اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی ریاست کے قیام کا باقاعدہ مطالبہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کرے۔ دو ریاستی حل کے قیام کیلئے آئندہ سال جون میں گرینڈ کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ قرار داد 157 ووٹوں سے منظور کر لی گئی۔ تاہم امریکا نے اس قرار داد کو ویٹو کر دیا۔ اسرائیل کے حق میں امریکا نے کتنی قرار دادیں ویٹو کی ہیں، آج کے مضمون میں اس کا جائزہ لیں گے۔ امریکا اسرئیل کیخلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ہمیشہ سے ویٹو کرتا چلا آ رہا ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق 1972ء میں شام اور لبنان نے اسرائیلی جارحیت کیخلاف سلامتی کونسل میں شکایت دائر کی۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13نے شام اور لبنان کی حمایت کی اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ اسرائیل کے حق میں صرف ایک ووٹ پڑا۔ 2اکتوبر 1972ء کو امریکا نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کر دیا۔ 1973ء میں مشرق ِوسطیٰ کی صورت حال پر 8ممالک نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ ایوان کے 15 میں سے 13ارکان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیئے۔ امریکا نے 7فروری 1973ءکو اسے بھی ویٹو کر دیا۔ 1975ءمیں مصر اور لبنان نے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ 13ممالک نے حمایت اور ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 12اگست 1975ءکو امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ 1976ءمیں 6بڑی اقوام نے فلسطینی ایشو اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اقوامِ متحدہ میں اپیل دائر کی۔ 9ممالک نے اسرائیل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جبکہ 3ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اس قرارداد کو بھی امریکا نے 26جنوری 1976ءکو ویٹو کردیا۔ مارچ میں 15ممالک نے عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 15 ارکان میں سے 14نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ 25مارچ 1976ءکو امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔ حقوقِ انسانی کی کمیٹی نے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی مظالم کو بنیاد قرار دے کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کی درخواست کی۔ 10ممالک نے اس درخواست کی حمایت کی اور 4نے مخالفت۔ امریکا نے 29جون 1976ء کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اپریل 1980ءمیں تیونس نے فلسطینی عوام کے حقوق کیلئے درخواست دی۔ امریکا نے 30اپریل 1980ءکو اسے ویٹو کردیا۔ اردن نے جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف جنوری 1982ءکو اسرائیل کے خلاف درخواست دی۔ 9 ممبر اس درخواست کے حامی تھے اور 5مخالف۔ امریکا نے 20 جنوری 1982ء کو اسے ویٹو کر دیا۔ اردن نے مقبوضہ علاقوں کی دگرگوں صورت حال پر فروری 1982ءمیں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 13ارکان نے اس ایشو پر اردن کی حمایت کی، اسرائیل کو صرف ایک ووٹ ملا۔ امریکا نے 2اپریل 1982ء کو اسے بھی ویٹو کر دیا۔ قارئین! آپ ”انصاف“ کے علمبردار امریکا کی ہٹ دھرمی کی تاریخ پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں۔ اپریل 1982ءہی میں مسجدِ اقصیٰ پر حملے کے خلاف 4ممالک نے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو 14 ووٹ ملے مخالف کوئی نہیں تھا لیکن 20اپریل 1982ء کو امریکا نے اسے بھی ویٹو کر دیا۔ جون 1982ءمیں لبنان کے ایشو پر اسپین نے قرارداد پیش کی۔ 14 ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی، صرف ایک ملک مخالف تھا لیکن امریکا نے 8جون 1982ء کو اسے بھی ویٹو کر دیا۔ اگست 1982ء میں سوویت یونین نے لبنان ایشو پر قرارداد پیش کی۔ سلامتی کونسل کے 15ارکان میں سے 11ارکان نے روس کی حمایت کی اور اس قرارداد کی مخالفت میں 3ووٹ پڑے۔ امریکا نے 6اگست 1982ء کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اگست 1983ء میں 20 ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی۔ 13ممالک نے فلسطینیوں اور ایک ملک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ 2اگست 1983ءکو امریکا نے اسے بھی ویٹو کر دیا۔ 1983ءمیں سلامتی کونسل نے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے کی مخالفت کی۔ امریکا نے اس احتجاج کو کارروائی کا حصہ ہی نہیں بننے دیا۔ اسی طرح بالترتیب 6ستمبر 1984، 13ستمبر 1985، 12مارچ 1985، 30جنوری 1986، 17جنوری 1986، 6فروری 1986، 18 جنوری 1988، 10مئی 1988، 14دسمبر 1988، 17فروری 1989، 9جون 1989، 7نومبر 1989، 31مئی 1989، 31مئی 1990، 17مئی 1995، 7مارچ 1997، 21مارچ 1997، 27مارچ 2001، 15دسمبر 2001، 20دسمبر 2002، 16ستمبر 2003، 14اکتوبر 2003ءکو امریکا نے اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور استعمال کی۔ مارچ 2004ءمیں ایریل شیرون کے حکم پر شیخ احمد یاسین کو میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا۔ سلامتی کونسل کے 15میں سے 11ارکان نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ظلم قرار دیا۔ امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ جولائی اور 11نومبر 2006ء کو بھی غزہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لئے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہوئی لیکن حسبِ عادت امریکا نے ویٹو کر دیا۔ خونخوار اسرائیل کی بے جا حمایت کا یہ ظالمانہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ان میں سے بعض قراردادیں تو وہ ہیں جنہیں امریکا نے خود ویٹو کیا اور پوری دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں۔ پچیس تیس ایسے مواقع بھی ہیں جب اسرائیل نے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی کی۔ جس پر سلامتی کونسل کے ارکان کا اجلاس بلایا گیا اور ارکان نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تو امریکا نے اس فیصلے کے خلاف ویٹو کرکے اسرائیل کو سفارتی فتح دلائی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف نہ صرف اقوامِ متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئیں بلکہ اس کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں منظور بھی ہوئیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں پر آج تک کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس کا پشت پناہ امریکا ہے جو دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنے کا بظاہر دعویٰ کر رہا ہے لیکن حقیقت میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔