دُنیا بَھر میں بولی جانے والی زبانوں میں عربی ایک ایسی زبان ہے کہ جو اپنی فصاحت و بلاغت، گہرائی و گیرائی اور تاریخی و مذہبی حیثیت کے باعث منفرد مقام رکھتی ہے۔ عربی محض ذریعۂ ابلاغ ہی نہیں، بلکہ ایک تہذیبی وَرثہ بھی ہے، جو اپنے اندر صدیوں پر محیط علمی خزانے سمیٹے ہوئے ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے عربی زبان کی خصوصیات، خُوب صُورتی و ندرت اور اہمیت کو سمجھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔
عربی دُنیا کی واحد زبان ہے کہ جو گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ اگر چھٹی صدی عیسوی کے عرب باشندے آج کے دَور میں آجائیں، تو وہ مروّجہ عربی زبان کو بہ آسانی سمجھ لیں گے اور اس زبان کی یہ خصوصیت اُسے دُنیا کی دیگر قدیم زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ لاطینی اور سنسکرت سمیت دیگر قدیم زبانیں وقت کے ساتھ بدلتی رہیں اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ معدوم ہی ہوگئیں، البتہ عربی زبان کی اصل شکل برقرار رہی۔ اور یہ ابدیت ہی اس بات کا واضح، ناقابلِ تردید ثبوت ہےکہ عربی ایک الہامی زبان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید جیسی مقدّس اوردائمی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب فرمایا، جو اس زبان کے لازوال ہونے کی ضمانت بن گیا۔ قرآنِ مجید نہ صرف اللہ کا کلام ہے بلکہ قیامت تک زندہ رہنے والا معجزہ بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیثِ مبارکہ عربی زبان کی فضیلت کو مزید اُجاگر کرتی ہے کہ’’عربوں سے محبت کرو، کیوں کہ مَیں بھی عربی اللسان ہوں، قرآن بھی عربی میں ہے اور اہلِ جنّت کی زبان بھی عربی ہے۔‘‘ یہ حدیثِ نبویؐ نہ صرف عربی زبان کی عظمت کو بیان کرتی ہے بلکہ اس کے کلام اللہ ہونے اور آپ ﷺ کی طرف نسبت کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس کی خصوصی حیثیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
عربی زبان کا ایک منفرد اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ دُنیا کی سب سے لطیف اور گہری زبان ہے۔فصاحت وبلاغت میں اس کاکوئی ثانی نہیں، جس کا اندازہ رسول اللہﷺ کے فرامین سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپﷺ کی زبانِ مبارک سےادا ہونے والےالفاظ مختصر،جامع اورحکمت سے بھرپور ہیں، جو ہر دَور اور ہرحال میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حُکم رانوں، نگرانوں اور ذمّے داران کے لیے آپ ﷺ نے صرف تین الفاظ پر مشتمل ایک ایسا زرّیں اصول بیان فرمایا کہ جو تا قیامت رہنمائی فراہم کرے گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’سَیِّدُالقَوْمِ خَادِمُہُم‘‘ یعنی’’قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔‘‘ یہ فرمانِ نبویؐ، حُکم رانی کے اصولوں کا خلاصہ اور اِس بات کی تاکید کرتا ہے کہ قیادت، خدمت کا نام ہے، نہ کہ استحقاق کا۔اِسی طرح آپ ﷺ نے حُسنِ معاشرت، حُسنِ تجارت، اور حُسنِ حکومت سمیت زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک عظیم اصول مختصر ترین الفاظ میں یوں بیان فرمایاکہ’’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ‘‘ یعنی ’’نہ نقصان دواورنہ نقصان اُٹھاؤ۔‘‘
یہ جملہ انسانیت کے لیے ایسا قانون ہے کہ جو عدل و انصاف اور باہمی حقوق کی پاس داری کا درس دیتا ہے۔ اگر صرف اِس پرعمل کرلیا جائے، تو دُنیاکےمعاشرتی واقتصادی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ اور عربی زبان کی وسعت سمجھنے کے لیے تو یہ ایک مثال ہی کافی ہے کہ صرف اونٹ کے لیےعربی میں سیکڑوں الفاظ موجود ہیں۔ مثلاً، نر اونٹ کے لیے ’’الجمال‘‘، طاقت وَر اونٹ کے لیے ’’صائل‘‘ اور حاملہ اونٹنی کے لیے ’’اللقحہ‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اِن میں سے ہر لفظ کسی مخصوص حالت یا خصوصیت کی نشان دہی کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، عربی زبان میں دُنیا کی دیگر زبانوں کے بہت سے الفاظ کا ماخذ موجود ہے۔ مثال کےطور پر زیرو، الجبرا، سیرپ، الکحل، الگورتھم اور ایڈمرل سمیت کئی الفاظ عربی زبان سے اخذ کیے گئے ہیں اور عربی زبان کا یہ اثر دُنیا کی علمی ترقّی میں اِس کے کردار کا بھی غمّاز ہے۔ اگرعربی کو دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانےوالی زبان کہا جائے، توبےجا نہ ہوگا کہ دُنیا بَھر کے تقریباً ایک ارب ستر کروڑ مسلمان نماز کے ذریعے عربی زبان سے جُڑے ہوئے ہیں۔
اسلامی علوم کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے،تو قرآن و حدیث، فقہ اور دیگرعلوم کی بنیاد بھی عربی زبان ہے۔ نیز، مسلمانوں کے لیے یہ زبان محض رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ اُن کے ایمان کا جُزوِ لازم ہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت، دُعاؤں کی صُورت بھی یہ زبان دُنیابَھرمیں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تاریخی کُتب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ عربی کا تعلق سامی زبانوں کے خاندان سے ہے اور اس کے 28 حروفِ تہجی اپنی ساخت اور صوتی اثرات کے باعث بے مثال ہیں۔ ان حروف کے ذریعے مختصر الفاظ میں وہ گہرائی اور وسعت پیدا کی جا سکتی ہے کہ جو دیگر زبانوں کے طویل جملے بھی فراہم نہیں کر سکتے۔
آج کے ڈیجیٹل دَور میں بھی عربی دُنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ عرب دُنیا میں کمپیوٹر، موبائل فون اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمزمیں عربی زبان ہی استعمال کی جاتی ہے، جب کہ مختلف ادارے عربی کے کلاسیکی مواد کو آن لائن منتقل کرنے میں بھی مصروف ہیں۔
آج لاکھوں عربی کُتب انٹرنیٹ پر دست یاب ہیں اور یہ ترقّی اِس کا عالمی کردار وعملی افادیت اُجاگر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ 2012ء سے اقوامِ متّحدہ نے بھی عربی زبان کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے ہر سال18 دسمبر کو’’عربی زبان کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منانے کا آغاز کیا اور یہ یوم منانےکامقصد دُنیا کوعربی کی ثقافتی، علمی اور مذہبی خدمات سے رُوشناس کروانا ہے۔ عربی زبان کی اہمیت کے پیشِ نظرہماری بھی یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ اِس کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کریں۔
بدقسمتی سے ہمارے مُلک میں عربی کو وہ حیثیت نہیں دی گئی، جس کی یہ مستحق ہے، حالاں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق عربی زبان کی تعلیم وترویج حکومت کی ذمّےداری ہے۔ درحقیقت،عربی وہ زبان ہے، جو دِلوں کو جوڑتی، علم وحکمت اورروحانیت کے دروازے کھولتی ہے۔
لہٰذا اس کی محبّت دِلوں میں اُجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اِسے سیکھیں بلکہ اِس کے ذریعے دُنیا کو ایک مثبت پیغام بھی دیں۔ یوں بھی ہمیں تو اِسے ایک علمی و روحانی وَرثے کے طور پر بھی اپنانا چاہیے کہ اِس سے محبّت ہمارے ایمان کی مضبوطی کی علامت ہے۔