• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایڈیٹر کے بجائے آڈیٹر جنرل ہوتیں!!

شمارہ موصول ہوا،’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی اسلام میں ’’مسجد‘‘ کے اتفاق و اتحادِ مسلم کی علامت ہونے کی اہمیت تاریخی حوالوں سے اجاگر کررہے تھے۔ قرونِ اولیٰ سے مغلیہ دَور تک مسلمانوں کاعروج رہا، تو اُس میں مسجد کا کردارنمایاں ہے۔ پھر نوآبادیاتی دَور میں انگریز نے خاص طور پر مساجدومدارس کو نشانہ بنایا تاکہ مسلمانوں کےاتحاد واتفاق کے وہ مراکز ختم ہو جائیں، جہاں سے اُنھیں حوصلہ اور کُمک ملتی ہے۔

’’خودنوشت‘‘ میں پاکستان پولیس سروس کے رول ماڈل، ذوالفقاراحمد چیمہ کی کہانی خُود اُن کی زبانی پڑھی۔ پہلی قسط ہی بہت متاثرکُن تھی۔ اے کاش! ہمارے موجودہ پولیس افسران بھی اِن کی تقلید کرلیں، تو مُلک امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔ ہمارے خیال میں تو اگر کمشنری عدالتی نظام ہی بحال کردیا جائے، تو ایک طرف عدالتوں کا بوجھ کم ہوجائےگا، دوم عوام کو سستا انصاف بھی ملے گا۔ 

’’رپورٹ‘‘ میں وحید زہیر نے بلوچستان کی طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاری کا نوحہ سُنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس جاگیرداری، سرداری نظام کے ہوتے ہوئے عوام اِسی طرح ڈوبتے رہیں گے۔ منور مرزا امریکی انتخابات کے پہلے مباحثے پر تبصرہ کررہے تھے۔ ہمیں تو کمیلا، ٹرمپ دونوں ہی سےکوئی خوش گمانی نہیں۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرعشبا جمال نے خواتین کے پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا تذکرہ کیا۔ واقعی اِس معاملے میں عورت،مرد سےبہت آگےہے۔ ہم تو آنکھوں کے معمولی آپریشن سےگھبرا گئے تھے، جس میں صرف 10 منٹ لگتے ہیں۔ ڈاکٹر سید امجد علی جعفری نے بھی ’’ورم کےنقصانات‘‘ سے آگاہ کیا۔ ’’پیاراگھر‘‘میں ڈاکٹر اطہر رانا تحمّل وبرداشت کی افادیت پر روشنی ڈالتے نظر آئے۔ بلاشبہ صرف اِک برداشت سےبڑے بڑے جھگڑے نمٹ سکتے ہیں، جب کہ خالدہ سمیع نے پُرسکون نیند کے دشمنوں سےآگہی دی۔ 

عشرت جہاں کا فسانہ ’’ڈنک‘‘بھی خُوب تھا۔اورہمارے صفحے پر جاوید اقبال مسند پر فائز دکھائی دئیے، تو ہماری دو چھٹیوں کی معجون بھی موجود پائی گئی۔ ویسے اگرآپ ایڈیٹر کے بجائے آڈیٹر جنرل ہوتیں، تو متعدّد محکموں کی کرپشن ختم ہوچُکی ہوتی۔ نیز، اخراجات مختصر اور بچت ہی بچت ہوتی۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: کبھی یہ جریدہ 36 صفحات کا ہوا کرتا تھا، اب 16 صفحات پر مشتمل ہے، اِس کے باوجود زندہ ہے(جب کہ اِس کے سامنے بڑے بڑے اخبارات و جرائد قصۂ پارینہ ہوگئے) تو اِسی سبب کہ اِسےایڈیٹنگ اور آڈٹنگ دونوں کی چکّی میں خُوب پیس کرہی پیش کیا جا رہا ہے۔

شان دار اعزاز

سورج نامہ (’’سنڈے میگزین‘‘ کا اُردو ترجمہ) کیا چمکا، آنکھوں کو نُور و سرور حاصل ہوا۔ اے کاش!ہر مرتبہ ہمارا نصیب ایسے ہی چمکے۔ سرِورق دیکھا، تو مجسّم ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ معلوم ہوا۔ حافظ ثانی کی شان دار،بےمثال تحریر کا کوئی مول نہ تھا۔ واصل شاہد کی خطاطی نورعلی نور تھی۔ ربیع الاوّل کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کی ذیل میں ڈاکٹر عزیزہ، رسولِ پاکﷺ کے تبسّم پر قلم آراء تھیں۔ 

بہزاد لکھنوی کی نعتیہ شاعری کانوں میں رس سا گھول گئی۔ ’’فیچر‘‘ میں معاشی خُود مختاری کے ضمن میں خواتین کو مَردوں کے ہم قدم پا کر بہت خوشی ہوئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ بےشک، پاک، بھارت حل طلب معاملات پرفوری غوروخوض ضروری ہے۔ ’’زندہ عقاب، سیف الاعظم‘‘ سے متعلق اسرار و رموز منکشف کرنے کا بےحد شکریہ۔

’’متفرق‘‘ کی دوسری تحریر بھی عمدہ تھی۔ جعلی عاملوں کی پوچھ گچھ ضرور ہونی چاہیے۔ واللہ، ’’بابائے قوم کے ساتھ پاکستان کی پہلی نمازِ عیدالفطر‘‘ پڑھنا بھی کیا ہی شان داراعزاز ہوگا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘کی تحریریں خاصی بہتر ہوگئی ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں عشرت جہاں کو مسند نشیں اور دیگر مستقل خطوط نگاروں کو جلوہ افروز ذیکھ کر اچھا لگا۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

صفحات موجود نہیں تھے

اُمید ہے، پوری ٹیم بخیریت ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں خورشید عالم دائود قاسمی جھوٹ، کذب و افترا‘‘ پر مضمون لائے، بہترین تحریر تھی۔ اللہ ہم سب کو راہِ راست پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں بابرسلیم خان نے ’’جنگِ ستمبر‘‘ کے17 دن کی رُوداد بہت عُمدگی سےگوش گزارکی۔ میجر عزیز بھٹی شہید سے متعلق مضمون بھی بہترین تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’یومِ حجاب‘‘ کے حوالے سے لاجواب مضمون تحریرکیا۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے غیرقانونی تارکینِ وطن پر بہت ہی فکر انگیز مضمون تحریرکیا۔ اور ’’پیارا گھر‘‘ میں فرحی نعیم، سمیرا غزل اور شہلا خضرکی بھی حجاب ہی سے متعلق نگارشات دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ درمیانے صفحات میں باحجاب ماڈلز بہت بھلی لگ رہی تھیں، ساتھ توقیر عائشہ کا رائٹ اَپ تھا ؎ اَن مول ہے وہ موتی، جو سیپ میں چُھپا ہو۔

بلاشبہ، اس بار پورا شمارہ ہی اپنی مثال آپ رہا۔ ’’متفرق‘‘ میں سہیل عامر کے تحقیقی مضمون ’’معرکۂ قلعے بوڑھےجال کےاصل حقائق‘‘بہت ہی معلوماتی مضمون ثابت ہوا۔ سید سخاوت علی جوہر کا ’’نغمہ ٔ6 ستمبر‘‘ بھی پسند آیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ اورعالیہ زاہد بھٹی کے افسانے پڑھ کر تو لُطف ہی آگیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس اورناقابلِ فراموش کے صفحات موجود نہیں تھے، مگر صد شُکر، ہمارا اور خادم ملک کا خط ضرورجگمگا رہا تھا۔ ( سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)

ج: ہمارے کُل صفحات کی تعداد اگر16ہے، توہرسلسلہ توموجودہوبھی نہیں سکتا۔ سو، کوشش یہی ہوتی ہےکہ جن سلسلوں کی ڈاک زیادہ جمع ہو رہی ہو، اُنھیں ترجیحاً شایع کیاجائے۔

احساسات و خیالات

پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مَیں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں۔ بس، اِس خط کے ساتھ ہی منسلک کرکے اپنے کچھ احساسات و خیالات آپ کی خدرت میں پیش کر رہا ہوں۔ مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر یہ چند سطور آپ کے خیال میں میگزین کے لیے قابلِ قبول ہوں تو جگہ دے کر ممنون فرمائیے گا۔ اللہ جانے یہ بلند و پست معیشت کا دَور کب ختم ہوگا۔ (محمد اسماعیل بٹ، سیٹلائٹ ٹائون، ڈھوک کشمیریاں، راول پنڈی)

ج: تحریر متعلقہ صفحہ انچارج کے سپرد کردی ہے، قابلِ اشاعت ہوئی، تو باری آنے پر شائع کردی جائے گی۔

کسی گاؤں میں جا بسیں

ذوالفقار چیمہ صاحب کی سرگزشت بہت ہی دل چسپ ہے۔ دیہی ماحول میں مکھن کے پراٹھے، ساگ کھانے کو ہمارا بھی بہت دل چاہتا ہے۔ یہ ’’خود نوشت‘‘ پڑھ کے تو بس دل کررہا ہے کہ ہم کسی گاؤں ہی میں جا بسیں۔ 

شہروں میں تو ٹریفک کا شور، گاڑیوں کے دھویں اور اسٹریٹ کرائمز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ویسے تو چیمہ صاحب کی صلاحیتوں کے سب ہی معترف ہیں، لیکن اُن کے اتنےعُمدہ اندازِ تحریر سے یقیناً سب کو آگاہی نہیں ہوگی۔ 

جریدے سے ناول کی کمی دُور ہوگئی ہے۔ وہ جو آپ نے ناول ’’عبداللہ‘‘ کا سیکوئل ادھورا چھوڑ دیا تھا، اُس کا غم بھی خاصا کم ہوگیا۔ لیکن پھر بھی اگر ممکن ہو، تو اِس ’’خود نوشت‘‘ کے بعد اُس ناول کو بھی پایۂ تکمیل تک پہنچا دیں، کیوں کہ کسی بھی کام کو ادھورا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ نامکمل، ادھورے منصوبے تو ہماری حکومتوں کی پہچان ہیں، جنگ، سنڈے میگزین کی نہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: یہ تو گویا ’’چمتکار‘‘ ہوگیا۔ چیمہ صاحب کی ’’خود نوشت‘‘ ہی کے طفیل سہی، آپ نے تو آج خاصی عقل کی باتیں لکھ ڈالی ہیں اور ہمیں تو یہ پڑھ کے بھی خاصی حیرت ہوئی کہ آپ کسی ’’معقول آدمی‘‘ سے متعلق بھی کچھ معلومات رکھتے ہیں۔ ہاشم ندیم کا وہ ادھورا ناول غالباً اب مارکیٹ میں بھی آچُکاہے۔آپ کوئی کام دھندا شروع کریں اور ہر ماہ تھوڑے تھوڑے پیسے جوڑ کے خریدلیں کہ ہمارے یہاں تو کسی طبع شدہ تحریر کی دوبارہ اشاعت ممکن نہیں۔

ڈگری، ڈگری ہوتی ہے

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ بہت دُکھ ہورہا ہے کہ دونوں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرک صفحات شامل نہیں کیے گئے۔ باقی جو صفحہ چاہے، ڈراپ کردیا کریں، مگر’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ضرور شامل رکھا کریں۔ ’’وقت کا کربلا، غزہ‘‘ جی ہاں، اسرائیل نے جس بےدردی سے وہاں خون ریزی کی ہے، تصاویر دیکھ کر کربلا کا منظر ہی یاد آتا ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں اس بار ’’جامی‘‘ کی آخری قسط پڑھی، حسبِ معمول معلوماتی تھی۔

ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے اپنے’’انٹرویو‘‘ میں فرمایا کہ بچّوں کی تعلیم وتربیت پر کبھی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے اور سو فی صد درست ہی کہا۔ ’’خود نوشت‘‘سلسلے میں رول ماڈل، ذوالفقاراحمدچیمہ کے حالاتِ زندگی بہت ہی لُطف دے رہے ہیں۔ 

انہوں نے اپنی پوری ملازمت میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا، جان کر حیرت ہوئی کہ آج بھی ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ، بلوچستان نواب محمّد اسلم رئیسانی کی کھری، سچّی باتیں بہت پسند آئیں۔ یہ مشہور قول بھی اُن ہی کا ہے ناں کہ ’’ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا جعلی‘‘، ’’دائروں میں سفر کرتی پاکستانی معیشت کے75 سال‘‘ بہت ہی تحقیقی مضمون تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شمائلہ ناز نے مجھے یاد کیا، بے حد شکریہ اور اسماء خان دمڑ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیں گے کہ اُنہوں نےآپ کا ہاتھ پکڑلیا،ورنہ تو آپ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو خیرباد ہی کہنے والی تھیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: جی، آپ نے بالکل صحیح پہچانا، یہ تاریخ ساز قول، اسلم رئیسانی ہی کا ہے۔ ویسے سچ کہیں، تو یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اب اچھا خاصا ’’دردِ سر‘‘ بنتا جارہا ہے۔ متعدّد بارختم کردینے کا سوچا، مگر پھر خطوط کے انبار میں سے کسی کا خط ہاتھ پکڑتا ہے، تو کسی کا قدم روک لیتا ہے۔

’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں نام؟

تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ’’ڈیوائس یا بم‘‘ کے عنوان سے مضمون بہت ہی پسند آیا۔ ’’متفرق‘‘ میں بنتِ صدیقی کاندھلوی نے اچھا مضمون لکھا۔ متوازی سنیما پر لکھتے لکھتے ڈاکٹر ناظر محمود نے تو آرٹ فلمز کی پوری کہانی ہی لکھ ڈالی۔ ساتھ پُرانی فلموں کا ذکر بھی کیا، خاص طور پر ’’صاحب بی بی اور غلام‘‘ فلم کا۔ 

یہ فلم ہم نے بھی کافی بار دیکھی۔ بابر سلیم خان، لیوٹالسٹائی پرمضمون لائے۔ بہت ہی اچھا مضمون تھا، مگر اِسی جریدے میں بابر سلیم خان کا نام ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست میں بھی موجود تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)

ج: جی ہاں، ہر ایک کی، ہر تحریر ہی قابلِ اشاعت ٹھہرے، ضروری نہیں۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نبی مکرمﷺ کے محاسن پر روشنی ڈالتا، ماہِ ربیع الاوّل کا خاص شمارہ ملا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے فیض پایا۔ آج مسلمان آپ ﷺ سے محبّت کے سب سے بڑے دعوےدار، جب کہ اُن کےاطوار سنتِ رسولؐ سے یک سر الگ ہیں۔ ہمیں حُرمتِ رسولؐ پر نہیں، سُنّتِ رسولؐ پر جان دینی چاہیے۔ ہمارے لیے جہاں آپؐ سےمحبّت ضروری ہے، وہیں اطاعت بھی لازم ہےکہ اُس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابو طالب نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے محبّت تو کی، لیکن اطاعت نہ کرسکے۔ 

ابی بن خلف نے اطاعت کی، لیکن محبّت نہ کرسکا۔ آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کی قرآن نے گواہی دی، تو کیاہمارے اخلاق آپؐ کے اخلاقِ حسنہ جیسے ہیں یا طریقِ نبیؐ سے ہٹے ہوئے ہیں، ہمیں ضرورغور کرنا چاہیے۔ بہزاد لکھنوی کی منتخب نعتوں نے ماضی میں پہنچا دیا، جب ہم بھی یہ نعتیں بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ’’انٹرویو‘‘ ہمیشہ ہی کی طرح خُوب تھا۔ ’’خطّاطی، رُوح کی جیومیٹری ہے۔ ہروقت علم ہی کو خُود پرنہ لادے رکھو۔ دل تعلق رکھتا ہے،دلیل نہیں۔خطّاطی فرداورمعاشرےکی اصلاح کا ذریعہ ہے۔‘‘ 

تمام باتیں ہی اچھی اوربہت سچّی لگیں۔’’رپورٹ‘‘نےافسردہ کردیا۔ نہ جانے انسانوں کی یہ تقسیم کب ختم ہوگی، کب ہم عوام بنیادی انسانی حقوق کے حق دار ٹہریں گے یا پھر یوں ہی سسک سسک کر مرتے رہیں گے۔ بقول غلام حسن حسنی ؎ مرنا تو اِس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں…اس دورِ ناگوار میں جینا کمال ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں پاک فضائیہ کے زندہ عقاب کے جنگی کارناموں نے متحیّر کردیا۔ زاہد رؤف نے آستانوں، مزاروں کی رجسٹریشن کی معقول تجویز پیش کی۔ 

سومنات کے مندر سے ہزاروں مَن سونا برآمدہوسکتاہے،تو اِن آستانوں، مزاروں کی آمدنی بھی لاکھوں میں تو ہوگی۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘کےاعزاز کا شکریہ، اگر ہماری چٹھی سیاق وسباق سے ہٹ کر پائی گئی، تو وجہ کچھ یوں بنی کہ بزبانِ غالب ؎ فکرِدنیا میں سرکھپاتا ہوں… مَیں کہاں اور یہ وبال کہاں۔ اور پھر منیر نیازی بھی ترجمان ہیں ؎ بوجھ بےمعنی سوالوں کے اُٹھا رکھے ہیں…ہم نےسو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں۔ نواب زادہ صاحب نشانے پر رہتے ہیں یا خُود کو نشانے پررکھنے کی کوشش کیے رہتے ہیں۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب… تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔ چند دن منظر سے ہٹ جائیں، تب بھی بخشے نہیں جاتےکہ ؎ کبھی جو یاد بھی آتا ہوں مَیں … تو کہتے ہیں کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں۔ اگلا شمارہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ سرچشمۂ ہدایت، رپورٹ، خُودنوشت، ہیلتھ اینڈ فٹنس اور سینٹر اسپریڈ کی خُوب صُورت تحریر سب دل کو بہت بھائے۔ نزار قبانی کے جذبات اپنی جگہ، مگر ہمارے جذبات کو تو محشر آفریدی نے زبان عطا کی۔ ؎ میاں وہ دن گئے، اب یہ حماقت کون کرتا ہے… وہ کیا کہتے ہیں اُس کو، ہاں محبّت کون کرتاہے۔ 

عشرت زاہد کا افسانہ بہت پسند آیا۔ جاوید اقبال کی چٹھی، کرسیٔ صدارت کی حق دار ٹہری، بہت بہت مبارک۔ آج سیدھے سادے الفاظ میں مختصرہ تبصرہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ جاتے جاتے محسن نقوی کا ایک شعر؎ ہمارے بعد عزیزو ہمارا افسانہ… کبھی یاد بھی آئے، تو مختصر کہنا۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: اتنی اُجلی ، پیاری چٹھی کو سیدھی سادی کہہ کے تو خاصی کسرِنفسی سے کام لیا ہے آپ نے۔ بہرحال، حق بحق دار رسید۔

گوشہ برقی خطوط

* میگزین ہاتھ آتے ہی ایک ساتھ پورا پڑھ ڈالا۔ بات چیت میں وحید زہیر کا نام ایک جگہ ’’ز‘‘ سے اورایک جگہ ’’ ظ‘‘ سے تھا۔ گندم کی کٹائی کی کہانی بہت اچھی لگی۔ اےکاش!یہ بھی بتاتے کہ لوگ پھرکس طرح اِسے پیس کےاِس کی روٹی بناتے تھے۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل بہت پیاری تھی اور اُس کے کاٹن ڈریسز بھی بہت پسند آئے، خاص طور پر پیلے رنگ کا پہناوا بہت اچھا لگا۔ 

کنول بہزاد کا سفرنامہ بہت شوق سے پڑھا۔ پڑھتے پڑھتےمَیں بھی اُس ریلوے اسٹیشن پہ کہیں کھوسی گئی۔ میوزیم کی تصویر زبردست تھی، کیا کُھلا، روشن کمرا تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں مشرقی لڑکی کا مشورہ بالکل غلط تھا، کیوں کہ ’’پیارا گھر‘‘ کم ازکم میرا تو پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)

ج: اُن کا درست نام تو ’’وحید زہیر‘‘ ہے، سہواً ظ سے لکھ دیا گیا ہوگا۔

* آپ کے اُن قارئین میں سے ایک ہوں، جو بہت نیک نیّتی اور خاموشی سے آپ کے جریدے کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ ظفر معراج کی گفتگو پڑھ کر اچھا لگا اور انہوں نے سچ ہی کہا ہے کہ مُلک کے اداروں میں نالائق لوگ اس قدر شامل ہوچُکے ہیں کہ ادارے ہی زوال کا شکار ہوگئے۔ رابعہ فاطمہ کی تحریر’’مسلمان حُکم رانوں کی نباتات سے محبّت‘‘ لاجواب تھی اور لگ رہا تھا کہ تحقیق پُرجوش انداز میں کی گئی ہے۔ اپنے اسائنمینٹ کی یاد تازہ ہوگئی۔ 

برقی خطوط میں ’’مشرقی لڑکی‘‘ کی کھٹی میٹھی سی رائے پڑھنے کو ملی اور شاید میری یہ خاموشی بھی اِسی وجہ سےٹوٹی ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ایک معیاری جریدہ ہے اور اِس پر اتنی تنقید زیب نہیں دیتی۔ التماس بس اتنی تھی کہ جس قدر ممکن ہو، تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے والی تحریروں کو جریدے کا حصّہ بنایا کریں۔ ویسے آپ کی دیرینہ کاوشوں، کوششوں ہی کی وجہ سےآج جریدہ اس مقام پر ہے۔ ہاں، کچھ تحریریں ایویں سی بھی ہوتی ہیں، جو دوسرے جرائد میں بھی مل ہی جاتی ہیں۔ (احسن مرزا، کراچی)

ج: جتنے کم اسٹاف اور محدود تروسائل کے ساتھ ہم ہر ہفتےیہ جریدہ تیار کرتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید کے اِک شعر ہی سے وضاحت ممکن ہے۔ ؎ جنیاں تَن میرے تے لگیاں، تینوں اِک لگے تے توں جانیں…غلام فریدا! دل اوتھے دئیے، جتھے اگلا قدر وی جانے۔ لیکن ہم غیر ضروری تنقید پربھی کچھ زیادہ بےمزہ یوں نہیں ہوتے کہ ’’اب توعادت سی ہے مجھ کو…‘‘

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk