ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے احتجاج کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات اور سینکڑوں مظاہرین کی جانوں کے ضیاع کے پروپیگنڈے کی گرد بیٹھنے کے ساتھ ہی قومی سطح پر اس احساس کا ابھرنا بلاشبہ نہایت خوش آئند ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی اور کسی صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے بجائے پائیدار امن و استحکام کیلئے سیاسی و قومی مفاہمت ناگزیر ہے ۔گزشتہ روز اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بڑے فکر انگیز اور ہوشمندانہ خیالات کا اظہار کیا۔پارٹی کے 57 ویں یوم تاسیس کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم کسی صوبے میں گورنر راج اور کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں، ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے، چاہے اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن بات چیت کریں یا پھر لاٹھی کا استعمال کرنا پڑے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نئے نیشنل ایکشن پلان کو ضروری قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے حالیہ مارچ کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ سیاست میں نہیں آتا،ایک صوبائی حکومت اپنے ہی وفاق پر حملہ آور تھی، تاریخ میں کبھی اتنی غیرذمہ دار صوبائی حکومت نہیں دیکھی،پارا چنار میں 100 سے زائد لاشیں ہیں اور یہ اسلام آباد میں لاشیں ڈھونڈ رہے ہیں۔حسن اتفاق سے گزشتہ روز ہی پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ طویل مدت سے متعدد مقدمات میں زیر حراست پی ٹی آئی کے رہنما نے لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی استحکام کے حصول کے لیے قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی سیاسی اور تاریخی غلطی ہوگی۔ پی ٹی آئی پر پابندی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگی۔شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ پی ٹی آئی کو کچلنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا،پارٹی پر پابندی لگانے اور خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کا مبینہ منصوبہ مضحکہ خیز ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کو اس طرح کے فیصلے کے نتائج کا کوئی اندازہ نہیں ہے، اس وقت بلوچستان کو شورش کا سامنا ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے، اور سندھ پانی کے مسئلے پر وفاقی حکومت کے نقطہ نظر پر احتجاج کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی طور پر باشعور لوگ گورنر راج نافذ کرنے کے خیال کی مخالفت کریں گے اور اپنی قیادت کو متنبہ کریں گے کہ یہ ایک سیاسی اور تاریخی غلطی ہوگی۔انہوں نے درخواست کی کہ مجھے پارٹی کے بانی عمران خان سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ قومی مفاہمت اور اتفاق رائے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرسکوں۔بلاشبہ ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کے خاتمے کے تجربات ہمیشہ ملک کے لیے نقصان دہ رہے ہیں۔ عوام کے اندر ان کے نتیجے میں جنم لینے والے منفی جذبات قومی یکجہتی اور یگانگت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو نیک نیتی کے ساتھ قومی مفاہمت کی جانب قدم بڑھانا چاہیے۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ قومی اور سیاسی مفاہمت میں برسوں سے جو واحد رکاوٹ حائل ہے وہ بانی پی ٹی آئی کا سیاسی قوتوں سے بات چیت نہ کرنے کا اٹل مؤقف ہے۔لہٰذا پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی یہ پیشکش نہایت قابل قدر ہے کہ انہیں موقع دیا جائے تو وہ اپنے لیڈر کو قومی مفاہمت پر بات چیت کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ حکومت بلاتاخیر انہیں یہ موقع اور اس کی کامیابی کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کرے کیونکہ سیاسی انتشار اور دہشت گردی کے خاتمے اور پائیدار امن و استحکام کے لیے سیاسی و قومی مفاہمت ناگزیر ہے۔