لگانے کی منصوبہ بندی بھی کرلی گئی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی کے کریڈٹ کارڈز بھی تیار کرنے کا منصوبہ ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد ہے اور جو لوگ اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں قانونی درجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ صرف آٹھ سال قبل پاکستان کے معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر ،کرپٹو ماہر اور ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان کے سربراہ وقار ذکا پوری طاقت سے مہم چلا رہے تھے کہ پاکستان میں کرپٹو ٹیکنالوجی کو قانونی حیثیت دے دی جائے تو وہ حکومت کی سرپرستی میں پاکستان کے تمام قرضے باآسانی اتارنے میں مدد کرسکتے ہیں ، آٹھ سال قبل ایک بٹ کوائن صرف 258 ڈالر کا تھا لیکن ہم نے وقت گنوادیا ، آج ایک بٹ کوائن ایک لاکھ ڈالر کا ہوچکا ہے اور پوری دنیا اس میں سرمایہ کاری کررہی ہے ، اگر اس وقت جب وقار ذکا حکومت سے فریاد کررہے تھے کہ حکومت سرکاری سطح پر پچیس ملین ڈالر کے چار لاکھ بٹ کوائن خرید لے ،تو وہ پچیس ملین ڈالر کے چار لاکھ بٹ کوائن آج چالیس ارب ڈالر صورت میں حکومت پاکستان کے پاس ہوتے اور پاکستان ایک الگ معاشی طاقت ہوتا ۔ماضی میں اس مقصد کیلئے وقار ذکا نے عمران خان کے دور حکومت میں سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی ،جس میں وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ ترین حکام کو بھی طلب کیا گیا جہاں اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں بات بھی کی لیکن اس وقت کی وفاقی حکومت کی مخالفت کے سبب کرپٹو ٹیکنالوجی پاکستان میں قانونی حیثیت حاصل نہ کرسکی۔ آج وقار ذکا امریکہ ، برطانیہ اور دبئی میں نوجوانوں کو کرپٹو کرنسی پر لیکچرز دیتے نظر آتے ہیں ، اپنی شاندار مہارت کے سبب دنیا میں کرپٹو ٹیکنالوجی میں اپنا نام بنا چکے ہیں ، ٹین اپ کے نام سے اپنا کرپٹو کوائن لانچ کرچکے ہیں لیکن آج بھی وہ پاکستان کا قرض اتارنے کے اپنے عزم ہیں لیکن انھیں اس کام کیلئے حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان میں کرپٹو ٹیکنالوجی کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے پاکستان کرپٹو بورڈ قائم کردیا جائے تو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی طرز پر پاکستان کرپٹو ایکسچینج قائم کیا جاسکتا ہے اوروہ حکومت کی سرپرستی میں پاکستان کے قرض اتارنے کیلئے بہترین انداز میں کام کرسکتے ہیں ۔اس وقت جب امریکہ اپنے قرض اتارنے کیلئے بٹ کوائن استعمال کرسکتا ہے ، جاپان میں بٹ کوائن کے اے ٹی ایم نصب ہونے جارہے ہیں ، بھوٹان جیسا ملک بیس ہزار بٹ کوائن کا مالک ہے جن کی مالیت دو ار ب ڈالر کے لگ بھگ ہے بھارت میں کرپٹو پر کام ہورہا ہے ، دبئی میں یہ لیگل ہے تو پاکستان کیوں اس ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کیے ہوئے ہے ؟۔اس وقت پاکستانی عوام کے پاس پچاس ملین ڈالر کے کرپٹو کوائن ہیں حکومت کو چاہیے اس ٹیکنالوجی کو لیگل کرے ، وقار ذکا جیسے محب وطن لوگوں کو ملک میں واپس لائے اور پاکستان کاقرض اتارنے کے لیے ان نوجوانوں کی مہارت سے استفادہ کرے ، کیونکہ اب ٹیکنالوجی کی دنیا ہے ،نوجوانوں کو موقع دیں یہی ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور ملک کو مسائل سے نکالنے میں یہی نوجوان کردا ر ادا کریں گے۔

تازہ ترین