پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین
ڈاکٹر محمّد حمید اللہ 16؍محرم 1326ہجری بمطابق19؍فروری1908ء کو حیدر آباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ عربی زبان پر مہارت رکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے خاندان میں بچّوں کو عربی اور فارسی زمانۂ طالب علمی ہی سے پڑھائی جاتی تھی۔
انہوں نے 1923ء میں میٹرک کا امتحان درجۂ اوّل کے ساتھ پاس کیا، جب کہ انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے امتحانات میں بھی امتیازی پوزیشن حاصل کی اور وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ ڈاکٹر محمّد حمید اللہ عثمانیہ یونی ورسٹی کے شعبۂ دینیات کے طالبِ علم رہے، جہاں انہیں پروفیسر عبدالقادر صدیقی جیسے اساتذہ میسّر آئے۔
حصولِ علم سے اُن کی محبّت اور لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک روز بھی یونی ورسٹی سے غیر حاضر نہیں رہے اور صرف اُس دن کلاس میں آدھا گھنٹا تاخیر سے پہنچے تھے کہ جس روز اُن کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ انہوں نے 1930ء میں فقہ میں درجۂ اوّل میں ایم اے کیا اور اسی برس ایل ایل بی میں بھی درجۂ اول کے ساتھ کام یاب ہوئے۔
نیز، 1930ء ہی میں جامعہ عثمانیہ کی بزمِ قانون کے نائب صدر منتخب ہوئے اور اسی سال ہی اُن کا بطور ریسرچ اسکالر انتخاب بھی عمل میں آیا۔ انہوں نے قانونِ بین الاقوام پر تحقیق کا آغاز کیا اور اس ضمن میں مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کا دورہ بھی کیا۔ بعد ازاں، جامعہ عثمانیہ کی اکیڈمک کائونسل کی اجازت سےاُن کا مقالہ بون یونی ورسٹی، جرمنی کو بھیجا گیا، جہاں سے 1932ء میں انہوں نے ڈی لِٹ کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر محمّد حمید اللہ طویل عرصے تک یورپ ،بالخصوص فرانس میں مقیم رہے، جہاں اُن کی تحقیقی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ انہوں نے پوری زندگی تحقیق اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اسلام کی بھرپور خدمت کی اور پانچ ہزار سے زائد غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ انہوں نے اپنے پُرمغز تحقیقی مقالات کے نتیجے میں دُنیا کے مختلف ممالک سے داد ِ تحسین حاصل کی ،جن سے آج بھی لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے متعدّد مرتبہ حج اور عُمرے کی سعادت حاصل کی اور تحقیق کے سلسلے میں نجد اور حجاز کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اہم مقامات کا دورہ کیا۔ نیز، وہ جامعہ عثمانیہ میں قانون بین الاقوام کی درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔
شاہ بلیغ الدّین اپنی کتاب، ’’ تذکرۂ عثمانین‘‘ میں ڈاکٹر محمّد حمید اللہ کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں کہ ’’ وہ اوسط قد کے مالک اور دھان پان سے آدمی تھے، مگراُن کی شخصیت رُعب دار تھی۔ ان کی ذاتی خوبیوں اور علمی عظمت نے ان کا قد بڑھا دیا تھا۔ سفید رنگت خون کی کمی سے کچھ زرد معلوم ہوتی تھی۔
لمبی پتلی ناک، ذہانت سے چمکتی آنکھیں، پتلا چہرہ، اونچی گردن، نحیف ہاتھ پاؤں، شرعی پاجاما، حیدرآبادی شیروانی، سر پہ بالوں وال ٹوپی، ہاتھ میں چمڑے کا بستہ، جو کتابوں، کاپیوں سے پُھولا ہوا ہوتا تھا، چمکتے دمکتے دانت، سیاہ ترشی ہوئی مونچھیں اور سیاہ جھالر نُما داڑھی۔ وزن ایک سو بارہ پاؤنڈ سے زیادہ نہیں تھا۔‘‘
ڈاکٹر محمّد حمیداللہ کے اساتذہ میں مولوی عبدالحق، ڈاکٹر جعفر حسین اور پروفیسر عبدالحمید صدیقی نمایاں تھے۔ وہ کم و بیش دس زبانوں پر عبور رکھتے تھے، جن میں عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اطالوی زبانیں قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے مختلف زبانوں میں 160سے زائد کُتب اور 1000سے زائد تحقیقی مقالات تحریر کیے، جن کی وجہ سے اُنہیں بین الاقوامی شُہرت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ دو مرتبہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے۔
پہلی مرتبہ 1949ء میں قراردادِ مقاصد کی تیاری اور شرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں بہ حیثیتِ ماہرِ قانون پاکستان تشریف لائے، جب کہ دوسری مرتبہ 1980ء میں پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران بہاول پور یونی ورسٹی میں 12توسیعی لیکچرز دیے، جنہیں بعد ازاں یونی ورسٹی نے ’’خطباتِ بہاول پُور‘‘ کے نام سے شایع کیا اور اب تک اس کتاب کے متعدد ایڈیشنز اور متعدد زبانوں میں تراجم منظرِ عام پر آچُکے ہیں۔
علاوہ ازیں، ڈاکٹر حمید اللہ کا ایک منفرد کارنامہ قرآنِ مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی ہے، جو دو جِلدوں میں شائع ہوا۔ نیز، انہوں نے امام محمّد شیبانی کی تصنیف،’’ کتاب السیر‘‘ اور شاہ ولی اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب، ’’حجۃ البالغہ ‘‘کا ترجمہ بھی کیا، جب کہ اُن کی دیگر یادگار تصانیف میں ’’غزواتِ نبوی صلی ﷺ‘‘، ’’غیر مسلم ممالک سے تعلقات ‘‘ اور ’’اسلامی ریاست‘‘ شامل ہیں۔ عالمِ اسلام کے یہ نام وَر سپوت اور عظیم اسکالر 17 دسمبر 2002ء کو 94 برس کی عُمر میں امریکی ریاست، فلوریڈا میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔