• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آتے جاتے موسم، رُوپ سروپ بدلتی رُتیں پتا نہیں لڑکیوں بالیوں ہی کو کیوں زیادہ متاثر کرتی ہیں کہ ہر موسم سے وابستہ کچھ نہ کچھ رنگ اُن کے چہروں پہ ضرور اُترتے، رویوں، مزاجوں سے بہرطور جھلکتے ہیں۔ اِدھر کالی بدری چھائی نہیں، اُدھر دِل چَھتیں ٹاپنے کو مچلنے لگا کہ برکھا، برسات میں تن مَن بھگونا تو گویا لازم ٹھہرا۔ سکھیوں، سہیلیوں کے جُھرمٹ میں ست رنگی اوڑھنیاں، چُنریاں اوڑھے پینگوں کے ہُلارے نہ لیے، تو بھلا ساون بھی کوئی ساون ہوا۔ اور پھر برستی بارش کے ساتھ پکوڑے، سموسے، کچوریاں اور چائے تو مشروط ہی ہیں۔ 

بہار کے رنگ، خوشبوئیں ابھی پوری طرح دھرتی پہ اُتر بھی نہیں پاتے۔ کونپلیں، شگوفے گُلوں، پھولوں کے رُوپ میں ٹھیک سے ڈھلے بھی نہیں ہوتے۔ زمیں سبز مخملیں لباس کی تہیں کھول ہی رہی ہوتی ہےکہ نوعُمر بانکیوں سجیلیوں کے چہرے ہی نہیں، ملبوسات، سب رنگ و انداز رنگا رنگ گُلوں، گلابوں کا نظارہ دینے لگتے ہیں۔ چہار سُو گویا قوسِ قزح ہی قوسِ قزح بکھری نظر آتی ہے۔ موسمِ گرما کے طویل دن بھی اِن ہی کملیوں پر سب سےگراں گزرتےہیں۔ تب ہی ہلکے پُھلکے، دھیمے دھیمے رنگوں کے سوتی پہناوے، بالکل لائٹ میک اَپ، کَس کے بندھی پونیاں، اونچے جُوڑے، کیچرز میں قید زلفیں، آرام دہ نازک نازک چپلیں مَن پسند طرزِ آرائش و زیبائش ٹھہرتا ہے۔ 

اور پھر..... اِدھر خزاں رُت کی دستک، قدموں کی چاپ سُنائی دی نہیں، اِک بے نام سی فسردگی و اُداسی نے اِنہیں اپنے حصار میں لے لیا۔ پرانے البمز، ڈائریاں ہی نہیں، گرم کپڑوں کی الماریوں کےساتھ یادوں کے صندوق بھی دھڑا دھڑ کُھلنے لگتے ہیں۔ گھر آنگن کے رنگ بدلتے، درختوں سے جَھڑتے پتّوں کی طرح مَن آنگن میں بھی اِک پت چھڑ ہی کا سماں ہوتا ہے۔ 

اِک اِک کرکے سارے رُوٹھوں، بچھڑوں کی یادیں پلکوں پہ آٹھہرتی ہیں اور آنکھیں بے وجہ ہی چھما چھم برسنے کو تیار رہتی ہیں، مگر اِس حُزن و ملال کے عالم میں بھی سرما کے شان دار استقبال کا خیال قلب و ذہن میں جاگزیں ہوتا ہےکہ ایک تو موسمیاتی تبدیلیوں نے اس کا قیام خاصا مختصر کردیا ہے۔ دوم، یہ رُت جس قدرملول کرتی ہے، اُسی قدرشانت بھی، کیوں کہ بہرحال گہرے، دبیز رنگوں، سولہ سنگھار کے لیے اس سے اچھا موسم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

ایک وقت تھا، لوگ شادی بیاہ یا دیگر چھوٹی موٹی تقریبات کے انعقاد کے لیے گرمیوں کی چُھٹیوں کا انتظار کرتے تھے، لیکن اب نومبر تا مارچ ہر قسم کےفنکشنز، پارٹیز کے لیے آئیڈیل مہینے سمجھے جاتے ہیں کہ ایک تو گرمی نے کچھ زیادہ ہی پر پھیلا لیے ہیں۔ 

اپریل سے جو شروع ہوتی ہے، تو نومبر تک جان نہیں چھوڑتی بلکہ کراچی میں تو اِمسال ماہِ دسمبر کے آغاز تک اے سی، پنکھے چلتے رہے۔ اور متوسّط طبقہ اِس موسم میں تقریبات کا انعقاد یوں بھی افورڈ نہیں کرتا کہ اِتنے اخراجات تو پوری تقریب پر نہیں آتے، جتنی بھاری رقم بجلی کے بلز کی نذر ہوجاتی ہے۔ 

نیز، عموماً خواتین بھی اب موسمِ گرما کی گیدرنگز سے بہت گھبرانے لگی ہیں کہ ’’نہ سجنے سنورنے کا مزہ، نہ کھانے پینے کا لُطف۔‘‘ ہاں، تو بات ہو رہی تھی، موسموں کے رنگوں کی لڑکیوں بالیوں، الہڑ دوشیزاؤں، کنواری ناریوں کے چہروں، رویّوں بلکہ انگ انگ سے چھلکنے کی۔ تو شاید اِس کی ایک بڑی وجہ کچّی عُمر کے جذبات و احساسات، تصورات و خیالات، باتیں حکایتیں بھی ہیں۔ وہ بشیر بدر نے کہا تھا ناں کہ ؎ پلکیں بھی چمک اُٹھتی ہیں سوتے میں ہماری..... آنکھوں کو ابھی خواب چُھپانے نہیں آتے..... اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں..... پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے۔ 

اور پھر اِن ہی کُھلی کتاب سی لڑکیوں پر، مختلف رنگوں، رُتوں، نظاروں سے منسوب ڈھیروں ڈھیر شاعری بھی یوں ہی تو نہیں ہوگئی ناں۔ وہ کیا ہے کہ؎ چاند، ستارے، جگنو، پھول، کتابیں، خواب..... اِک لڑکی کی کتنی پیاری دنیا ہے۔ اور؎ اجالوں میں چُھپی تھی ایک لڑکی..... فلک کا رنگ و روغن کر گئی ہے۔ ؎ بکھر کر شیشہ شیشہ، ریزہ ریزہ..... سمٹ کر پھول سے پیکر کی لڑکی۔ ؎ اِک لڑکی کے رُخ پر کیا بے زاری ہے..... پھولوں کو بھی کِھلنے میں دشواری ہے۔ ؎ ٹوٹا ہوا عکس لے کے لڑکی..... آئینے میں پھر سنور رہی ہے۔ 

؎ ایک لڑکی اداس صفحوں میں..... اِک جزیرہ سنبھال رکھتی ہے۔ ؎ نہ جانے منتظر کس کی ہے، اِک نادان سی لڑکی..... کوئی آہٹ جو سُنتی ہے، دریچہ کھول دیتی ہے۔ ؎ رقص کرے اور آنکھ میں پانی بھر آئے..... ہر لڑکی تھوڑی دیوانی ہوتی ہے۔ ؎ دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی..... آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے۔ ؎ ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے..... لڑکی ہے کہ ترشے ہوئے ہیروں کی لڑی ہے۔ ؎ تم بہت معصوم لڑکی ہو تمہیں..... نظم بھیجوں گا، دُعا پہناؤں گا؎ اجلی چاندنی رات سی آنکھیں، اُجلا دھوپ سا مُکھ..... ہائے رے وہ ہرنی سی لڑکی شوقِ وصال لیے۔ اور؎سفید رُت میں گلاب ہاتھوں سے سات رنگوں کے خواب چُنتی..... کپاس چُننے کو آئی لڑکی کا دھیان تھوڑی کپاس پر ہے۔ تو بس، کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں لڑکیاں۔ تب ہی تو رُتوں، موسموں کے بدلنے کی خبر ہواؤں، فضاؤں سے پہلے اِن کے رنگ و آہنگ سے ملتی ہے۔

اب یہی دیکھیں، ’’دسمبریں رُت‘‘ کی خبر کیا آپ کو خود دسمبر نے دی؟ نہیں ناں!! پہناووں، بناؤ سنگھار کے بدلے بدلے عکس و آہنگ ہی بتا رہے ہیں کہ سردی بیگم قدم رنجہ فرما چُکی ہیں۔ 

اب ہماری یہ آج کی رائل بلیو، بلڈ ریڈ، گہرے دھانی، حسین گلابی اور دل نشین اسٹیل بلیو رنگوں سے مزیّن بزم ہی دیکھ لیں۔ سرما کی کسی بھی تقریب میں شرکت کے لیے اب اس سے بہتر انتخاب اور بھلا کیا ہوگا۔ 

فیشن میں بہت اِن دل آویز سی میکسیز ہیں، تو روایتی ٹراؤزر شرٹس بھی۔ جس بھی رُوپ سروپ سے سج سنور لیں گی، یہی سُنیں گی ؎ رشکِ مینا وجام سی لڑکی..... وہ دسمبر کی شام سی لڑکی..... وہ کھڑی ہے نظر جُھکائے ہوئے..... زاہدوں کے قیام سی لڑکی..... فصلِ گُل کی سفیر لگتی ہے..... بادِ گُل کے خرام سی لڑکی..... تیرگی نے دلائی یاد مجھے..... ایک ماہِ تمام سی لڑکی۔