• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: ’’باادب، بانصیب‘‘ کی عملی تفسیر ....

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مگر کوئی سمجھنا تو چاہے…

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بنگلادیش کے انقلاب کی طرف توجّہ دلا رہے تھے کہ حسینہ واجد کے آمرانہ اقدامات کی وجہ سے اُن کا20سالہ دورِ حکومت ختم ہوگیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں نعیم احمد نے ’’کتاب لائبریری‘‘ کی اہمیت سے رُوشناس کروایا۔ اگر اِسی طرح تعلیم کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی رہے، تو کتنا اچھا ہو۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں سلیم اللہ صدیقی نے بھی کافی تفصیلی مضمون تیار کیا، لیکن عام آدمی کے توکچھ پلّے نہیں پڑا کہ ہم کیا جانیں کہ یہ آئی پی پیزکیا بلا ہے؟ ہم تو بس یہ جانتےہیں کہ بجلی بہت منہگی مل رہی ہے۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں فرخ شہزاد ملک نے ڈاکٹر ہدایت اللہ سے مفید، معلوماتی گفتگو کی۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی دل چسپ معلومات فراہم کررہے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹرمعین نواز واٹس ایپ کی تعریف کر رہے تھے، جب کہ یہ صرف لوگوں کا وقت خراب کرتا ہے۔ حافظ بلال بشیر کا مضمون کافی فکر انگیز تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مریم شہزاد کا کہنا بجا کہ اولاد کی تربیت میں بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ 

کرن نعمان نے افسانہ ’’داستانِ الم‘‘ تجمل جہاں کی زبانی بیان کی۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا مسلم دنیا میں جمہوریت کے مسائل بیان کررہے تھے اور اِس کے لیے انہوں نے کیسی کیسی مثالیں نہیں دیں، کن کن مُلکوں کے نام لے کر اپنے حُکم رانوں، سیاست دانوں کو سمجھانا نہیں چاہا، مگر کوئی سمجھنا تو چاہے۔ 

’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے خودکشی سے متعلق بڑا فکر انگیز مضمون تحریر کیا، تو ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر نے نام وَر ہدایت کار، اداکار، کمپیئر عبداللہ بادینی سے اچھی بات چیت کر رہے تھے۔ ’’متفرق‘‘میں شاہ ولی اللہ جنیدی نےکراچی کے غیرمسلم کرکٹرز کا تعارف کروایا۔  ’’ڈائجسٹ‘‘ کی نگارشات بھی خاصی معقول تھیں، البتہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات سر سے گزر گئے اور شمارے میں ہمارا خط شامل کرنے کا بہت شکریہ۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

جریدے کی جان ثابت ہوئے

’’سنڈے میگزین ‘‘ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موصول ہوا۔ یقین جانیے، بروز اتوار جس کی آمد کا سب سے زیادہ شدّت سے انتظار رہتا ہے، وہ سنڈے میگزین ہی ہے۔ جوں ہی اخبار ہاتھ آتا ہے، فوری جریدے کی ورق گردانی شروع ہوجاتی ہےاور جب تک پورا پڑھ نہ لوں سکون نہیں ملتا۔ دُعا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو اسی حوصلے و جذبے کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی تحریر ’’مسجد‘‘، سابق آئی جی پولیس، ذوالفقار چیمہ کی ’’خودنوشت‘‘ اور حسن عباسی کا سلسلہ ’’ فارسی زبان کے سات عظیم شعراء‘‘ گویا جریدے کی جان ثابت ہوئے۔ واصل عثمانی کا مضمون ’’تابش دہلوی اور ان کا طرزِاصلاح‘‘ بھی خاصا متاثر کُن تھا۔ علاوہ ازیں، ’’پیاراگھر‘‘ اور ’’متفرق‘‘ کی نگارشات بھی معلوماتی ثابت ہوئیں۔ ایک تحریر میری طرف سے بھی پیشِ خدمت ہے، گر قبول افتد زہےعزوشرف۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: آپ کی جو بھی تحریر قابلِ اشاعت ہوتی ہے، باری آنے پر شائع کردی جاتی ہے۔

’’باادب، بانصیب‘‘ کی عملی تفسیر

شمارہ پڑھا۔ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے طور پر حوصلہ افزائی وکرم فرمائی کا شکریہ! میگزین کےمندرجات میں پہلےنمبر پر’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ تھا، جس میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے مسجد کی دینی، مذہبی، معاشرتی، سماجی ومعاشی اہمیت کوخُوب اجاگرکیا، بلاشبہ مسجد ایک ایسی پاکیزہ و بابرکت جگہ ہے، جہاں عہدے، مرتبے، رنگ و نسل کی یک سر نفی ہوجاتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ؎ بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے…تیری سرکار میں پہنچے، تو سبھی ایک ہوئے۔ یہ ہے، ہمارے دینِ اسلام کی شان وعظمت۔

’’رپورٹ‘‘میں وحید زہیر نے بلوچستان میں بارشوں ،سیلابی ریلوں کی تباہی کا ذکر کیا۔ انتہائی قابل افسوس و مذمّت امر ہے کہ حکومت اب بھی بڑے واٹر ٹینکس اور Reservoir بنانے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ نئے سلسلے ’’خود نوشت‘‘ کے کیا کہنے، پہلی قسط والدین کی اچھی تعلیم و تربیت اور باادب، بانصیب کی عملی تفسیر معلوم ہوئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں امریکی صدراتی انتخابات کا ذکر کیا گیا، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ امریکی صدر ڈیموکریٹک ہو یا ری پبلکن ہمارے لیے ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ رہیں گے۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عشبا جمال نے ’’پوسٹ پارٹم ڈیپریشن‘‘ اور ڈاکٹرسیّد امجد علی نے ’’جسم پر ورم‘‘ کے اسباب،روک تھام پر اچھی روشنی ڈالی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں ایڈیٹرصاحبہ کی عُمدہ اشعار سے مزیّن تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی نگارشات بھی خاصی اُجلی تھیں۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی کا عرفی شیرازی سے متعلق مضمون معلوماتی اور اُن کی علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ’’متفرق‘‘ میں واصل عثمانی نے تابش دہلوی کی زندگی کے کئی چُھپے گوشے وا کیے۔ 

وہ کیا ہے کہ ہائے ؎ خاک میں کیا صُورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد نےمعاشرےکا ایک سلگتا موضوع اجاگر کیا، رہی بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، توشہزادہ بشیر کا شکریہ، جنھوں نے ناچیز کو یاد کیا۔ دراصل اس صفحےکے تمام خطوط نگار ایک خاندان کی طرح ہیں، سب ایک لڑی میں پروئے معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و مان میں رکھے۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں)

ج: بےشک، جب والدین، اساتذہ کی اِس قدر اعلیٰ تعلیم وتربیت ہوتوپھر ذوالفقار چیمہ جیسے جواہرِ نایاب نکلتے ہیں۔

ٹھیکے پر دے دیا ہے

’’سنڈےمیگزین‘‘ موصول ہوا،بھلا لگا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اسمِ محمد ﷺ  پر محمّد عبدالمتعالی نے خُوب لکھا، سبحان اللہ۔ بے شک ؎ عشق ہوجائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں…صرف مسلم کا محمدؐ پر اجارہ تو نہیں۔ شعیب احمد نے بھی ’’بعد ازخدا بزرگ توئی قصّہ مختصر‘‘ لکھ کر دل خُوش کردیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں کھائی اور کنویں والی مثال بالکل صادق آتی محسوس ہوئی۔ 

پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز واقعی تشویش ناک امر ہے،اِس حوالے سےانعام الحق قریش کا ’’انٹرویو‘‘ اچھا تھا، سندھ کے مَری، گورکھ ہل اسٹیشن سے متعلق پڑھا، تو تصوّر میں وہیں جا پہنچے۔ بلوچستان کی گیارہ خواتین کی سیاست کا احوال لاجواب تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین حسبِ روایت بہت پیارےمعلوم ہوئے۔ نئی کتابوں پرتبصرہ خُوب رہا۔

’’ڈائجسٹ‘‘میں عشرت جہاں کی ’’اظہارِ محبت‘‘ سے نیّر کاشف کی ’’مُٹھی میں دل‘‘ اور خنساء سعید کی ’’سُرخ ستارے‘‘ تک سب ایک سے بڑھ کر ایک نگارشات تھیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں گرچہ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی جچ رہے تھے، لیکن پوچھنا یہ تھا کہ کیا اُنہیں یہ صفحہ ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ (ڈاکٹر حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: جی ہاں! کسی میں گُن ہوں تو صفحہ ٹھیکے پر دینے میں بھی کوئی عار نہیں…ہاں مگر ؎ اِس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔

عُمر بھر کی معذوری

اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں ’’سرچشمۂ ہدایت ‘‘ کا صفحہ موجود تھا، دوسرےمیں نہیں۔ پلیز، اِس متبرک صفحے کو ڈراپ نہ کیا کریں۔ ’’موت کے دامن میں پناہ لینے والے لوگ‘‘ پڑھ کر بہت دُکھ ہوا۔ یہ المیہ ہے کہ خُود کشی کرنے والوں میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے اور ظاہر ہے بڑی وجہ ناخواندگی، بےروزگاری اور منہگائی جیسے عوامل ہی ہیں۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں شیخ سعدی اور حافظ شیرازی سے متعلق مضامین معلوماتی تھے۔

’’کہی ان کہی‘‘ میں نام وَر ہدایت کار عبداللہ بادینی کا باتیں بھلی لگیں۔ انعام الحق قریش کا ’’انٹرویو‘‘ فکر انگیز تھا۔ خدارا! اپنے بچّوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں تاکہ ہماری نئی نسل کم از کم، عُمر بھر کی معذوری سے تو بچ سکے۔ گورکھ ہل اسٹیشن سے متعلق پڑھا کہ 29 برس بعد بھی ایک اچھی تفریح گاہ نہیں بن سکا۔ 

افسوس ہی کرسکتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت توجّہ دیتی تو یہ آمدنی کا بڑا ذریعہ بن سکتاتھا۔ ہمارےصفحے کی لکھاری شمائلہ ناز کا شکریہ کہ اُنہیں میرا خط پسند اتا ہے۔ دُعاہے کہ بزم کا ہر اِک ستارہ سدا چمکتا دمکتا رہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: ہمیں تو یہ سوچ سوچ کر وحشت ہوتی ہے کہ آخر ہم جہالت و توہّم پرستی کی کس حد تک جانا چاہتے ہیں۔ بچّوں کو پولیو ویکسی نیشن دینا تو دُورکی بات، ہم تو پولیو ورکرز ہی کوموت کے گھاٹ اتارنے سے دریغ نہیں کررہے۔

دنیا جب یہ سب کچھ دیکھتی ہوگی، تو اللہ جانےہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔ واقعی ہم نے قعرِ مذلّت کے گڑھےمیں دفن ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ یہود و ہنود تو ہمیں نیست و نابود کرنے پر تُلے ہی ہیں، خُود ہم نے بھی اپنی رسوائی، ذلّت و پسپائی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

ایک سینڈل میں پورا شوٹ

اس مرتبہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں گفتگو، خود نوشت اور یادداشتیں، جیسی شاہ کار تحریریں ایک ساتھ پڑھنے کو ملیں۔ پڑھ کر اچھا لگا، لیکن کچھ یک سانیت بھی محسوس ہوئی اور آپ کی ماڈل نے تو اس بار ایک ہی سینڈل میں پورا شوٹ نمٹا کے کمال ہی کردیا۔ ہاں، ’’ناقابل فراموش‘‘ کے واقعات زبردست تھے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: آپ لوگوں کی عمیق نگاہی کو بھی سلام ہے۔ مُمکن ہے، بےچاری شوٹ کے لیے گھر سے ایک ہی سینڈل لائی ہو، کیوں کہ عموماً ہماری طرف سے تو صرف ملبوسات ہی فراہم کیے جاتے ہیں، باقی ایکسیسریز ماڈلز کی اپنی ہوتی ہیں۔

نثر نگاری کی ابجد سے نابلد

آپ نے میرے خط کے جواب میں فرمایا کہ ہمارے پاس اب تک 2023ء کی تحریریں اشاعت کی منتظر ہیں۔ جناب، بےشک اس سے اخبار کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے، مگر اِس طرح ایک تخلیق کار طویل اور صبرآزما انتظار کی سولی پر بھی لٹک کر رہ جاتا ہے۔ مطلب اگر ایک لکھاری آپ کو اپنی تحریر 8سال کی عُمر میں ارسال کرتا ہے، تو اشاعت تک تو وہ اسّی برس کا ہوسکتا ہے۔ آپ کو اِس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی سعی کرنی چاہیے۔

ایک حل تو یہ ہے کہ وقفے وقفے سے جریدے کا ’’افسانہ نمبر‘‘، ’’کہانی نمبر‘‘، ’’ناقابلِ فراموش نمبر‘‘ وغیرہ شائع کیے جائیں۔ یوں آپ تحریروں کی ذخیرہ اندوزی کے الزام سے باعزت بَری ہوجائیں گی، دوم، میرے خط کے جواب میں فرمایا گیا کہ ہمارے ہاں ساون اور بہار میں پیغامات بھیجنے کا کہاں رواج ہے؟ تو وضاحت کردوں، میری مُراد یہ تھی کہ ساون یا بہار کے موسم میں ایک قاری اپنے یا پرائے کے لیے خیال آرائی کر کے ارسال کرے گا، تو جریدے میں کچھ انفرادیت آجائے گی۔

پھر میرا نام نظم کے حوالے کے ساتھ ’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں موجود تھا، تو اطلاعاً عرض ہے، مَیں نے ایک دُعائیہ نثری نظم ارسال کی تھی اور وہ نثری نظم کے معیار پر صد فی صد پوری اُترتی تھی، تو یہ بتایئے، ایسا سہواً ہوا یا پھر مسترد کنندہ ہی نثرنگاری کی ابجد سے نابلد ہے۔ اور ہاں، آپ کے میگزین میں مزاح کا بھی خاصا فقدان نظر آتا ہے، تو مَیں ہی پہل کرتے ہوئے چند ’’شگفتہ شگفتہ ہنس بیتیاں‘‘ ارسال کررہا ہوں۔ (چوہدری قمر جہاں علی پوری، نزد بانس مارکیٹ، گھلواری روڈ، تحصیل علی پور، ضلع مظفر گڑھ)

ج: آپ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آپ ’’ضرورت سے بہت زیادہ‘‘ پُراعتماد ہیں۔ ہمارے جریدے کا ایک طے شدہ فارمیٹ ہے، جس میں اِن ’’نمبرز، ومبرز‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔ 

دوم، آپ کی نثری نظم سوفی صد ناقابلِ اشاعت تھی اور نام بہ قائمی ہوش وحواس ہی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اور یہ جو آپ نے ’’شگفتہ شگفتہ ہنس بیتیاں‘‘ تخلیق فرمائی ہیں، یہ بھی قطعاً لائقِ اشاعت نہیں کہ اِنھیں پڑھ کر رویا تو جا سکتا ہے، ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرنے کا کوئی امکان نہیں۔ 

ہاں البتہ آپ کی ایک عدد تحریر’’انتقام‘‘ کسی حد تک قابلِ اشاعت ہے، لیکن اُس پر بھی ہمارے کچھ تحفّظات ہیں، جنھیں دُور کرنےکے لیے آپ کو متعدّد بارکال کی گئی،  مگر آپ نے فون اُٹھانے کی زحمت نہیں کی، تو فی الحال وہ بھی ردّی کی ٹوکری کی منتظر تحریروں ہی کی صف میں شامل ہے۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نامۂ غالب

بنام انچارجیہ، سنڈے ماگازین

روزنامہ جنگ، کراچی بلکہ مائی کلاچی

اُردو گھر کی لونڈی، زبان افرنگی، گویا لونڈی کی لونڈی، سوجو چاہو، سلوک کرو۔ دارالسکون، مملکتِ ہند (قبلِ تقسیم) میں افرنگی غاصب لے کر آیا۔خیر، یہ دوسری بات ٹھیری۔ گوشۂ عافیت میں گویا نہ خلدِ بریں، نہ نارِ دوزخ، نامعلوم انجام کے لیے جیتا ہوں۔ 

دو وقت کا کھانا مل جاتا ہے اور نامعلوم مدّت بعد پا تا لباسِ فاخرہ خلعتِ شاہی نہ سہی، ملبوسِ شکستہ سہی۔ کبھی کبھی کچھ صُورتیں دکھائی دے جاتی ہیں۔ جو خُوباں ہیں، وہ میری طرف نہیں دیکھتیں، جو بد ہیئت ہیں، اُن کی طرف مَیں نہیں دیکھتا۔ دن و رات کا پتا نہیں، اونگھ آتی ہے، تو ذرا دیر کو سو لیتا ہوں۔

ایک دن جی تسلسل سے اوبھ گیا، تو ذرا کی ذرا چُپکے سے نکل کھڑا ہوا۔ اُدھر اپنے گھر گیا، تو معلوم ہوا محکمۂ آثارِ قدیمہ نے قبضہ کرلیا ہے۔ جہاں برسات میں باہر کم، اندر زیادہ بارش ہوتی تھی اور ٹپکوں کے لیے گھر کے برتن کام آتے تھے۔ اپنے مزار پر گیا تو تزئین دیکھ کر جی خوش ہوا۔ ایک ہجوم آ جارہا تھا۔ اُدھر بلی ماراں گیا کہ احبابِ رفتہ یا شاگرد پیشہ میں کوئی پہچانی صُورت نظر آئے، مگر مقدور کہاں۔ 

میاں مسکین کے کُوچے سے گزرا، تو ایک اسٹال پر اخبارات دیکھے۔ مَیں شاعرِ امن پسند، روزنامہ ’’جنگ‘‘ دیکھا تو خیال گزرا مار دھاڑ کی خبریں ہوں گی، مگر نویدِ مسرت اور سرخوشی پر سُکون ہوا۔ یہ سنڈے ماگازین کی انچارجیہ نرجس پڑھ کرعجوبہ لگا۔ صدیوں سے گلِ نرگس کی مدح پڑھتا، لکھتا اور سُنتا آیا۔ بی بی! تم نےکیاغضب کیا، اچھے بھلے پھول کےنام کا ستیاناس کردیا۔

خیر، مجھے کیا؟ مطالعے کے دوران جب ’’آپ کا صفحہ‘‘ دیکھا تو خیال آیا، مَیں بھی تو ہوں۔ بھلا مجھ سے بہتر نامہ کون لکھےگا۔ سو، مخاطب ہوں۔ یہ اچھا سلسلہ ہے کہ اس کے دَم سے خطوط نویسی و نامہ نگاری کو دوام حاصل ہے۔ 

مجھے واپس بھی جانا ہے۔ سو، اتنے کو بہت سمجھو، کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے؟ تو چُھپائے نہ بنے۔ ؎ تم سلامت رہو، ہزار برس… ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ ارے تعجب کیسا، وہاں حوریں بھی تو لاکھوں برس کی ہیں۔ (والسلام، مرزا غالب)

ج: ہاہاہا… کبھی کبھی ہمیں بھی لگتا ہے، اصلی چچا غالب کی رُوح ہم سے بہت خوش ہوگی۔ ویسے آپ کو اپنا اصل نام بھی لکھنا چاہیے تھا۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں جنگ اخبارمیں اپناکالم شائع کروانا چاہتی ہوں اورمَیں نےایک کہانی بھی لکھ رکھی ہے، جو3 اقساط پرمشتمل ہے، وہ سنڈے میگزین میں شائع کروانا چاہتی ہوں۔ آپ سے اس سلسلے میں رہنمائی چاہیے۔ (یسریٰ شیخ)

ج:کالم نگاری تو ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ پہلے کچھ ہلکی پُھلکی تحریریں لکھیں، تھوڑی بہت شناخت تو بنائیں۔ اور رہی بات، کسی قسط وار کہانی کی، تو اُس کی بھی ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں۔ ابتداً مختصر سی کوئی تحریر لکھ بھیجیں، ( زیادہ سے زیادہ 1500الفاظ پرمشتمل) قابلِ اشاعت ہوئی، تو پھر آگے دیکھیں گے۔

* اِس بار’’سرچشمۂ ہدایت‘‘کاصفحہ انتہائی معلوماتی تھا۔ رابعہ فاطمہ کا مضمون’’مسلم حکم رانوں کی نباتات سے محبت‘‘، ظفر معراج کا ’’انٹرویو‘‘ بھی بہت ہی اچھا لگا۔ اٹک خورد اسٹیشن کے بارے میں پڑھ کر اور تصاویر دیکھ کر دیکھنےکا بہت اشتیاق تھا اور شومئی قسمت کہ آج ہی کنول بہزاد کی تحریرکی صُورت، اس کا سفرنامہ پڑھنے کو مل گیا۔ (محمد اقبال شاکر، میاں والی)

* شمارہ گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں موصول ہوا(مَیں گھرسے باہر جو تھی) ہاہاہا… سب سے پہلے سولر انرجی پہ طویل مضمون ملاحظہ فرمایا۔ پھر پہنچی، ڈاکٹر قمر عباس کے ’’ایک تھا راجا‘‘پہ۔ پہلی نظرمیں لگا،کوئی نیا ناول شروع کردیا ہے، لیکن پھر پڑھ کے مایوسی ہوئی کہ وہ توخالص تاریخ تھی ’’اسٹائل‘‘ میں گہرے سبز اور اسکن رنگ کے ملبوسات بہت پسند آئے۔

ناقابلِ فراموش کی دوسری کہانی پڑھ کے ہنسی آگئی کہ اتنے چھوٹے سے سانپ سے بھلا کون ڈرتا ہے۔ ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں کہانیوں کے نام بہت دل چسپ تھے، تو بہت تجسّس ہوا کہ نہ جانے کہانیاں کیسی ہوں گی، لیکن ہم تو محروم ہی رہ گئے ناں۔ کتاب ’’رقصِ حیات‘‘ کا سرِورق دیدہ زیب تھا۔ میگزین پڑھتے کبھی کبھی پروف کی کوئی غلطی نظر آتی ہے، لیکن خط لکھتے وقت بھول جاتی ہوں کہ کہاں تھی ہاہاہا… (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ساتھ ساتھ نوٹ کرتی رہا کرو۔ جریدہ پڑھتے ہوئے ساتھ کاغذ، قلم بھی لےکربیٹھا کرو۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk