السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
نام دیکھ کر ازحد خوشی
’’سنڈے میگزین‘‘ کےسارے کرم فرماؤں کو میرا سلام۔ آپ کا بہت بہت شکریہ، اِس بار مَیں نے اپنا نام رسالےمیں پڑھا، جو تقریباً دس ہفتے کے انتظار کے بعد آیا، تو دیکھ کرازحد خوشی ہوئی۔ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ ہی میں سہی، میرا نام تو آیا۔ اِس بار جریدے کی ماڈلز بہت اچھی تھیں اور اُن کے ملبوسات بھی،خصوصاً پہناووں کی اسٹچنگ۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات تو ہمیشہ ہی پسند آتے ہیں۔ ہاں، ایک بات پوچھنی تھی کہ محمود میاں نجمی صاحب نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ (رفعت سلطانہ، کورنگی کوسٹ گارڈ، کراچی)
ج: ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کراس قدر خوشی…؟ اِسی صفحے پر ایک صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ لوگوں کے ناموں کے مخفّف شائع کردیا کریں تاکہ تخلیق کاروں کو شرمندگی نہ ہو۔ مگر ہمیں ذاتی طور پر لوگوں نے کالز کر کے کہا کہ’’آپ ہمارے پورے نام شائع کیا کریں، تاکہ کم ازکم کوشش کرنے والوں میں تو ہمارے نام شامل ہوں۔‘‘ اور یہ بات بھی ٹھیک ہے، کیوں کہ بہرحال ہر تحریر کے ناقابلِ اشاعت ہونے کی واحد وجہ اُس کا غیر معیاری ہونا نہیں۔
محمود میاں نجمی صاحب نے آخری سلسلے کے بعد کوئی تحریر نہیں بھیجی اور ہم چوں کہ کسی بھی لکھاری کو کوئی معاوضہ وغیرہ نہیں دیتے، لہٰذا کسی کو کچھ لکھنے پر مجبور بھی نہیں کر سکتے۔ جو بخوشی لکھنا چاہے، سو بار لکھے، نہیں تو اُس کی مرضی۔
اگلی قسط کاشدّت سے انتظار
میگزین ہاتھوں میں ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر حافظ ثانی کامضمون ’’مسجد‘‘ پڑھا، واقعی حافظ صاحب نے بالکل ٹھیک کہا کہ مسجد ہی کے طفیل مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا بے مثال و لازوال رشتہ اور معاشرتی مساوات قائم ہے۔ ’’خُود نوشت‘‘ میں سابق آئی جی، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود ان کی زبانی پڑھ کر بہت ہی اچھا لگا۔ اب سمجھ آیا کہ ایک بامقصد و بااصول زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ اگلی قسط کا شدت سے انتظار ہے۔
’’رپورٹ‘‘ میں وحید زہیر نے جس طرح قلعہ عبداللہ کے نوجوان ڈرائیور محب اللہ کی بہادری کا ذکر کیا، پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور محب اللہ کو دل کھول کردُعائیں دیں۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں امریکی صدارتی انتخابات پر ایک بھرپور، شان دارتجزیہ پیش کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی خُوب صورت تحریر پڑھ کر مزہ آگیا۔ یہ آپ کی محبّت ہی کا تو اثر ہے کہ اِس طرح آئے روزآپ کو خط لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔
ویل ڈن،سدا خوش رہو!’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عشبا جمال کا معلوماتی مضمون بہترین تھا۔ ’’شعراء کرام‘‘میں حسن عباسی فارسی زبان کے شعراء سے متعلق سیرحاصل معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ تابش دہلوی کے طرزِ اصلاح سے متعلق مضمون کے بھی کیا کہنے۔ عشرت زاہد کا افسانہ ’’ڈنک‘‘ اچھا تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے بھی سب ہی خطوط لاجواب تھے۔ جاوید اقبال کو’’اِس ہفتےکی چٹھی‘‘ کا اعزاز بہت مبارک ہو۔ (خالدہ سمیع، سعدی ٹاؤن، کراچی)
ج: آپ بھی اِس بات کا یقین کرلیں کہ آپ کی محبّت ہرگز یک طرفہ نہیں۔
باکردار، ایمان دار افسران، آٹے میں نمک برابر
آپ کی پُراثر تحریریں پڑھ کر خوشی اور اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو اردو ادب سے گہرا شغف، برمحل اشعار کے استعمال میں کمال مہارت حاصل ہے۔ اللہ کرے، زورِ قلم اور زیادہ۔ تازہ جریدے میں، سابق آئی جی پنجاب، ذوالفقار چیمہ کی ’’خُودنوشت‘‘ پڑھ کرانتہائی خوشی ہوئی۔
اس سے پہلے اِن کےتفصیلی انٹرویونے بھی، جوآپ کی 28؍اپریل 2024 ء کی اشاعت میں شامل تھا، بہت متاثر کیا تھا۔ سچ تو یہ کہ آج کے دَور میں ایسے باکردار، ایمان دار، فرض شناس اورعوام کا دُکھ درد محسوس کرنے والے افسران آٹے میں نمک کے برابر ہی رہ گئےہیں۔
راقم نے خُود ایک سرکاری ادارے کے کئی شعبوں کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ ذاتی تجربہ ہے کہ بیوروکریسی اورحکومتی اداروں میں بمشکل ایسے لوگ5 فی صد ہی ہوتے ہیں، کیوں کہ مجموعی طور پرہمارا حکومتی نظام بہت بگڑ چُکا ہے۔ سرکاری اداروں میں ایمان داری، میرٹ کا کوئی تصوّر نہیں، عوام کی تکالیف، مسائل کا ادراک، اُنہیں حل کرنےکی سعی تو گویا کارِدارد ہے۔
نیز، نظامِ عدل کا تو سرے سے کوئی پرسانِ حال ہی نہیں۔ راقم نے ماسٹرز کے بعد دورانِ ملازمت ایل ایل بی کیا اور سوچا، بعداز ریٹائرمنٹ پریشان حال افراد کی داد رسی کی کچھ کوشش کروں گا، لیکن اپنی عدالتوں کا ماحول دیکھ کرارادہ بدل لیا۔
خیر، آپ نے یہ جو ذوالفقارچیمہ صاحب کی خُودنوشت شائع کرنے کی فیصلہ کیا ہے، بخدا لائقِ صدستائش ہے کہ اِس طور ہماری نئی نسل سمجھ سکےگی کہ بچپن اور لڑکپن میں والدین اور بزرگوں کی اچھی تعلیم وتربیت انسان کے لیےکس طرح دنیا و آخرت میں عزت ونیک نامی اور اجر و ثواب کا باعث بنتی ہے۔
جیسا کہ چیمہ صاحب کی کردار سازی میں والدین اور بڑے بھائی کا مثالی کردار رہا اور جس کا اثر اُن کی شخصیت پر آج تک ہے۔ سیکڑوں حُکم ران، افسران آئے، ریٹائر ہوکر چلے گئے، کوئی اُن کو جانتا ہے، نہ یاد کرتا ہے، مگر اِن جیسے افسر ہمیشہ لوگوں کے دِلوں میں رہتے ہیں۔ ایسے افراد سے عام لوگوں کو روشناس کروانے کا بےحد شکریہ۔ اللہ رب العزت آپ کو مزید کام یابیوں سے نوازے، شاد و آباد رکھے۔ (رستم علی خان، سابق ڈائریکٹر کے ڈی اے، کراچی )
ج: تعریف و توصیف، حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ ہماری تو اپنے تیئں ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اِس جریدے کو قارئین کے لیے جس حد تک بامقصد و بامعنی، مفید و موثر بنایا جا سکتا ہے، ضرور بنایا جائے۔
نہ تھری جی، نہ فورجی، بس استاد اورابّاجی
کافی عرصے بعدحاضری کا شرف حاصل ہورہا ہے، لیکن ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کی خوشبو سدا ہمارے ارگرد پھیلی ہی رہی۔ اسکول میں ہفتہ وار اخبار سائیکل پر لے کر آنا، میرے ذمّے تھا۔ یوں کاغذ، قلم اور الفاظ سے محبّت اُسی ادارے سے سیکھی۔ گورنمنٹ کالج پہنچے، تو لائبریری کے اخبارات اور کتابوں کے سحرنے خُوب جکڑے رکھا۔1985-87 ء میں کیا ماحول تھا،نہ تھری جی، نہ فورجی، بس استاد اورابّاجی۔
وقت نہیں بدلا، ہم بدل گئےہیں۔ دُعا ہےکہ بس وطن اوراِس کے ادارے محفوظ رہیں۔ میرے لیے تو اِس اخبار کے سب قاری اور لکھاری قابلِ احترام ہیں کہ حجم کم ہو جانے کے باوجود سنڈے میگزین ہنوز اپنی کشش اورمعیار قائم رکھے ہوئے ہے۔ اور ہاں، ’’ مسجد‘‘ سے متعلق شان دار مضامین کی اشاعت کا بے حد شکریہ۔ (محمّد اسلم بھٹی، شادمان کالونی، سرگودھا)
ج:اور… ہمارے لیے تو وہ استاد اور ابّا جی ہی ٹھیک تھے کہ اِس تھری جی، فور جی نے تو نہ ہمیں یہاں کا چھوڑا ہے، نہ وہاں کا۔
منگھو پیر روڈ بنوادیں
براہِ مہربانی، آپ ہماری قدر کیا کریں، ہم کوئی معمولی آدمی نہیں، ایک خاندانی نواب ہیں۔ ہمارے خطوط کی ایڈیٹنگ نہ کی جائے، اِنھیں من و عن شائع ہونا چاہیے اورخطوط نگاری کےلیےاتنی شرائط کیوں کہ ایک سطر چھوڑ کر لکھیں، حاشیے لگائیں، صفحے کے ایک طرف لکھیں۔
اِس ملک میں کون سا کام قانون کےمطابق ہورہا ہے، ہرشعبہ ہی توزوال کا شکار ہے اور آپ عوام کو نظم وضبط سکھارہی ہیں۔ کیا آپ نے منگھوپیر روڈ کی حالت دیکھی ہے، یہ کراچی کی سب سے طویل، تاریخی سڑک ہے، جواب کھنڈر کا منظر پیش کررہی ہے۔ شہباز شریف سے کہیں کہ وہ فارغ ہی تو بیٹھے رہتے ہیں، تو کم ازکم یہ منگھو پیر روڈ ہی بنوادیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: اور آپ…؟؟ جنہوں نے اپنا نام ہی بےکار ملک رکھ چھوڑا ہے، آپ خُود تھوڑے ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ سڑک بنے، نہ بنے آپ تو کسی کام لگیں۔
بہت ہی خوش گوار احساس
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ماشااللہ دونوں ہی میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات موجود تھے۔ معروف و منفرد خطّاط واصل شاہد کا انٹرویو پڑھا۔ شان دار خطّاطی دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ انسانی ہاتھوں کا کمال ہے۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے شہ پارے کمپیوٹر سے نکالے گئے ہوں۔
آج اگر خواتین معاشی خُودمختاری کے لیے مَردوں کے ہم قدم ہیں، تو اچھا ہی ہے کہ اِس کے بغیر گزارہ ممکن بھی نہیں۔ سرِورق اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ ولادتِ رسولﷺ کی مناسبت سے مرصّع، مجسّم نور و تجلّی معلوم ہوئے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں عرفی شیرازی سےمتعلق پڑھا۔
نئے سلسلے ’’خُودنوشت‘‘ میں پاکستان پولیس سروس کےرول ماڈل، ذوالفقار احمد چیمہ کےحوالے سے اس قدر تفصیلاً پڑھنا بہت ہی خوش گوار احساس تھا۔ ’’امریکی صدارتی انتخابات، ٹرمپ، کمیلا کا پہلا مباحثہ‘‘ منور مرزا نےلاجواب تجزیہ پیش کیا اور میرا خط اپنی محفل میں سجانے کا بہت شکریہ۔ دُعا کہ خادم ملک کو بھی کہیں ملازمت مل جائےتاکہ وہ کم ازکم آپ کے دماغ کی دہی کرنے سے تو باز آئیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: ہمیں ذوالفقار چیمہ صاحب کی ’’خودنوشت‘‘ کی چند اقساط پڑھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ نیا سلسلہ قارئین سے پسندیدگی کی بھرپور سند حاصل کرے گا اور الحمدللہ، ہمارا اندازہ صد فی صد درست ثابت ہوا۔ ساتھ ہی یہ احساس مزید توانا ہوا کہ اِس دورِ ابتلا، سوشل میڈیا کے ہنگام میں بھی بہرحال لوگ اچھی، بامقصد تحریر پڑھنے کی آرزو، چسک رکھتے ہیں۔
دن دونی، رات چوگنی ترقی
آپ نے بندے کی تحریر ’’جنگ ِستمبر کے 17 دن‘‘ شائع کی، جس پر بندہ آپ کا بے حد ممنون ہے۔ حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ ’’میجر راجا عزیز بھٹّی شہید‘‘ اور ’’معرکہ قلعہ بوڑھے جال کے اصل حقائق‘‘ تاریخی، معلوماتی تحریریں تھیں، پڑھ کر خوشی ہوئی۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ روزنامہ جنگ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور آپ اور آپ کی پوری ٹیم کو اسی دل جمعی سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کی اشاعت یقینی بنانے کا حوصلہ و طاقت عطا کرے۔ (بابرسلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج: موجودہ حالات میں ہمیں دن دُونی، رات چوگنی ترقی جیسی کوئی خوش فہمی تو ہرگز نہیں۔ بس، یہ دُعا کریں کہ سلسلہ بنا رہے۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر دو ماڈلز کو حجاب کی پاکیزگی لیے (گویا سیپ میں چُھپے موتی) دیکھ کے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں خورشید عالم جھوٹ، کِذب و افترا کے دینی و دنیاوی نقصانات سے آگاہ کررہے تھے۔ واقعہ سنیے، حضورﷺ ایک گھرمیں تشریف فرما تھے۔
خاتونِ خانہ نے اپنے بچّے سے کہا۔’’آئو،مَیں تمہیں کھجور دوں گی۔‘‘ آپﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’کیا تم واقعی اُسے کھجوردوگی؟‘‘ اُس نے کہا۔ ’’ہاں‘ اللہ کے رسولﷺ ۔‘‘ آپ ﷺ نے کہا۔ ’’اگر تم اُسے کھجور نہیں دیتی تو یہ بھی جھوٹ ہوتا اور گناہِ کبیرہ لکھاجاتا۔‘‘
ثابت یہ ہوا، بچّوں کو بہلانے کے لیے بھی جھوٹا بہانہ نہیں بناناچاہیے اور یہ وعید بھی فکر انگیز ہے کہ کسی کو محض ہنسانے کےلیےبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہم بھی جنگِ ستمبر1965ء کے چشم دید گواہ ہیں کہ ہماری بہادر افواج نے وہ کارنامے انجام دیئے، دنیا سے بہادری کا لوہا منوا لیا۔ مگر افسوس، حُکم رانوں کی نااہلی سے ہم جیتی ہوئی جنگ، معاہدۂ تاشقند کی میز پر ہار گئے، جس کا خمیازہ 1971 ءمیں مُلک دولخت ہونےکی صُورت بھگتنا پڑا۔
محمّد اقبال نے میجر راجا عزیز بھٹّی کے شجاعت و بہادری اورشہادت کی داستان رقم کی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے دو دہائیوں کے کٹھن سفرکی داستان لائیں۔ منور مرزا پاکستانی تارکینِ وطن کے آلام و مصائب، اور غلطیوں کی نشان دہی کرتے نظرآئے۔
توقیر عائشہ نے’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا اچھا رائٹ اَپ تحریر کیا، جب کہ ’’متفرق‘‘ میں سہیل عامر معرکۂ بوڑھے جال کے حقائق میجر(ر) تنویرشاہ کی زبانی بیان کررہے تھے۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں فرحی نعیم کی حجابی شہزادیوں کے عنوان سے تحریر شان دار تھی۔ ’’شعراء کرام‘‘ حسبِ روایت ٹھیک ہی تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کے ’’ماڈرن ازم‘‘ کا جواب نہ تھا، جب کہ عالیہ بھٹی کی نگارش کا بھی۔ اور ہمارے باغ و بہار صفحے پر ہمیں اعزازی چٹھی سے نوازنے کا شکریہ۔
اگلے شمارے کی نکھری سنوری ماڈل پر طائرانہ نگاہ ڈالتے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّدعبدالمتعالی نعمان، خاتم الانبیاء سرورِ کونینﷺ کے لائقِ تقلید اسوۂ حسنہ پرعمل کی تلقین کررہےتھے۔ بےشک، آپﷺ کامل الاکمل ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امریکی صدارتی امیدوار کملاہیرس کی نام زدگی پر تبصرہ کرتے نظر آئے، اُنہوں نے بھارتی نژاد خاتون کو پاکستان کے لیے کڑا امتحان قرار دیا۔ تو بھئی، اوباما ہو یا ٹرمپ، بائیڈن ہو یا کملا ہیرس، پاکستان کڑے امتحان کے بھنور سے نکلا ہی کب ہے؟ ’’انٹرویو‘‘ میں فرخ شہزاد ملک نے انعام الحق قریشی سے پولیو کی تشویش ناک صورتِ حال پر تفصیلی بات چیت کی۔
یہ المیہ ہی ہے کہ ساری دنیا سے مرض ختم ہوچُکا، اورہمارے یہاں کیسز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘میں رستم علی خان، گورکھ ہل اسٹیشن پر تحریر لائے کہ 29 سال بعد بھی پُرفضا مقام کو تفریح گاہ میں بدلا نہیں جاسکا۔ ہمارے حُکم ران لوٹ کھسوٹ اور قرضوں کے حصول پلان پرعمل کررہے ہیں، تعمیروترقی اُن کے منشور میں شامل ہی نہیں، حالاں کہ دنیا کے کئی ممالک کی ساری معیشت ہی سیاحت کی آمدنی کے گرد گھومتی ہے۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے خُوب صُورت اقوال واشعار سے خُوب محظوظ ہوئے اور کچھ کام کی باتیں گرہ سے بھی باندھ لیں۔ رہی ماڈلز، تو وہ کیا ہے کہ ؎ تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں… نظر، آخر نظر ہے، بے ارادہ اُٹھ گئی ہوگی۔ ’’پیارا گھر ‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم گھروں میں اختلافات ختم کرنے، پیارومحبّت سے رہنےکی نصیحت کر رہی تھیں۔
بلاشبہ، گھر ہو یا معاشرہ، امن و امان کے قیام کے لیے برداشت ہی بہترین نسخہ ہے۔ فوزیہ ناہید سیال نے قیمہ، سبزی بھرے کریلوں کی تراکیب بتائیں، تو قاضی جمشید عالم مٹکے کے پانی کی اہمیت اجاگر کر رہے تھے اور ہمارے باغ و بہار صفحے پر ایک بار پھر ہماری ہی چٹھی سند یافتہ ٹھہری، بےحد شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: جب سترے بہترے لوگوں کی نظر بے ارادہ اُٹھ سکتی ہے، تو پھر نوجوانوں سے تو کوئی گلہ ہی نہیں بنتا، البتہ آپ کی صاف گوئی ضرور قابلِ صد ستائش ہے۔
* مَیں نے آپ کو ایک کہانی ’’چائے کی ایک پیالی‘‘ کے نام سے ای میل کی تھی، مجھے اس کے بارے میں معلوم کرنا ہے، اگر وہ کہانی آپ کو پسند نہیں آئی، تو کیا مَیں اُسے کہیں اور بھیج دوں۔ (قراۃالعین فاروق، حیدرآباد)
ج: جی، بالکل بھیج دیں۔ آپ کی غالباً نظر سے چُوک گیا، ہم تواُسےکافی پہلے ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل کرچُکے ہیں۔
* اُمید ہے، وابستگانِ ’’سنڈے میگزین‘‘ بخیریت ہوں گے۔ اگرچہ مَیں کافی عرصے سے بزم سے آف ہوں، لیکن ہر اتوار ’’آپ کا صفحہ‘‘ضرورپڑھتا ہوں۔ دوست گاہے بگاہے یاد کرتے رہتے ہیں، نوازش! آپ کی رہنمائی، حوصلہ وعزّت افزائی مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔
آپ کی میگزین کے لیےمخلصانہ طویل خدمات اورآپ کی ٹیم کی طرف سے ہمہ جہتی کنٹری بیوشن سبھی لائقِ تحسین و داد ہیں۔ اللہ کرے، ہمارا ادارہ جنگ گروپ، بزمِ دوستاں اور وطن سدا شاد و آباد، سلامت و مستحکم رہیں۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: آپ نے اپنی مختصر نگاری سے’’گوشہ برقی خطوط‘‘ کو رونق بخش دی، جب کہ قارئین آپ کی طول طویل چٹھیوں بلکہ ’’اِس ہفتےکی چٹھی‘‘ کے منتظر تھے۔ چلیں خیر، وہ کیا ہے کہ ؎ دیر لگی آنے میں تم کو، شُکر ہے پھر بھی آئے تو۔
* آپ کیسی ہیں؟ امید ہے، بخیریت ہوں گی۔ مَیں یہ تحریر ’’جب زندگی بازی ہار گئی‘‘آپ کے ہر دل عزیز سلسلے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے بھیج رہی ہوں۔ اُمید ہے، آپ کو پسند آئے گی۔ (آسیہ پری وش، حیدرآباد)
ج: جی، اگر قابلِ اشاعت ہوئی، تو باری آنے پر ضرور شایع کردی جائے گی۔
* براہِ مہربانی ناقابلِ اشاعت نگارشات کی خاص خاص وجوہ بتا دیں۔ شکریہ (ماسٹر غلام حرشاف، جنڈ، ضلع اٹک)
ج : سب سے بڑی اور اہم وجہ تو کسی تحریر کا ’’غیرمعیاری‘‘ ہونا ہی ہے۔ دیگر وجوہ میں ادارتی پالیسی سے متصادم ہونا، ضرورت سے زیادہ طویل ہونا، کافی پرانی یا موقع محل کی مناسبت سے نہ ہونا اور پہلے سے کہیں شایع شدہ ہونا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk