کینیڈا میں ایک سکھ وکیل کی قانونی جدوجہد کے نتیجے میں ایک صدی پرانا قانون ختم کر دیا گیا ہے جس کے تحت پیشہ ور افراد کے لیے برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا حلف اٹھانا لازمی تھا۔
کینیڈین صوبے البرٹا میں نئے وکلا کے لیے بادشاہ سے وفاداری کا حلف لازمی شرط تھا، سکھ وکیل پربھجوت سنگھ ویرنگ نے برطانوی بادشاہ سے وفاداری سے متعلق شرط کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
ان کا مؤقف تھا کہ بادشاہ سے وفاداری کا حلف ان کے سکھ مذہبی عقیدے کے خلاف ہے کیونکہ وہ اپنے گرو، گرو گوبند سنگھ سے بڑھ کر کسی کو نہیں مان سکتے۔
عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے پربھجوت سنگھ ویرنگ نے بادشاہ چارلس کے نام پر حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کا اپنے مؤقف میں کہنا تھا میں اپنے گرو سے بڑا کسی کو نہیں مان سکتا، میں وکالت کرنا چاہتا ہوں، مگر ایسا حلف نہیں اٹھا سکتا جو میرے ایمان کے خلاف ہو۔
پربھجوت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ شرط اِنہیں مذہب اور پیشے میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور کرتی ہے جو کینیڈین آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
ابتدائی طور پر ہائی کورٹ نے اِن کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد اُنہوں نے 2022ء میں مقدمہ اعلیٰ عدالتوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔
16 دسمبر 2025ء کو البرٹا کورٹ آف اپیل نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بادشاہ سے وفاداری کا لازمی حلف کینیڈین چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمز کی خلاف ورزی ہے، اعلیٰ عدالت نے صوبے کو یہ شرط ختم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالت نے 1912ء سے چلی آ رہی اس روایت کا جائزہ لیا اور اپنے فیصلے میں کہا کہ اب کسی بھی شخص کو پیشہ اختیار کرنے یا کسی عہدے پر فائز ہونے کے لیے بادشاہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
کینیڈین عدالت کے اس فیصلے کو مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔