فرانس میں مقیم سکھ کمیونٹی اور خالصتان تحریک کے بانی مان سنگھ اور تحریک کے زیر اہتمام پیرس کے پلیس دی ری پبلک میں بھارتی حکومت کے 1984 میں سکھوں کے خلاف انسانیت سوز آپریشن بلیو اسٹار اور نسل کشی کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور عہد کیا گیا کہ خالصتان کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔
اس موقع پر خالصتان تحریک سے وابستہ سکھوں اور اوورسیز کشمیریوں سمیت صدر انٹرنیشنل کشمیر پیس فورم فرانس زاہد اقبال ہاشمی اور کشمیر فورم کے صدر نعیم چوہدری نے اپنے اپنے وفود کے ساتھ شرکت کی۔
مظاہرین نے خالصتان تحریک کے جھنڈے جبکہ اوورسیز کشمیریوں نے کشمیر کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور انہوں نے بھارتی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے صدر انٹرنیشنل کشمیر پیس فورم فرانس زاہد اقبال ہاشمی نے سکھوں کےلیے انصاف کی ضرورت پر زور دیا اور خالصتان کے قیام اور آزادی کو کمیونٹی کےلیے ضروری قرار دیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اقوام عالم سکھوں کے ماورائے آئین قتل، جبری گمشدگی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈالے، انکا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا پیدائشی حق دیا جائے اور حق خودارادیت دیا جائے۔
اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے، اقلیتوں کو ہندو انتہاء پسند گروپوں اور حکومت کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مقررین نے کہا کہ بھارت میں سکھ کمیونٹی کے حق کی بات کرنے والوں اور خالصتان کا نام لینے والوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر قید کیا جاتا ہے اور عدالتوں کی جانب سے دی جانی والی سزا کے بعد بھی قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا جو کہ جنیوا کنونشن، بین الاقوامی قوانین اور ہر طرح کے قانون سے ماورا ہے۔
مقررین نے اپنے خطاب میں 1984 میں سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات کو بھی اجاگر کیا۔
نعیم چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے سکھ کمیونٹی کو کشمیر فورم کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
سکھ کمیونٹی کے رہنما مان سنگھ اور دیگر نے کہا کہ 1984 میں پرتشدد واقعات کے نتیجے میں تین دنوں میں 3 ہزار سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا، ان کی جائیدادیں لوٹی گئیں اور املاک تباہ کر دی گئی تھیں۔
انھوں نے کہا کئی خواتین کی عصمت دری کی گئی، جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سیکڑوں سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ بھارت کے اس وقت کے حکام نے اس فرقہ وارانہ تشدد کو عوامی ردعمل قرار دے کر اس کی ذمہ داری عوام پر ڈال دی تھی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ وہ خالصتان کے قیام تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔