بھارت اور بنگلہ دیش کے انگریزی تعلیمیافتہ افراد خود کو لارڈ میکالے کے بچے کہتے ہیں۔ لارڈ میکالے(1800تا1859)نے برصغیر میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے اور مغربی سائنس و فلسفہ پڑھانے پر زور دیاتھا اسی لئے ہندوستان میں اس کے مداح خود کو (CHILDREN OF MACAULAY)کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم اردو میڈیم تضادستانی کم از کم چار نسلوں سے علامہ اقبال کے چند اشعار اور نسیم حجازی کے ناولوں کے کرداروں پر اپنی سوچ اور فکر کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں۔بشریٰ بی بی اور انکے ہم عصروں میں اقبال کی سنجیدہ فکری نثر کا سایہ تک نہیں پڑا البتہ اقبال کی جذباتی شاعری ضرور ان نسلوں کے خمیر میں شامل ہوچکی ہے، چنانچہ اس نسل کو اگر(CHILDREN OF NASEEM HIJAZI)یعنی نسیم حجازی کے بچے کہا جائے تو یہ چنداں غلط نہ ہوگا۔
اقبال کے ’’جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہےکہ جس میں بندوں کو گناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے،بے تیغ بھی لڑتا ہےسپاہی، بحر ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے ہم نے اور بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق،عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ‘‘جیسے مصرعے اور سوچ ساری اردو میڈیم کلاس کو زبانی یاد ہے اور انکی ذہنی پرورش اور فکری پرواز میں ان اشعار کا بڑاگہرا دخل ہے۔ مشہور ادیب اشفاق احمدنے روزنامہ جنگ کیلئے مجھے دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اقبال کی شاعری اور سوچ میں تضاد ہے، دن کا اقبال اور ہے اور رات کا اقبال اور، انکے اس انٹرویو پر بہت شور مچا لیکن اشفاق احمد نے نہ اسکی تردید کی اور نہ ہی وضاحتی بیان جاری کیا۔ اشفاق احمد کا غالباً یہ خیال تھا کہ شاعری میں رومانویت، عشق اور جنون کی فراوانی ہے مگر ان کی نثر اور فلسفے میں یہ جذبات کہیں بھی نظر نہیں آتے وہاں صرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے اور اقبال کا یہ پہلو اردو میڈیم ہم وطنوں سے بالکل چھپا ہوا ہے۔
ہماری اردو میڈیم کی چار یا پانچ نسلیں آج بھی نسیم حجازی کی افسانوی، مصنوعی اور رومانوی دنیا میں رہتی ہیں۔ راتوں کو یہ نسل محمد بن قاسم، یوسف بن تاشفین یا بدر بن مغیرہ بن کر گھوڑے پر سوار ہو کر مغرب و مشرق میں فتح جھنڈے لہرانے کے خواب دیکھتی ہے۔ بشریٰ بی بی ہوں یا یہ ناہنجار صحافی ہم سب جوش و جذبے سے تو بھرے رہتے ہیں مگر عقل اور تدبر کو چھوتے تک نہیں ،ہمارے فیصلے ذاتی ہوں یا سیاسی، انفرادی ہوں یا اجتماعی سبھی میں یہ رنگ نظر آتا ہے۔
بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار انکی فکر اور سوچ کا تجربہ اب ضروری ہو گیا ہے۔ ملک کے سب سے پاپولر لیڈرپر ان کا کافی اثر ہے، اہلیہ ہونے کے علاوہ وہ خان کے فکرو فلسفہ پر بھی حاوی ہیں ان کا نظریہ اسلام ہی اب خان کا نظریہ اسلام ہے ۔1971ء میں پیدا ہونے والی بشریٰ اب 53سال کی ہیں وہ گوئیکاوٹو برادری سے ہیں اور ان کی پہلی شادی مانیکا وٹو کے سول سروس افسر خاور مانیکا سے ہوئی جس سے انکے پانچ بچے ہیں ،وہ روحانی طور پر بابا فریدآف پاکپتن سے بہت متاثر ہیں ان کا لگائو تصوف، روحانی شخصیات اور سلاسل سے ہے مگر وہ خلوت پسند تصوف کی قائل نہیں لگتیں وہ خانقاہ یادرگاہ میں بیٹھ کر اشاعت دین کو شاید مکمل فریضہ نہیں سمجھتیں وہ عمل کی دنیا کی قائل لگتی ہیں کیونکہ عالم اسلام میں ان کا پسندیدہ لیڈر طیب رجب اردوان ہے یا پھر وہ مہاتیر محمد کی قائل لگتی ہیں یہ دونوں رہنما عمل پسند مسلمان رہنما تھے جو مغربی دنیا سے متصادم رہے۔ حال ہی میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے سے پہلے بشریٰ بی بی نے جو ویڈیو پیغام جاری کیا، اس میں انکے فکروفلسفہ کے دو اہم عناصر سامنے آئے ،ایک تو انہوں نے سعودی عرب میں رائج نظام کو غیر شرعی قرار دیا اور ساتھ ہی اس عزم اور یقین کا اظہار کیا کہ عمران خان ملک میں شرعی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ دوسرا اہم عنصر اس نشری بیان کایہ تھا کہ عمران خان مدینے میں ننگے پائوں گئے گویا انکی رائے میں احترام کا اظہار بھی ضرور ی ہے اور یہ مدینہ میں ننگے پائوں چلنےسے ظاہر ہوا جس پر بقول بشریٰ بی بی سعودیہ والوں نے اظہار ناپسندیدگی کیا۔گویا سعودی عرب کے نظریہ اسلام سے انہیں اختلاف ہے، وہ بریلوی روحانی سوچ کی حامل ہیں عمران خان کی فکر اور سوچ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہر قوم کی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی اپنا نظریہ اپنی سوچ اور انداز فکر رکھنے کا حق حاصل ہے مگر ہماری سوچ میں کافی تضادات ہیں اسی لئے مجھے یہ تضادستان لگتا ہے، بشریٰ بی بی بھی انہی تضادات ہی کا مرقع ہیں ،علامہ اقبال کی سنجیدہ فکری جو نثر میں ہے وہ توشایدانکی نظر سے کبھی گزری ہی نہیںہو گی ۔البتہ انہیں، وہی چند اشعار جن کا ہم سب ورد کرتے ہیں، ازبر ہونگے اور دوسری طرف نسیم حجازی نے اپنے ناولوں میں جو فضا اور نقشہ کھینچا ہے وہ بھی انکی یادداشت میں کہیں محفوظ ہو گا ،اسی لئے وہ نسیم حجازی کے بہادر نسوانی کرداروں میمونہ، طاہرہ، ربیعہ اور امینہ کی طرح تاریخ میں اپنا نام درج کروانا چاہتی ہیں ،روحانی دنیا میں تو انہیں دسترس حاصل ہی ہے مادی دنیا میں بھی انہوں نے پختونخوا سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے اپنی ہمت کا لوہا منوا لیا ہے، ہجوم کو ہاتھ ہلا ہلا کر جس طرح انہوں نے بھڑکایا اور خود جرات و بہادری کاپیکر بنی رہیں وہ مناظر نسیم حجازی کے ناولوں کا ہوبہو نمونہ تھے ۔ہمارا تضاد دراصل یہ ہے کہ ہم افسانوی واقعات کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں ہم واقعی عقل کو عیار اور عشق کو اعلیٰ و برتر گردانتے ہیں، ہم واقعی خود کو محمد بن قاسم اور حجازی کے ناولوں کی ربیعہ تصور کرلیتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ آج کی دنیا میں جذبات، جوش اور جنون پر عقل اور ٹیکنالوجی بھاری پڑ چکی، اب ربیعہ اکیلی حجازی کے ناول شاہین کی طرح پاکستان کی قسمت نہیں سنوار سکتی۔بشریٰ بی بی اکیلی ریاست سے لڑ کر اپنے خاوند کو فتح کے تخت پر نہیں بٹھاسکتیں۔
تاریخ بڑی ظالم صنف ہے۔ آپ ساری عمر بہادری، جراتمندی اور دلیری دکھائیں لیکن آخری لمحے پر بزدلی دکھادیں تو آپ تاریخ کے ابوعبداللہ بن جاتے ہیں، غرناطہ کے آخری حکمران نے جب رخصت ہوتے ہوئے آنسو چھلکائے تواس کی ماں نے اسے تھپڑ رسید کرکے کہا تھا کہ بہادروں کی طرح لڑ نہیں سکے تو اب کمزوروں کی طرح مت رو۔ بشریٰ بی بی بڑے طمطراق سے فاتحانہ انداز میں اسلام آباد میں داخل ہوئیں تو چاند بی بی، جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطان کی طرح لگیں مگر آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی جس طرح اپنے حامیوں اور شیدائیوں کو چھوڑ کر غائب ہوئیں سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط ڈھاکہ اور سقوط دہلی یاد آگئے، ان سب واقعات میں بادشاہوں اور لیڈروں کی جانیں تو بچ گئیں مگر شکست کا داغ ندامت صدیوں بعد بھی مٹ نہیں سکا ۔بغداد کا خلیفہ لڑنے سے بھاگا مگر کیا فتح کے بعد بچ سکا ؟غرناطہ کے بادشاہ کو کیا کہیں جائے امان ملی؟ سقوط ڈھاکہ میں جنرل نیازی بچ تو گئے مگر کیا کبھی سر اٹھا کر چل سکے؟سقوط دہلی کے مغل بادشاہ رنگون میں قید رہے کیا کبھی دوبارہ حکمرانی کرسکے؟سب کا جواب نفی میں ہے۔ یہ دنیا نسیم حجازی کا ناول نہیں ،ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی طرح جان قربان کرنے سے، اپنا خون بہانے سے دائمی فتح ملتی ہے، وگرنہ جان بچا کر بھاگنے والوں کا مقدر ابدی شکست ہی ہوتی ہے۔