منگل اور بدھ کی درمیانی رات ریڈزون میں کئے گئے گرینڈ آپریشن کے نتیجے میں بدھ کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں معمولات زندگی بحال ہوتے نظر آئے، کنٹینر ہٹاکر راستے بحال کردئیے گئے اور چار روز سے محصوری کی کیفیت سے دوچار شہریوں نے اطمینان کا سانس لیا جبکہ ضروری اشیاء کی نقل وحمل میں رکاوٹ کے باعث ملک کے مختلف حصوں میںپیدا شدہ بعض اشیاء کی قلت دور ہونے کے آثار نظر آئے۔ اس وقت ، کہ ماحول کی کشیدگی سے دوچار عوام کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملا ہے حکومت اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی حلقوں کو اس امرکا تجزیہ کرناچاہئے کہ ملک کے حالات بار بار کسی لانگ مارچ، کسی دھرنے یا کسی تحریک کے یرغمال بن کر غیر یقینی کی کیفیت کے شکار کیوں ہوتے رہتے ہیں؟ ہمیں من حیث القوم ترقی کرنی ہے تو ان عوامل پر قابو پانا ہوگا جو معاشی وسماجی ترقی کے آگے بڑھتے عمل کو بار بار روکنے بلکہ پیچھے لے جانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اسلام آباد کا واقعہ بلاشبہ ان تجربات میں سے ایک ہے جن کی یادوں کی تلخیاں بھلانا آسان نہیں اور جن کے نتیجے میں قوم کی مشکلات میں اضافہ ہوا ۔قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ یہی کہتی ہے کہ جوقومیں اپنے تجربات سے سبق لیکر آگے بڑھنے کی سعی کرتی ہیں، انہی کا مستقبل تابناک ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم نے پچھلے چند دنوں میں دیکھا، جو مناظر2014میں نظر آئے اورجو کچھ دیگر مواقع پر ہوتا رہا اسے ذہن میں رکھ کر غور کیا جانا چاہئے کہ عدم استحکام کی کیفیت پاکستان کی مدد کررہی ہے یا اسے نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے سامنے رکھ کر درست فیصلوں کی صورت میں ہم ایک نئے دور کا آغاز یقینی بناسکتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران جوباتیں کہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی حکومت ملکی استحکام کی خاطر مستقبل میں سخت فیصلوں سے گریز نہیں کرے گی ان کا کہنا تھا کہ ملک افراتفری اور خوں ریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا ، فساد اور انتشار کی سیاست کی حوصلہ شکنی نا گزیر ہے۔ فسادیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا،9مئی کے ملزموں کو عدالتیں بروقت سزائیں دیتیں تویہ سب نہیں ہوتا،میاں شہباز شریف کے مطابق ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ آگے کس طرح بڑھیں ، باہمی مشاورت سے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ کشیدگی کی صورتحال میں بدترین کارکردگی سے دوچار اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں آپریشن کے بعد کتنابڑا فرق رونما ہوا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس کا بیک وقت 95، 96، 97، 98اور99ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حدود کا عبور کرنا بحالی امن کی صورتحال کا تحفہ ہے،اس کے ساتھ سرمایہ کاری مالیت میں 525ارب 53کروڑ سے زائد اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ کاروباری رجحان کا یہ فرق نشاندہی کرتا ہے اس امرکی کہ سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت سب ہی ملحوظ رکھیں۔ اس وقت، کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے آپریشن میں لوگوں کے جاں بحق ہونے کے دعووںکے ساتھ الگ الگ اعدادوشمار دئیے جارہے ہیں اور وزیر داخلہ محسن نقوی کا ثبوت سامنے لانے یا کسی ایک کا نام بتانے کا مطالبہ پورا نہیں ہوا ، ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی خود اپنے اور ملک کے مفاد میں حقیقت پسندانہ فیصلے کرے۔ اس ضمن میں جےیو آئی کےسربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کردار ادا کرنے کی پیش کش سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ تجربات سے سبق لیکر سب ہی ایسے نئے دور کا آغاز کریں جس میں ملکی بقا،استحکام اور ترقی کے تقاضوں کو اولیت حاصل ہو۔ حکومت اور ریاست کو بھی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرناچاہئے جس میں سب اطمینان اور سکون محسوس کریں۔