• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامد میر پر قاتلانہ حملہ بلاشبہ سفاکانہ فعل ہے، لاریب حق اور سچ کی آواز کو دبانے کی مذموم سعی اور بلاخوف تردید اختلاف رائے کے بنیادی انسانی حق پر بزدلانہ وار مگر میڈیا مالکان اور کارکن صحافیوں نے اس موقع پر جس طرح پرانے بدلے چکانے کی کوشش کی وہ کس حد تک روا تھا؟ ایک دوسرے سے حساب کتاب برابر کرنے کے ساتھ ایک قومی ادارے کا تیاپانچہ کرنے کی اس حرکت کا کوئی معقول جواز ہے؟ ہم سب کو سوچنا چاہئے۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے کی اطلاع ملی تو میں ،جناب الطاف حسین قریشی، برادرم سجاد میر اور رئوف طاہر کے ساتھ کراچی میں تھا ہم چاروں چودھری رحمت علی سیمینار میں شرکت کے لئے اپنی قیام گاہ سے نکل رہے تھے۔ بریکنگ نیوز نے قدم روک لئے، جذبات میں تلاطم برپاکیا اور ہم سب کی زباں سے نکلا’’یااللہ خیر‘‘ بعدازاں عیادت کے لئے آغا خاں ہسپتال پہنچے تو دل و دماغ میں ہزار طرح کے اندیشوں اور وسوسوں کا بسیرا تھا۔ عمران میر سے فون پر بات ہوچکی تھی مگر تسلی عامر میر اور فیصل میر سے مل کر ہوئی کہ وہ موقع پر موجود اور حامد میر کی حالت سے واقف تھے۔
حامد میر عوام کے محبوب، اینکر پرسن اور مقبول کالم نگار ہیں، ان کی یہ محبوبیت ،مقبولیت اور صاف گوئی و بے باکی بہت سے افراد، گروہوں اور اداروں کے علاوہ ہر دور کے حکمرانوں کے لئے سوہان روح ہے۔ پاکستان میں اختلاف رائے برداشت کرنے کی عادت ہے نہ اس کو رواج دینے کی سعی ،حکمرانوں،سیاستدانوں، علماء اور دانشوروں میں سے کسی نے کبھی کی۔سبھی فوجی اور جمہوری حکومتوں میں صحافی، سیاستدان اور دانشور حق و بے باکی کے جرم میں قید و بند، ذہنی و جسمانی صعوبتوں اور بسا اوقات زندگی سے محرومی کے شکارکی سزا پاتے رہے۔
حامد میر انسان ہے خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ اور اس کی شخصیت ،نقطہ نظر اور تجزئیے سے اختلاف ممکن ہے۔ بسا اوقات اختلاف کا یہ موقع وہ خود فراہم کرتا ہے اور دوسروں سے اختلاف کا حق منوانے پر اصرار، مگر اس کی حب الوطنی، قومی معاملات میں اصابت رائے اور اقبالؒ و قائدؒ سے والہانہ عشق ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
پچھلے دنوں بعض ژولیدہ فکر عناصر نے اقبالؒ کی آفاقی فکر اور قائد اعظمؒ کی بے داغ شخصیت، اصول پسند طبیعت کے ضمن میں غیر ثقہ، بے سروپا اور توہین آمیز حکایات و روایات کی جگالی کی تو حامد میر نے اپنے والد پروفیسر وارث میر مرحوم کی طرح قلم کو تلوار کیا اور جھوٹ کے پائوں اکھاڑ دئیے اور ان کے شانہ بشانہ قلم کو دفاع اقبال و جناح کے لئے وقف کرنے والے مجھ ایسے لوگوں کو بھی اکساتے رہے۔ اس ضمن میں حامد میر نے دیرینہ تعلقات کی پروا کی نہ لبرل فاشسٹ عناصر کے شور و غوغا سے گھبرائے۔ آج کل وہی قاتلانہ حملے پر سوالات اٹھا کر اپنی بدذوقی اور تعصب کا ثبوت دے رہے ہیں۔
عہدہ و منصب ا ور دولت و مراعات سے بے نیاز اس نوجوان صحافی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیکرٹری طارق عزیز نے اسے پندرہ کروڑ روپے میں بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات، پی ٹی وی کے ایم ڈی اور قومی اسمبلی کی رکنیت کے عوض خریدنا چاہا مگر یہ آزاد پنچھی کسی دام میں نہیں پھنسا۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو سے گہرے تعلقات کے باوجود دونوں کے عہد حکومت میں بے روزگار ہوا اور ان دونوں کے مخالف پرویز مشرف کے دور میں معتوب رہا۔
پاکستان میں حکومت کسی فوجی جرنیل کی ہو یا جمہوری حکمران کی اختلاف رائے اور تنقید و مخالفت کو ہمیشہ ملک دشمنی سمجھا جاتا ہے اور مخالفین سے دشمنوں جیسا سلوک دیرینہ روا یت ہے، جو لوگ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مخالفت کررہے ہیں انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ اور ڈیفنس رولز آف پاکستان اور سولہ ایم پی او جیسے قوانین اور ضابطے یاد ہیں جو بنائے تو ملک دشمنوں ،تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے لئے گئے مگر آزمائے ہمیشہ صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور اظہار رائے کی آزادی پر اصرار کرنے والے دانشوروں پر، اور اختلاف و تنقید کا علم بلند کرنے والوں کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب نسلی و لسانی عسکریت پسندوں اور بندوق بردار فرقہ پرستوں کی صورت میں ایک نیا عنصر بھی در آیا ہے اور ان کے سرپرست بیرونی عناصر بھی جو پاکستان کو تاابد تنازعہ و فساد، لڑائی جھگڑے، قتل و غارت گری اور تفریق و مناقشے کا مرکز بنائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ عناصر کبھی قرار و استحکام حاصل نہ کرپائے۔ یہ عناصر بھی حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
حامد میر نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ ایک متاثرہ اور دکھی فریق کا جذباتی ردعمل ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے ہی موقع پر دوسروں کو درمیان میں پڑنے سے منع کیا اور جذباتی شخص کو کھل کر اپنا غصہ نکالنے کی ترغیب دی۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ جب حامد میر نے اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے حوالے کسی پر انگشت نمائی کی تو ان خدشات کا بروقت ازالہ کیوں نہ ہوا؟ انہیں مطمئن کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ مگر عامر میر کے فوری ردعمل پر موافق و مخالف آراء کا جو طوفان آیا۔ مادر پدر مباحثے کا جو فلڈ گیٹ کھلا اور پیشہ ورانہ رقابتوں، نفرتوں، تعصبات کا جس وکھڑے انداز میں اظہار ہوا وہ کس طرح جائز قرار پاسکتا ہے کیا ہم آزادی کے مفہوم سے قطعی بیگانہ ہوتے جارہے ہیں۔
اس معاملے میں حکومت بالخصوص وزارت اطلاعات و نشریات کی خاموشی معنی خیز ہے۔ وفاقی وزارت اطلاعات پرویز رشید سے ہسپتال میں ملاقات رہی اور واپسی کا سفر بھی ہم نے اکٹھے کیا۔ اختلاف اور دشمنی کے درمیان حد فاصل کھینچنے کی ضرورت وہ محسوس کرتے ہیں مگر آ ئی ایس آ ئی کے دفاع میں آئی ایس پی ا ٓر کو وضاحتی بیان کیوں جاری کرنا پڑا؟ یہ ادارہ وزیر اعظم کا ماتحت ہے مگر وزیر اعظم ہائوس اور سیکرٹریٹ الخاموشی نیم رضا کا تاثر ابھار رہا ہے تو گویا قومی سلامتی کونسل کے اجلاس اور کاکول کی تقریب کے باوجود فاصلے برقرار ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں کی طرح حکومت بھی میڈیا کی باہمی لڑائی کے علاوہ فوج و آئی ایس آئی پر اندرونی و بیرونی دبائو سے محظوظ ہورہی ہے ۔
اس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعوئوں ،صحافیوں کی ز ندگی کو درپیش خطرات کے سدباب کے لئے حکومتی اداروں کی کارگزاری اور عام شہریوں کے لئے بااعتماد سکیورٹی کے اعلانات کی مٹی پلید ہوئی مگر سب ایک دوسرے کے گندے کپڑے بیچ چوراہے کے دھونے میں یوں مصروف ہوئے کہ کسی کو اہم سوالات اٹھانے کی فرصت ہی نہ ملی، البتہ معاشرے کے اہم ترین طبقے کی باہمی تقسیم اور تفریق کا نقش شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ اللہ تعالیٰ حامد میرکو سلامت رکھے۔ حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں کا کچھ احساس کرے اور صاف گو، دلیر صحافیوں کو یقین دلائے کہ اس ملک میں جرأت مندی و حق گوئی کوئی جرم نہیں اور کوئی طاقتور شخص، گروہ یا ادارہ یہ حق سلب کرنے کا حقدار ہے نہ رہا۔
تازہ ترین