• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ہوا ہے، یہ امتحان کیا ہوتا ہے، جنریشن زی کو کیا پتا۔ اور یہ جنریشن زی کیا ہوتی ہے، ہمیں کیا پتا! آپ میں سے جن لوگوں کو اِس جنریشن کا علم نہیں وہ انٹرنیٹ پر صرف اِس کے بارے میں لطیفے تلاش کرکے دیکھیں دل و دماغ تازہ ہو جائیں گے۔ وہ بچے جو سن 2000ء کی دہائی کے آس پاس پیدا ہوئے انہیں جنریشن زی یا عرف عام میں ’جین زی‘ کہا جاتا ہے۔ چند نمونے پیش خدمت ہیں:’اکثر اوقات ہمیں کافی دور جا کر خط پوسٹ کرنا پڑتا تھا...

جین زی: یہ خط کیا ہوتا ہے؟‘

’جین زی رات کے کھانے کیلئے کیا کرتے ہیں؟ فقط ریستوران میں جگہ مختص کرواتے ہیں۔‘

’جین زی کی پسندیدہ ورزش کیا ہے؟ چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچنا‘۔’کیسے پتا چلتا ہے کہ جین زی انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ وہ ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنا کر اسے وائرل کر دیتے ہیں۔‘

’جین زی کی طویل عرصے تک تعلق نبھانے کی تعریف یہ ہے کہ وہ سات دن سے زیادہ ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر فالو کریں۔‘

’جین زی کو اسمارٹ واچ کیوں پسند ہے؟ کیونکہ وہ گھڑی کی کسی دوسری قسم سے واقف ہی نہیں۔‘

ہر نسل اپنے سے بعد پیدا ہونے والےبچوں کا اِسی طرح ’توا‘ لگاتی ہے جیسے ہم جین زی کا لگا رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں بھی بزرگوں کو یہی خیال تھا کہ ہمیں زمانے کا کچھ پتا نہیں، پڑھائی اور ادب سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ اسکول میں فارسی پڑھتے تھے اور ہمیں ڈھنگ سے اردو بھی نہیں آتی، انہیں گلستان، بوستان زبانی یاد تھی اور ہم صرف شکوہ جوابِ شکوہ رَٹ کر اِتراتے پھرتے ہیں۔ گویا اُن کیلئے ہم بھی جین زی ہی تھے۔ لیکن جین زی کو کیا طعنہ دیں، اب تو ہر شخص ہی ٹیکنالوجی کا محتاج ہے۔ اگر کسی کو فوتگی کا پیغام لکھ کر بھیجیں کہ جنازہ میانی صاحب میں ہے تو جواب آئے گا ’قبر کی لوکیشن سینڈ کر دیں۔‘ موبائل فون کے بغیر جین زی ہی نہیں اب ہم بھی ایک قدم نہیں چل سکتے، فرق صرف یہ ہے کہ جین زی پیدا ہی انسٹاگرام پر ہوئی جبکہ ہمارے زمانے میں فقط تار والا فون ہوا کرتا تھا۔ یہ واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ، ٹِک ٹاک، انسٹاگرام، اِن سب کا استعمال ہم بھی کر رہے ہیں مگر جگتیں صرف جین زی کو لگائی جاتی ہیں۔ طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج کل ہر نسل کا بابا رات کو کئی کئی گھنٹے فیس بُک کی ریل دیکھتا ہے مگر تمسخر صرف نئی نسل کے بچوں کا اڑایا جاتا ہے کہ وہ وقت ضائع کرتے ہیں حالانکہ جن ریلز کو دیکھ کر وہ محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر جین زی کی تخلیق کردہ ہوتی ہیں۔

جنریشن گیپ کا یہ مسئلہ صدیوں پرانا ہے، آپ پرانے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ہر زمانے کے لکھاری یہی رونا روتے نظر آئیں گے کہ نئی پود گستاخ، بد تمیز اور گمراہ ہوچکی ہے، اِن میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ وہ جنریشن ہے جس کے پاس ہر آسائش ہے مگر اِس کے باوجود یہ زندگی سے شکوہ کناں ہی نظر آتے ہیں، یہ خود غرض ہیں، اِنہوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے، آج کل کا بیہودہ لٹریچر پڑھ کر اِن کے ذہن آلودہ ہوچکے ہیں، انہیں روپے پیسے کی قدر نہیں ہے، وغیرہ۔ یہ باتیں ہر دور میں کی جاتی تھیں، اور تو اور 2300 سال پہلے ارسطو نے اپنی کتاب Rhetoric میں بھی نوجوان نسل کے بارے میں یہی لکھا کہ ’’اِنہیں یہ گمان ہے کہ انہیں سب پتا ہے اور یہ ہر بات کے بارے میں ہمیشہ حتمی رائے رکھتے ہیں۔‘‘ اِس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور نئی نسل کی جن باتوں پر ہم سیخ پا ہوتے ہیں اُس کا کوئی جواز نہیں، ہم چونکہ اپنے زمانے کے رومانس میں زندہ ہیں اِس لیے موجودہ زمانے کے طور طریقے ہم سے ہضم نہیں ہوتے۔ جس وقت میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، اُس وقت موبائل فون عام نہیں تھا، ایک دن میرا جگری دوست ثاقب گھر آیا، میں موجود نہیں تھا، گھر واپس آیا تو پتا چلا کہ ابھی ابھی ثاقب نکل کر گیا ہے، میں نے فوراًموٹر سائیکل نکالی اور اسے تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا، آخر کار وہ اُس کھوکھے پر مل گیا جہاں ہم اکثر بیٹھ کر چائے پیا کرتے تھے۔ نہ جانے کیوں یہ بات مجھے آج تک نہیں بھولی، جس طرح میں نے اپنے دوست کو اُن تمام جگہوں پر تلاش کیا جہاں جہاں اُس کی موجودگی کا امکان ہو سکتا تھا اور جس طرح مجھے اسے ڈھونڈ کر خوشی ملی وہ ناقابل فراموش ہے، حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی۔ موبائل فون ہوتا تو نہ اُس نے فون کیے بغیر گھر آنا تھا اور نہ مجھے اسے تلاش کرنے کا تردد کرنا پڑنا تھا اور نہ اُسے پا کر مجھے وہ خوشی ملنی تھی۔ آج جین زی کی زندگی سے خوشی کا یہ حصہ نکل چکا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن کے پاس خوش ہونے کے مواقع کم ہیں یا ناپید ہوچکے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم خود کو اُن سے Relate نہیں کرسکتے اِس لیے جِزبِز ہوتے ہیں۔ اِس تمام گھن چکر کے پس منظر میں دراصل ہماری جوانی ہے جو ہمیں چین نہیں لینے دیتی، اپنے زمانے میں ہم نے وہ تمام حرکتیں کیں جن سے ہم آج کے بچوں کو منع کرتے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو ہم نے جو کچھ کیا وہ جین زی تصور بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ نسل بہت احتیاط پسند ہو چکی ہے (یہاں میں بھی وہی غلطی دہرا رہا ہوں جو ہر زمانے کے لکھاری نے کی ہے)۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جوں جوں ہم عمر میں بڑھتے جاتے ہیں توں توں ہم میں خطرات مول لینے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے سے بیس تیس سال کم عمر کے نوجوان احمق اور لاپروا لگتے ہیں۔ جب ہم بیس برس کی عمر میں یونیورسٹی میں تھے تو اُس وقت بلا سوچے سمجھے دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے نکل کھڑےہوتے تھے، اور بعض اوقات تو یہ آوارہ گردی خطرناک حدود میں بھی داخل ہوجایا کرتی تھی (آپ کو تفصیل جاننے کی ضرورت نہیں، اپنے تخیل سے کام لیں)، آج جب یہی سب کچھ جین زی کرتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وقت کی ناقدری کر رہے ہیں، بیوقوف اور گھامڑ ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے زمانے کے بزرگوں کی نظروں میں ہم بھی نرے گاؤدی تھے، آج فقط تاریخ بدلی ہے، باقی کچھ نہیں بدلا۔ تاہم یہ تمام باتیں اپنی جگہ، جین زی نے بہرحال ایف ایس سی نہیں کی ہوئی، یہ وہ کام ہے جو صرف ہماری جنریشن نے کیا ہے۔ ہم وی سی آر، جنرل ضیا کے مارشل لا اور ایف ایس سی کی پیداوار ہیں، ہم سا ہو تو سامنے آئے!

تازہ ترین