• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعیب بن عزیز کے گھر میں اشفاق حسین کی کلیات ’’لو ہم نے دامن جھاڑ دیا‘‘۔ کی چہرہ نمائی کی مجلس ہوئی۔ اگرچہ میں خود باسٹھ سال کا ہوچکا ہوں مگر وہاں زیادہ تر عمرمیں مجھ سے بڑے تھے اور ان کے چہروں پر بکھرتی ہوئی مسکراہٹیں اور قہقہے مجھے بار بار کہہ رہے تھے ۔غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔

بے شک دکھوں پر ہنسنے کی کیفیت ماتم کی تال پر رقص کرنے جیسی ہوتی ہے۔ یہاں بھی سب کے اپنے اپنے دکھ تھے۔ جو ایک اجتماعی دکھ سے مل کر قہقہے میں بدل گئے تھے۔ شعر تھے۔ باتیں تھیں۔ طنز تھے۔ مزاح تھا۔ گیت تھے ۔کیف تھا۔ یوں لگا جیسے سب کی آنکھیں رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی تھیں۔ میں اگرچہ تقریب میں پوری طرح شریک تھا مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد تقریب سے تھوڑا سا اونچا ہو کر ڈرون شاٹ کی طرح نیچے دیکھتا تھا۔ تجزیہ کرتا تھا۔ سب کےشعور سے ان کے لاشعور میں جھانکنے کی کوشش کرتا تھا تو اسی تاثر کی توثیق ہوتی کہ سب اپنے اپنے غم کو بھلانے کیلئے دردِ ناتمام میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی چالیس پچاس لوگ تھے۔ کھانا بہت شاندار تھا۔ جسے افشاں بھابھی نے اپنے ہاتھوں سے اور اپنی نگرانی میںتیار کرایا تھا۔ جس کھانے کو عطاالحق قاسمی جی بھر کے کھائے اس کےلذیذ ہونے سے کون انکار کر سکتا۔ لذتِ کام و دہن میں عطاالحق قاسمی ہمیشہ سے سرِ فہرست چلے آرہے ہیں ۔کوئی دکھ تو انہیں تھامگر بار بار یہی احساس دلارہے تھے کہ زندگی پڑی ہے ابھی۔ یہ مصرع کہنے والے کا شاعر بیٹا حسن کاظمی بھی تھا۔ باوجود اس کے کہ میں اور عطا صاحب وہیں سگریٹ پی رہے تھے وہ سگریٹ پینے بار بار ڈرائنگ روم سے باہر جاتا تھا۔ اس کا دکھ شاید مہذب تہذیب کا دکھ تھا۔ اصغر ندیم سید بھی تھا۔ خیال آتا ہے اس کے لاشعور میں شاید کہیں پانچ سال پہلے ٹانگوں میں لگنے والی گولیاں گھوم رہی تھیں۔ دہشت گردی کی کوئی بھی واردات ہو قوموں اور افراد کے شعور سے اتنی آسانی سے نہیں نکلتی۔ اسلام آباد یونیورسٹی کاسابق وائس چانسلر شاہد صدیقی بھی تھا۔ اس کی ہنسی میں ناراضی بھری تھی۔ جو مجلس سے نکلتے ہوئے اس کے چہرے تک پہنچ گئی تھی۔ عارفہ شہزاد بھی تھی اس کی آواز میں اس کے ناول ’’میں تمثال ہوں‘‘ جیسا دکھ تھا۔ جو اس کی خوبصورت مسکراہٹ میں مل کر ایک عجیب سی کیفیت بنا رہا تھا۔ ڈاکٹر صغرا صدف بھی تھیں۔ زندگی سے بھرپور صغرا نے اگرچہ اپنی اداسی پوری طرح چھپا رکھی تھی مگر پھر بھی کسی کونے کھدرے سے نکل آتی تھی۔ نیلم بشیر بھی تھی۔ ترنم اور تبسم سے بھری ہوئی نیلم بشیر ہاتھوں اور بازووں سے قوسیں بنانے سے تو گریزاں تھی پائوں البتہ تال میں تھے یعنی کوئی دکھ اسےبھی تھا۔ گانے کیلئے اگرچہ عدیل برکی جیسا خوبصورت گلوکار موجود تھا مگر محفل کچھ ایسی تھی کہ توقیر احمد شریفی بھی گنگنا اٹھا۔ گانے کے انتخاب نے اس کے غم کو راز نہ رہنے دیا۔ ڈاکٹر ظفر الدین محمود بھی تھا۔ جس کے ساتھ ہم نے کچھ برس پہلے دس خوبصورت دن چین میں گزارے تھے۔ وہ کسی زمانے میں سی پیک کے حوالے سے پاکستان کا اسپیشل انوائے ہوا کرتا تھا۔ اسے شاید سی پیک کے بجھتے ہوئے چراغ کا دکھ تھا۔ ڈاکٹر صائمہ ارم بھی تھی وہ اپنے قہقہوں میں اپنی غم گینیاں چھپانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ خالد ندیم شانی بھی تھا، اسے شاید میانوالی کا غم تھا۔ سید نیئر الدین بھی۔ سوشل میڈیا کا نیئر۔ ان کا کوئی بڑا سنجیدہ دکھ تھا۔ ابن صفی کے سنجیدہ خان محتاط کی طرح۔ آمنہ مفتی بھی تھی۔ فرحت زاہد بھی تھی۔ اپنی شاعری کے حسن اور دکھ دونوں کے ساتھ۔ سیما پیروز بھی تھی۔ اس کے چہرے پر ان افسانوں کا تلخی تھی جنہیں وہ نہیں لکھ سکی۔ صوفیہ بیدار بھی تھی، بے وفائی کے شہر آشوب کے ساتھ۔ وہاں کچھ دوستوں کے انتظار کا بھی دکھ تھا جس میں عباس تابش سرِ فہرست تھا۔

مہمان ِخاص اشفاق حسین کا دکھ شاید یہ تھا کہ وہ بڑے کمال کا شاعر ہے مگر فیض شناسی کے حوالے سے معروف ہے۔ میری نظر سے اسکی کتاب ’’اقبال اور انسان‘‘ بھی گزری ہے۔ میں نے اس کی فیض احمد فیض پرلکھی کتابوں کا بھی ایک سرسری جائزہ لیا ہے۔ کچھ کتابوں کے نام شاید ابھی تک حافظے میں موجود ہیں۔ ایک کتاب تھی۔ شیشیوں کا مسیحا فیض۔ فیض فن اور شخصیت، فیض تنقید کی میزان پر، فیض حبیب ِعنبرِ دست، مطالعہ فیض، فیض ایک جائزہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنی کتاب ’’موازنہ فیض و فراز‘‘ لکھ رہا تھا۔ یہ تمام کتابیں پڑھ کر بھی مجھ پر یہ خبر نازل نہیں ہو سکی تھی کہ اشفاق حسین شاعر ہے۔ پھر جب میں نے اس کی دو کتابیں ’’ایک ہتھیلی پہ گلاب اور گردش میں ہیں سات آسماں‘‘ دیکھیں تو پریشان ہوکر سوچا کہ اشفاق حسین تو شاعر ہے۔ ہزاروں شاعروں سے بہتر شاعر۔ جدید حسیات کا شاعر۔ تازہ کار شاعر۔ فیض و فراز کی طرح میر و غالب کے زمانے میں نہیں جی رہا۔ غزل میں ایسےمصرعے کہنے والا شاعر کوئی عام شاعر نہیں ہو سکتا ’’بچے جو آئی پوڈ کی دھن پر ہیں محوِ رقص‘‘۔ ’’جاں عمرو عیار کی اک زبنیل ہوئی‘‘۔ ’’فیس بک کی حکایتیں مت پڑھ‘‘۔ اشفاق حسین کی شاعری پڑھ کر مجھے بالکل ویسا ہی احساس ہوا ہے کہ زندگی تو فیض و فراز کے ساتھ گزار دی مگر انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس پر مجھ سے پہلے صرف ظفر اقبال موجود تھا۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی ہے کہ اشفاق حسین روایت کے دامن میں زندگی گزار کر بھی اپنے زمانے کو نہیں بھول سکے۔ اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ جن شاعر وں کی شاعری میں میر وغالب کا زمانہ نظر آتا ہے۔ پتہ نہیں وہ ہمارے دور میں سانس کیوں لیتے ہیں۔ میری طرف سے انہیں ’’لو ہم نے دامن جھاڑ دیا‘‘ پر مبارک باد۔ اس عہدِ زخم زخم میں خوشی کی اس محفل کے انعقاد پر شعیب بن عزیز کو بھی ہدیہ ِ تہنیت۔

تازہ ترین