ملک کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت باہمی تعاون سے قومی معیشت کی بحالی کیلئے جو امید افزا اور نتیجہ خیز اقدامات کررہی ہے ان کی پائیدار بنیادوں پر کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے جب امن وامان کے حالات پوری طرح اطمینان بخش ہوں کیونکہ اس کے بغیر مقامی و بیرونی سرمایہ کار بلا خوف و خطر معاشی سرگرمی میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ تاہم ہر باشعور اور حساس و دردمند پاکستانی کیلئے یہ بات نہایت باعث تشویش ہے کہ ایک طرف ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کی نہایت سنگین وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جن میں حالیہ دنوں میں فرقہ واریت کی نئی لہر بھی شامل ہوگئی ہے حالانکہ خاصی مدت سے اس حوالے سے حالات قابو میں تھے اور دوسری طرف پچھلے کئی برسوں سے جاری سیاسی انتشار میں کسی کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے کے وقت وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے متعدد بڑے شہربانی تحریک انصاف کی رہائی کیلئے کئے جانیوالے احتجاجی مظاہروںکی وجہ سے افراتفری کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر سیکورٹی الرٹ جاری کردیا ہے۔نیکٹا کی جانب سے جاری کردہ انتباہ کے مطابق اسلام آباد میں پی ٹی آئی احتجاج کے دوران فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کا خطرہ ہے جس کے ارکان پاکستان کے بڑے شہروں میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اورحملے کی غرض سے کئی حملہ آور پہلے سے ہی پاک افغان سرحد پار کرچکے ہیں۔ کم و بیش ہر روز ہی ہونیوالی خوں ریز وارداتوں کے پیش نظر نیکٹا کا یہ انتباہ حقائق کے منافی قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ کرم کے علاقے میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی تین روز قبل ہونے والی واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تادم تحریر دستیاب اطلاعات کے مطابق ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے 43 اموات کے بعد جھڑپوں میں شدت آگئی ہے اور مشتعل افراد کی فائرنگ کے واقعات میں مزید32 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، فریقین میں جھڑپیں جاری ہیں، دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیاجارہا ہے،سینکڑوں دکانیں اور مکان جلا دیے گئے اور تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کے پی حکومت کی جانب سے علاقے کا جائزہ لینے کیلئے جانے والے ہیلی کا پٹر پر فائرنگ کی اطلاعات بھی ملی ہیں ۔ اس منظر نامے کا ایک نہایت اہم جزو یہ ہے کہ بیلا روس کے صدر کی سربراہی میں 80ارکان پر مشتمل ایک وفد اتوار ہی کو پاکستان کے چارروزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہا ہے۔ ایسی حساس صورتحال میں ہوشمندی کا تقاضا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور وفاقی حکومت کے ذمے دار باہمی مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے اور احتجاج منسوخ نہیں کیا جاسکتا تھا تو کم از کم ملتوی کردیا جاتا لیکن منظر عام پر آنیوالی معلومات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر سے اس مقصد کی خاطر کیا جانے والا رابطہ بے نتیجہ رہا اور انہوں نے مظاہرے موخر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی کال خان صاحب نے دی اور وہی واپس لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں بیلاروس کے وفد کی آمد کی وجہ سے احتجاج ملتوی کرنے کا حکم دے رکھا ہے جس کی بنیاد پر وفاقی وزیر داخلہ نے صراحت کی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد کو ہر صورت محفوظ رکھا جائیگا۔ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے تاہم سیاسی احتجاج اور فرقہ وارانہ کشیدگی دونوں کا حل افہام و تفہیم سے نکالا جانا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب قومی خود کشی کےراستے پر پیش قدمی کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا۔