بابر سلیم خان، لاہور
بابائے صحافت، مولانا ظفر علی خان کی شخصیت بے پناہ خوبیوں کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک بے باک صحافی، کُہنہ مَشق ادیب، شعلہ بیاں مقرّر، محبِّ وطن سیاسی رہنما اور قادر الکلام شاعر تھے۔ نیز، برِصغیر کی آزادی کے بطلِ جلیل اور اسلام کے شیدائی بھی تھے۔ اُن کی بااثر شخصیت سے ہندوستان کی اصنام پرست قوّتیں ہمیشہ لرزہ براندام رہیں۔
وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ تھے۔ اُن کے دل میں بچپن ہی سے ہندوستان کی آزادی کی تڑپ موجود تھی۔ اُن کی تربیت اور نشوونما سرسیّد احمد خان کے زیرِ اثر ہوئی ،جب کہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، عبدالعلیم صدیقی، بابائے اردو، مولوی عبدالحق اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی جیسی شہرۂ آفاق ہستیوں نے اُن کی سیاسی بے داری میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا ظفر علی خان نے تعلیم سے فراغت کے بعد قومی معاملات اور تنظیم سازی کے امور میں دل چسپی لینا شروع کی اور جب 1906ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، تو انہوں نے اس ضمن میں بھرپور کردار ادا کیا۔
وہ مسلم لیگ کے قیام کی قرار داد کی تائید کرنے والوں میں شامل تھے اور پھر مسلم لیگ کی وسعت اور تنظیم سازی میں بھی پیش پیش رہے۔ 1909ء میں اپنے والد، مولوی سراج الدّین کے انتقال کے بعد انہوں نے’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی اور اس کا دفتر وزیر آباد سے لاہور منتقل کر دیا۔
پھر کچھ ہی عرصے میں اُن کے منفرد اندازِ صحافت کی وجہ سے ’’زمیندار‘‘ نے معاصر اخبارات پر سبقت حاصل کر لی اور اسے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا ترجمان سمجھا جانے لگا۔ انہوں نے خود کو ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی کامل آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا اور جب بھی انگریز بہادر نے برصغیر پر جابرانہ قانون نافذ کرنے کی کوشش کی، تو مولانا ظفر علی خان اُس کے خلاف ڈٹ گئے۔ وہ ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔
اسی طرح جب ہندوؤں نے ’’شُدھی‘‘ اور ’’سنگھٹن‘‘ جیسی تحاریک شروع کیں اور مسلمانوں پر ظلم روا رکھا، تو اُن کا جذبۂ اسلام سے لب ریز دل چھلک اُٹھا اور انہوں نے ان تحاریک کی مخالفت میں تُندو تیز نظمیں تخلیق کیں۔ علاوہ ازیں، تحریکِ آزادیٔ کشمیر، مسجد شہید گنج تحریک، تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان میں بھی انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔
نیز، طرابلس اور بلقان کی جنگوں کے دوران تُرکوں کی امداد کے لیے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی اور چندے کی فراہمی کے ضمن میں بھی اُن کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔
گوکہ مولانا ظفر علی خان ابتدا میں ہندو، مسلم اتحاد کے حامی تھے، مگر کانگریس کے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے باعث اس سے الگ ہو گئے اور 1937ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ پنجاب میں قائد اعظمؒ کے دست و بازو تھے اور مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے مجلسِ دستور ساز کے رُکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ 27نومبر 1956ء کو راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے اور انہیں وزیر آباد میں سُپردِ خاک کیا گیا۔ وہ مرتے دَم تک پاکستان کی ترقّی و خوش حالی کے لیے سرگرم رہے۔
قائد اعظمؒ نے مولانا ظفر علی خان کے بارے میں ایک موقعے پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ مُجھے آپ اپنے صوبے میں مولانا ظفر علی خان جیسے دو چار بہادر آدمی دے دیں، تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ اسی طرح ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے اُن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ’’ظفر علی خان کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سَر کیے ہیں۔‘‘
آج اس اَمر کی اشد ضرور ت ہے کہ مولانا ظفر علی خان جیسے مردِ مجاہد، بطلِ جلیل اور برِصغیر کے عظیم جرنیل کے افکار و تعلیمات کو عام کیا جائے، تاکہ نوجوان نسل ان کے جذبۂ حُریّت سے آگاہ ہو سکے اور وطنِ عزیز کو ترقّی کی راہ پر گام زن کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ؎جلا سکتی ہے شمعِ کُشتہ کو موجِ نفس اُن کی…الٰہی !کیا چُھپا ہوتا ہےاہلِ دِل کے سینوں میں۔