پاکستان مقامی اور عالمی سرمایہ دار مافیاز کی چراہ گاہ ہے۔ وہ بھی ایسی جہاں افراد امیر ہیں اور سرکار مقروض۔ جتھے وسائل پر قابض مگر ادارے کچھ کرنے سے معذور۔ ایسے میں پہلے دو شاعروں نے پنجاب کو مخاطب کرکے اُسے جاگنے کا مشورہ دیا۔ خالص پنجابن امرتا پریتم اور شاعرِ عوام حبیب جالب۔ پھر پنجاب کی پَگ پر داغ دھونے والے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تازہ پکار مہران سے آئی۔ امرتا پریتم یوں روئی....
اج آکھاں وارث شاہ نوں،کِتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا، کوئی اگلا ورقہ پھول
اِک روئی سی دِھی پنجاب دی، توں لِکھ لِکھ مارے وین
اَج لَکھّاں دِھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ تَک اپنا پنجاب
جالب کا نوحہ ہے :
جاگ مرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا
افسردہ غزلیں گریاں افسانے ہیں
حدِ نظر تک پھیلے ہوئے ویرانے ہیں
دریا ہوئے سراب کہ پاکستان چلا
ہمارے فارن ایکسچینج کے صرف دو قابلِ ذکر ذرائع ہیں۔ سات سمندر پار مقیم پاکستانی اور آزاد کشمیر کے محنت کش۔ پہلا ڈالر حاصل کرنے کا، دوسرا باعزت ذریعہ ٹیکسٹائل کی صنعت ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ خبر ہو کہ اس صنعت کا 70 فیصد وجود صوبہ پنجاب میں ہے۔ یادش بخیر... ابو الاثر کے ’’شاہنامہ‘‘ کی طرز پر تازہ دم جمہوریت نے جو ’’ڈالر نامہ‘‘ ترتیب دیا اُس کی سب سے بڑی پھکّی پنجاب میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پڑی ۔ ہُنڈی مافیا نے ڈالروں کے کنٹینر بھر کر اداروں کی سرپرستی میں پہلے مارکیٹ سے اس کے بعد پاک سرزمین سے غائب کئے اُس کا صرف ایک نقصان ہی ہوش رُبا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مدوجزر سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو موجود اسٹاک پر 78بلین روپے کا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں ٹیکسٹائل کی صنعت کا پہیہ چلانے کے دعویداروں کو ابھی فرصت نہیں۔ وہ FBR کو کیسے کہیں سیلز ٹیکس کے اربوں کے ری فنڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دے دو۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ پنجاب کے صنعتی میدان میں سب اچھا ہے۔ حقیقت اس کے اُلٹ ہے۔ یہاں دوسرے صوبوں کی صنعتوں کے مقابلے میں گیس اور بجلی دونوں بہت ہی کم فراہم ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اس میں دوسرے صوبوں کا کوئی قصور نہیں۔ وفاقی حکومت کے پالیسی ساز ایم او یو کے ’’عالمی ریکارڈ‘‘ سے فارغ ہوں گے تو وہ اپٹما، ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز، پاور لُوم مالکان پر توجہ دیں گے۔ پنجاب میں ٹیکسٹائل واحد صنعت ہے جہاں مقامی سرمایہ کاروں کی انویسٹمنٹ کی وجہ سے نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی صنعت میں ویلیو ایڈڈ اشیاء کی تیاری ہمیں ایکسپورٹ کی عالمی منڈی تک رسائی دیتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں پنجاب صنعتی یونٹ گیس سپلائی فارمولے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا ۔تب یہ افسوسناک انکشاف ہوا، پنجاب میں ٹیکسٹائل صنعت ہر روز چوبیس گھنٹے میں سے اٹھارہ گھنٹے گیس کے ایندھن سے محروم ہے۔ باقی چھ گھنٹے گیس سپلائی کرنے والے پریشر کا منہ کھولنے کے بجائے بڑے بڑے منہ کھول لیتے ہیں لہٰذا ان چھ گھنٹوں میں گیس پریشر کم ترین سطح پررہتا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کا مقولہ بھی پنجاب میں ٹیکسٹائل کی صنعت پر فِٹ آتاہے۔ جہاں روزانہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 8 گھنٹے ہوتی ہے۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پنجابی ٹیکسٹائل صنعت کا پہیہ چلانے کے لئے اکیلے توانائی کی مد میں80 ارب روپے کا ناقابلِ برداشت فالتو بوجھ اُٹھا رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے دوسرے صوبوں میں گیس چوبیس گھنٹے فراہم ہوتی ہے۔ کسی نے نہ جانے کب اور کیوں کہا تھا:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
پنجاب سے مینڈیٹ لینے والے پنجاب کے خادم ہوں یا مخدوم یا اپوزیشن۔اپنے سمیت میں سب کی ذمہ داری سمجھتا ہوں وہ ٹمٹماتا ہوا واحد صنعتی دِیا سنبھال لیں ۔ پنجاب میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو مزید بندش کے اندھے کنوئیں میں گرنے سے روکیں۔ اسی میں مُلک کے 70فیصد آبادی والے صوبے کا مفاد ہے۔ 70فیصد ٹیکسٹائل صنعت کو ٹائی ٹینِک کی طرح ڈوبتے دیکھ کر تماشائی بنے رہنا قومی جُرم۔ پنجابی لیڈر نہ جانے کیوں پنجاب کے آبی مسائل پر معذور، اندھے، گونگے اور مجبور کا رول ادا کرتے ہیں۔ صوبے کو NFC والے ہزاروں ارب کی ضلع وار منصفانہ تقسیم پر لمبی تان کر سو نا...؟ پنجابی زبان کے بند ہوتے اخبارات، ٹی وی چینل کے مسائل۔ پنجابی کے لئے بند ہوتے سرکاری دروازے کھولنے سے کیوں شرماتے ہیں...؟ قومی زبان اُردو بولنا بہت اچھی بات ہے۔ گلوبل زبان انگریزی بولنا اس سے بھی اعلیٰ،مگر ماں بولی کی بے بسی کا تماشا دیکھنا کہاں کا انصاف ہے...؟ اور کس کی خدمت...؟
خدمت و انصاف سے یاد آیا۔ صرف 17اپریل 2014ء کے دن معتبر اخباروں میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایک درجن خواتین کے جبری استحصال اور آبروریزی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ تفصیل اور نام لکھنے کی ہمت نہیں۔ گجرات میں 14سالہ نابالغ بچی کی معذور شخص سے جبری شادی ہوئی۔
دو دن تک قوم کی بیٹی کو درندوں کے گینگ نے اجتماعی وحشت کا نشانہ بنایا۔ کنگن پُور کی گُڑیا تھامنے والی چار سالہ بچی کو وحشی جانور ہوس کا شکار بنا گیا، بچی اسپتال میں ہے خدا کرے موت کے چنگل سے بچ نکلے۔ جنوبی چھاونی لاہور میں بے غیرت عامل بابا نے22 سالہ لڑکی کی عصمت پامال کر دی۔ حافظ آباد کے پولیس کانسٹیبل نے آٹھویں کی طالبہ سے درندگی کا کھیل کھیلا۔ کوٹ سرور میں عصمت بچانے کے لئے لڑنے والی بہادرخاتون کو جلایا گیا۔ تاندلیانوالہ ،ذہنی اسپیشل 12 سالہ قوم کی بیٹی درندگی سے نہ بچ سکی۔ اوکاڑہ میں دو لڑکیاں جبراً اغوا ہوئیں پھر اُن کی عفت کے آنچل تار تار۔ شرق پور اور ضلع میانوالی میں لڑکیوں کو بھیڑیوں کے گینگ نے پامال کیا۔ یہ المناک واقعات رپورٹ درج کرانے کے مرحلے تک پہنچے۔مصدقہ ذرائع کہتے ہیں غیر رپورٹ شدہ روزانہ جرائم کی تعداد، رپورٹ ہونے والے سانحات سے بہت زیادہ ہے۔ جہاں ایسا واقعہ میڈیا رپورٹ کرتا ہے۔ حکمران وہاں مظلوم گھرانوں کی اشک شوئی کرتے ہیں۔ کبھی مالی امداد کا اعلان بھی۔ مگر مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی...؟ انہیں ایران اور سعودی عرب کی طرح عبرت کا نشان کیوں نہیں بنایا جاتا...؟ آج کرۂ ارض کا کوئی معاشرہ ایسا نہیں جہاں قانون ہمارے جتنا بے بس و لاچار ہے ۔ بے گناہوں کے لاشے۔ معصوم گھرانوں کی عزتوں کے جنازوں پر صرف نوٹس...؟ افسوس کرتا ہوا بے حس سماج۔ مدد کرنے والا یا فوٹو سیشن کا عادی راج دربار...؟ ان جرائم کے خاتمے میں اگر تھانے مجرموں کے ساتھی ہیں تو اسپیشل فورس بنا لیں۔ اگر تعزیراتِ پاکستان غیر موثر ہے شرعی قوانین نافذ کردیں۔ ظالم جب تک ٹکٹکی تک نہیں پہنچے گا، لوگوں کی عزت، جان و مال کے عادی مجرم دار پر نہیں کھینچے جائیں گے، مظلوم جب تک انصاف ہوتا ہوا نہیں دیکھے گا نہ کسی کو انصاف پر یقین آئے گا، نہ قانون پر اعتبار ۔نہ ہی انصاف اور قانون کے تنخواہ داروں کی طفل تسلیاں اُن کے پیپ زدہ زخموں کے منہ بند کر سکیں گی۔ذیقعدہ 10ہجری تاریخ کے سب سے بڑے منصف، حکمران اور محسنِ انسانیت ﷺ نے خطبۂ حجتہ الوداع میں ہماری ڈیوٹی لگائی... ’’لوگو ! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئیں۔ ان کی اہمیت ایسی ہے جیسی اس دن کی۔ اور مبارک مہینہ کی خاص کر اس شہر میں ہے۔تم سب اللہ کے حضور پیش ہو گے۔ وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس فرمائے گا‘‘۔