• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیامیں ایسی مثالیں بہت کم ہونگی کہ پڑوسی ممالک صرف جغرافیائی حوالوں ہی سے ایک دوسرے کے نزدیک نہ ہوں بلکہ انکے درمیان بڑے پیمانے پر لسانی ،تہذیبی اورتاریخی اشتراکات بھی پائے جاتے ہوں جیساکہ ایکو کے رکن ممالک کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ میں جب ایرانی وزارت خارجہ کے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں داخل ہوا تو داخل ہوتے ہی ایکو (ای سی او) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اسد مجید سے ملاقات ہوگئی۔ وہ آسٹریلیا اور چیک ری پبلک کے سفارتکاروں سے مذکورہ بالا گفتگو کر رہے تھے۔ ایکو سے ہماری وابستگی اس زمانے سے ہے جب کبھی یہ ادارہ آرسی ڈی کے روپ میں تھا۔ بیالیس برس پہلے مختار مسعود اسکے سیکریٹری جنرل تھے اور راقم الحروف نے ’’آوازدوست‘‘ پڑھکر انھیں ایک خط لکھا تھا۔ جنرل سیکریٹری، آرسی ڈی،تہران کے لیٹر پیڈ انکے ہاتھ سے لکھا ہوا جوابی خط آج بھی راقم کے پاس محفوظ ہے۔ پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی کا معاہدہ 1964ء میں ہوا۔ 1985ء میں اس معاہدے کو ایکوکی شکل دی گئی۔ اس معاہدے کا مقصد رکن ممالک کی مشترکہ فلاح و بہبودکیلئے، خطے میں پائیداراقتصادی ترقی کا مسلسل فروغ اور اس کیلئے سازگار حالات کا پیدا کرنا ہے۔ اس معاہدے میں سابق آر سی ڈی کے تین رکن ممالک کیساتھ 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان بھی شامل ہوگئے ۔28؍نومبر کو ’’ایکو ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایکو کی جانب سے 2015ء میں بھی راقم کو ایران بلایا گیا تھا جب اسے ایک بین الاقوامی اقبال کانفرنس میں بہترین محقق کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔یہ کانفرنس ایکو کے ذیلی ادارے ایکو فرہنگی کی جانب سے ہوئی تھی آج کل جس کے سربراہ ڈاکٹر سعدخان ہیں۔ ایکو کا موجودہ سیکرٹریٹ تہران کے علاقے کامرانیہ میں ہے۔ راقم یہ جاننا چاہتا تھا کہ آرسی ڈی کا سیکرٹریٹ کہاں تھا؟ اس امر کی جستجو کی گئی تو معلوم ہواکہ آرسی ڈی کا سیکرٹریٹ الزبتھ بلوارڈ پر تھا۔ الزبتھ بلوارڈ کا موجودہ نام خیابان کشاورزہے اور آرسی ڈی کا دفتر خیابان کشاورکی ایک ذیلی سڑک خیابان حجاب میں واقع تھا۔ آرسی ڈی کی عمر بیس برس سے زیادہ نہ ہوسکی لیکن اس ادارے نے کم مدت میں تینوں ممالک کے درمیان اشتراکات کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں اہم کام کیاتھا۔ لاہور میں اس ادارے کا ذیلی دفتر گلبرگ میں تھا جہاں سے رکن ممالک کے ادیبوں اوردانشوروں کے بارے میں وقیع کتابیں شائع کی گئی تھیں۔ اب یہی کام ایکو کا ذیلی ادارہ موسسہ ایکو فرہنگی انجام دے رہا ہے۔ حال ہی میں اس ادارے کی جانب سے ’’حکایت وفا در پاکستان‘‘ نامی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس سفرنامے کی مصنفہ ڈاکٹروفا یزدان منش ہیں ۔ اس نوعیت کی کتابیں دوست ممالک کے درمیان روابط کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ایکو کے پیش نظر بنیادی طور پر رکن ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونی کیشن، توانائی، معدنیات، ماحولیات، زراعت، صنعت، سیاحت، ہیومن ریسورس اور پائیدار ترقی کے منصوبوں پر کام کرنا ہے۔ یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اسد مجید صاحب نے ان مقاصد کی جانب توجہ مبذول کروائی، وہ جن کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ یوں تو ایکو کے یوم تاسیس پر آسٹریلیا، اٹلی، چیک ری پبلک، پرتگال، سربیا کے سفارتکاروں سے بھی ملاقات ہوئی لیکن نیکاراگوئہ کے سفیر ریمون مونکا ڈاکولنڈرز راقم کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ پاکستان اور نکاراگوہ میں باقاعدہ سفارتخانوں کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ سردست تہران میں متعین پاکستانی سفیر ہی نکاراگوا کے معاملات کو بھی دیکھتے ہیں۔ دونوں ممالک مستقل سفارتخانوں کے قیام پر متفق ہو جائیں تو باہمی روابط زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوسکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان فنی بنیادوں پر تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ میں نے انکی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، زرعی شعبے میں بھی تعاون کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا۔ واپسی کے سفر میں سفارت پاکستان تہران کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن احمدشامی اور محترمہ خرت صاحبہ سے اس گفتگو کا تذکرہ ہوا تو انہوؒں نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کر رہا ہے۔ چیک ری پبلک کے سفارت خانے میں سیاسی اور صحافتی امورکے فرسٹ سیکرٹری آدام ورزال اور آسٹریلیا کے ڈپٹی ایمبسڈر ڈاکٹر Christopher Watkins تمام وقت اکٹھے نظر آتے رہے۔ ڈاکٹر کرستو فرواتیکنز خاصے باریک بین معلوم ہوئے۔ دیر تک میرا وزیٹنگ کارڈ دیکھتے رہے۔ میرے وزیٹنگ کارڈ پرایک جانب انگریزی اور دوسری جانب اردو حروف کو دیکھ کر انہوں نے اسے سراہا۔ انہیں خاص طور پر خط طغریٰ میں بنا نشان متاثرکر رہا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ خط طغریٰ چودھویں صدی عیسوی میں متعارف ہوا اور ترکی کے عثمانی حکمرانوں کے دورمیں یہ شاہی اقتدار کی علامت رہا۔ اسے بادشاہ کی مہر کی حیثیت حاصل تھی۔ بعدازاں یہ خطاطی کے ایک اسلوب کے طور پر رائج ہوگیا اور اب پاکستان، ایران اور ترکی تینوں ملکوں کی نستعلیق کی خطاطی میں خط طغریٰ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سب سے یادگار ملاقات ایک خاتون سے ہوئی وہ لتزا روسانوتھیں۔ راقم اطالوی سفارتکار میسی می لانوبرٹولو سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ انوویشن ڈویلپمنٹ اینڈ اینٹرپری نورشپ(آئی ڈی ای اے) کے انٹرنیشنل کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ یہاں ہماری گفتگو کا موضوع اٹلی میں اردو کی تدریس تھا۔ راقم نے انہیں بتایا کہ یورپ میں اردو کی تدریس سب سے پہلے اٹلی میں شروع ہوئی تھی۔ اس پر وہ حیران ہوئے۔ نیپلز یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر روبرٹو ٹوٹولی اور پاکستان میں اٹلی کے سابق سفیر ایندریاس فیرارس کا بھی ذکر ہوا، جنہوں نے راقم کے سفرنامے ’’کشوراطالیہ کی بہار ‘‘ کے دیباچے لکھے ہیں۔ ہماری اس گفتگوم یں جیسے ہی وقفہ آیا ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی لیتزا روسانو گویا ہوئیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ صاف اور شستہ اردو بول رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تہران میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے قائم اقوام متحدہ کے ادارے، ایشین اینڈ پیسفک ڈیزاسٹر انفارمیشن مینجمنٹ (اے پی ڈی آئی ایم) کی نمائندہ ہیں۔ تہران میں ایک مغربی خاتون کی زبان سے اردو سنکر داغ دہلوی کی بات پر یقین آنے لگا ۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

تازہ ترین