مملکتِ خداداد کے حصول کے لیے برِصغیر کے مسلمانوں نے ایک طویل،صبر آزما جدوجہد کی اور اس کی کام یابی سے ہندو رہنماؤں کو شدید دُکھ پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، روزِ اوّل ہی اِس کےخلاف سازشیں کرتے رہے اور انہی سازشوں، ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں پاکستان 1971ء میں دولخت ہوگیا۔
ہرچند کہ سانحۂ مشرقی پاکستان کی بہت سی وجوہ ہیں، تاہم، بھارت کی جانب سے تمام بین الاقوامی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک آزاد ریاست میں براہِ راست مداخلت اِس کا سب سے بڑا محرّک ہے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی برسوں میں قائدِاعظم محمّد علی جناح نے ہندو، مسلم اتحاد کے لیے سَرتوڑ کوششیں کیں، لیکن ہندو رہنماؤں کی ہٹ دھرمی کےباعث انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس موقعے پر قائدِاعظمؒ کواِس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ مسلمانوں سے اپنی فطری مخاصمت کی وجہ سے ہندو کبھی بھی اُنہیں دل سے قبول نہیں کریں گے۔ اِنہی وجوہ کی بناء پر قائدِاعظمؒ نے دیگر مسلم قائدین کے ساتھ مل کر برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی، جس میں بنگال کے مسلمان پیش پیش تھے۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ڈھاکا میں عمل میں آیا اور 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے، اے کے فضل الحق کا تعلق بھی بنگال سے تھا، جب کہ اس خطّے سے تعلق رکھنے والے دیگر مسلمان رہنماؤں نے بھی تحریکِ آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔
تاہم، قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی و معاشی بُحرانوں کی بنا پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین دُوریاں بڑھتی گئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کی مکمل حمایت حاصل کرتے ہوئے منظرِعام پرآئے۔ انہوں نےعوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے سقوطِ ڈھاکا کی راہ ہم وار کی اور یوں 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا۔
سینئر تجزیہ کار، کمال متین الدّین سقوطِ ڈھاکا سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اِن الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ وہ لوگ، جو تحریکِ پاکستان میں پیش پیش تھے، جن کاعلاقہ غیرمنقسم ہندوستان کا اکثریتی صوبہ تھا اور جن کے پاس مسلم لیگ کی نمایندگی تھی، برسوں بعد ایک ایسے مُلک کو تباہ کرنے پر تُل گئے کہ جس کی تعمیر کے لیے اُنہوں نے خُود بھرپور مدد کی تھی۔‘‘
سانحۂ مشرقی پاکستان کی وجوہ
پاکستان میں پائے جانے والے اندرونی خلفشار (مسلسل سیاسی محاذ آرائی) کی کیفیت نے بھارت کو اُس کے ’’دیرینہ خواب‘‘ کی تعبیر کا موقع فراہم کیا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنی کارروائی تین مراحل میں مکمل کی۔ تخریب کاری، براہِ راست مداخلت اور فوجی تصادم۔ اِن میں سے ہر مرحلے پر بھارت پوری طرح مستعد اور کمربستہ تھا اور اِس ضمن میں اُس نے پاکستان کے معاشی بُحرانوں سے پوری طرح فائدہ اُٹھایا۔
سابق سفارت کار، افراسیاب مہدی قریشی اپنی کتاب، ’’1971ء، سقوطِ ڈھاکا (حقیقت کتنی، فسانہ کتنا)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مطابق بھارت کی مشرقی پاکستان میں ریاست مخالف عناصر کے ساتھ ملی بھگت کی براہِ راست شہادت اُس وقت سامنے آئی کہ جب 1967ء میں اگرتلہ سازش کیس افشا ہوا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی گئی تھی اور شیخ مجیب الرحمٰن اِس سے منسلک ہوگئےتھے۔
بھارت نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں بغاوت منظّم کرنے کے لیے اسلحہ اور مالی امداد دینے کا وعدہ کیا، بلکہ اُس نے یہ ہامی بھی بَھری کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے فضائی اور سمندری راستے بھی بند کردے گا۔ 30 مارچ 1971ء کو بھارتی پارلیمان میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی جنگِ آزادی میں بھارتی عوام کی دِلی ہم دردیاں شامل ہیں۔‘‘
اِسی حوالے سے 26اپریل 2014ء کو ایک انگریزی معاصر میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کرنل (ر) ایم حنیف لکھتے ہیں کہ ’’1971ء میں ابتدائی طور پر پاک فوج امن وامان قائم کرنےکی کوشش کررہی تھی، جب کہ دوسری طرف وہ بھارت کی طرف سے چھیڑی گئی منظّم گوریلا جنگ سے بھی نمٹ رہی تھی اور پھر پاکستان کو مشرقی پاکستان میں براہِ راست بھارتی مداخلت کی بناء پر جنگ لڑنا پڑی۔‘‘
سقوطِ ڈھاکا نہ صرف پاکستان اور بنگلا دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک سبق آموز اور الم ناک داستان ہے اور اس کی ذمّے دار شخصیات میں سے بعض کا تعلق مغربی پاکستان، جب کہ بعض کا مشرقی پاکستان سے تھا۔ عام طور پر سقوطِ ڈھاکا کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین اُس وقت کے صدر یحییٰ خان، ذوالفقارعلی بُھٹّو اور شیخ مجیب الرحمٰن کو اِس سانحے کا ذمّے دار قرار دیتے ہیں۔ تاہم، وہ اُن حالات، سازشوں اور بُحرانوں کا ذکرنہیں کرتے، جو اُس وقت کی قیادت کو درپیش تھے۔
1947ء سے1971ء تک مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) پاکستان کا ایک صوبہ تھا اور اس کا کُل رقبہ صوبۂ سندھ کے برابر تھا۔ تب یہ مشرقی بنگال بھی کہلاتا تھا، جو برطانوی ہند کے پس ماندہ ترین علاقوں میں سے ایک تھا۔ گنجان آباد علاقہ ہونے کے باوجود1947ء تک یہاں کوئی قابلِ ذکر ادارہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی صنعت و حرفت کے مشہور مراکز قائم تھے۔ البتہ مشرقی پاکستان کے باسیوں کو پاکستانی شہری ہونے پرفخر تھا۔ انہیں بابائے قوم، قائدِ اعظمؒ محمّد علی جناح سے بھی اُتنی ہی محبّت تھی، جتنی کہ شیرِبنگال، اے کے فضل الحق سے۔
علاّمہ اقبال اُن کے قومی شاعر اور اسلام آباد وفاقی دارالحکومت تھا۔ اُن کا قومی ترانہ بھی وہی تھا، جو پاکستان کا تھا، مگر جغرافیائی لحاظ سے مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے بالکل الگ تھا۔ مُلک کے دونوں بازوئوں کے درمیان ازلی دُشمن، بھارت کا 1200 میل کا علاقہ حائل تھا۔ مشرقی پاکستان کی سطحِ زمین زیادہ ترسیلابی میدانوں پر مشتمل تھی، جس کے جنوب مشرقی حصّے میں چٹیل پہاڑ تھے۔
اِس خطّے کی آب و ہوا گرم اور مرطوب تھی۔ یہاں سردی اور گرمی کے موسم مختصر، جب کہ موسمِ برسات خاصا طویل تھا۔ بارشیں عموماً اپریل سے اکتوبر تک جاری رہتیں، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان شدید طوفانوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات کی زَد میں رہتا، نتیجتاً زمینی علاقہ فوجی نقل و حرکت کےقابل نہیں رہتا تھا، تو بھارت نےاِسی جغرافیائی تفاوت کافائدہ اُٹھایا۔ مشرقی پاکستان میں پاک افواج کو ایک طرف موسمیاتی مسائل درپیش تھے، تو دوسری طرف بھارت نے پاک آرمی کو ذہنی و جسمانی طور پر تھکا دینے کے لیے ’’مُکتی باہنی‘‘ کا استعمال کیا۔
مُکتی باہنی اور گوریلا فورس
صدیق سالک اپنی کتاب، ’’مَیں نے ڈھاکا ڈُوبتے دیکھا‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’بھارت نے مُکتی باہنی کو تین مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا تھا۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ وہ مشرقی پاکستان میں پھیل کر پاک فوج کےساتھ جھڑپوں کا آغاز کرے، تاکہ پاک فوج اُن کے ساتھ اُلجھ کر حفاظتی اقدامات کے لیے متعلقہ علاقوں میں قید ہوکر رہ جائے۔ دوسرا مقصد گوریلا کارروائیوں کو رفتہ رفتہ تیز کرکے پاکستانی افواج کامورال کم زور کرنا تھا۔
تیسرا مقصد یہ تھا کہ اگر پاکستان اس چھیڑچھاڑسے تنگ آکر کُھلی جنگ پر مجبور ہوجائے، تو مُکتی باہنی بھارت کی باقاعدہ فوج کے لیے مشرقی فیلڈ فورس کا کام انجام دے سکے۔ اِن مقاصد کو سامنے رکھ کر ایک بھارتی جرنیل کی نگرانی میں مُکتی باہنی کو تربیت دی گئی۔ ابتدا میں یہ تربیت چار ہفتوں تک محدود تھی، جس میں تخریبی کارروائیاں کرنے، کمین گاہوں پر گولیاں برسانے، دستی بم پھینکنے اوررائفل چلانے کی مشق کروائی گئی۔
اِس طرح 30 ہزار افراد کو تربیت دے کر ایک منظّم مسلّح فوج تیار کی گئی، جب کہ مزید 70 ہزار افراد کو گوریلا جنگ کی تربیت دے کر مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف مُکتی باہنی کی تخریبی کارروائیوں میں اضافہ ہوا بلکہ دائرۂ کار بھی وسیع تر ہوتا گیا۔ گوریلا فورس کی تعداد ستمبر تک 84 ہزار تک پہنچ گئی۔ بھارت کو اِن شرپسندوں، باغیوں کے لیے ہتھیار اورجنگی سازو سامان حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں، مگر رُوس کے ساتھ ’’معاہدۂ دوستی‘‘ کے بعد یہ مشکل حل ہوگئی۔
اس ضمن میں فنِ حرب سے متعلق ایک مطالعاتی، تجزیاتی ادارےکی رپورٹ کے مطابق، رُوسی حکومت نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ مُکتی باہنی فورس کے لیے مزید ہتھیار دیے جائیں گے، جس کےبعد بھارت کی طرف سے باغیوں کو اسلحے کی سپلائی میں اضافہ کردیا جائے گا۔ دوسری جانب بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے جنگی وسائل خاصے کم تھے۔ پاکستان کے پاس 11000سپورٹنگ عملہ اور 34000 سپاہی تھے، جن کے ذمّے 55126 مربّع میل پر مشتمل ایک ایسے علاقے کا دفاع کرنا تھا کہ جو زیادہ ترگھنے جنگلات پرمشتمل تھا۔
ان نامساعد اور صبرآزما حالات میں بھی پاک افواج نے باغیوں، مُکتی باہنی اور گوریلا فورس کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اہم ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور سب ڈویژنل ہیڈکوارٹرز سمیت تمام بڑے شہروں اورقصبات کومُکتی باہنی سے بھی محفوظ رکھا۔ اِس دوران پاک فوج نے 370 سرحدی چوکیوں میں سے 260 چوکیوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔
پاک افواج کو دھوکا دینے کے لیے باغیوں کے ذریعے سبزی کے تھیلوں میں بارودی مواد ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا، جو عموماً بروقت کارروائی سے پکڑلیا جاتا۔ یاد رہے، پاک فوج کو نہ صرف ایسی تخریبی کارروائیوں کا سامنا تھا بلکہ اس کا مقابلہ مشرقی پاکستان کے سخت ترین موسم سے بھی تھا۔‘‘
پاکستانی عسکری قوّت بمقابلہ بھارتی فوجی طاقت
صدیق سالک اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کی عسکری قوّت بھارتی فوجی طاقت کےمقابلےمیں کافی کم تھی۔ تاہم، اس کے باوجود پاک فوج کے حوصلے بہت بلند تھے۔ بھارت کی آٹھ ڈویژنز فوج مشرقی پاکستان کی سرحدوں پرصف آراتھی، جن میں سے دو ڈویژنز چین کی طرف متعیّن کیے گئے تھے، جنہیں بوقتِ ضرورت مشرقی پاکستان میں استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اِن آٹھ ڈویژنز میں سے دو مغربی بنگال میں تعیّنات تھے، تاکہ وہ حُکم ملنے پر جیسور کی طرف پیش قدمی کرسکیں۔
ہر ڈویژن کے ساتھ ٹینک اور توپ خانہ بھی موجود تھا۔ پاکستانی ٹینکس رات میں استعمال نہیں ہو سکتے تھے، مگر بھارت کے اکثر ٹینکس میں انفراریڈ شیشےنصب تھے، جن کی مدد سے اُنہیں تاریکی میں بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اِسی طرح بعض بھارتی ٹینکس تیر کر رُکاوٹ عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
علاوہ ازیں، بھارت کے پاس معقول تعداد میں بکتربند گاڑیاں تھیں، جن کی مدد سے بیک وقت پلٹنوں کی نفری گولیوں کی بوچھاڑ سے محفوظ رہ کر میدانِ جنگ میں نقل وحرکت کرسکتی تھی۔ بھارت کی فضائی قوّت 10 اسکوارڈرنز پر (ایک اسکوارڈرن میں عموماً 18طیّارے ہوتے ہیں) مشتمل تھی، جس میں مِگ 21، کینبرا(بم بار)، ایس یو7 (لڑاکا بم بار) اور زمینی کمک فراہم کرنے والےطیّارے شامل تھے۔
ان طیّاروں سے پورا پورا فائدہ اُٹھانےکےلیے بھارت نے مشرقی پاکستان کےاردگرد ہوائی اڈّوں کا ایک جال بچھا دیا تھا، جب کہ دریائوں کی رُکاوٹ عبور کرنے کے لیے بار بردار طیّارے اور ہیلی کا پٹر مہیا کیےگئے تھے۔ بھارت کی بحری طاقت میں سب سے قابلِ ذکر اُس کا طیّارہ بردار بحری بیڑہ، ’’وکرانت‘‘ تھا۔ اس میں نگرانی کرنے والے 6 طیّارے، 14سمندری عقاب (لڑاکا طیّارے) اور آب دوزوں کے خلاف استعمال ہونے والے تین سی ہاک طیّارےشامل تھے۔ اِس بیڑے کی حفاظت کے لیے معقول تعداد میں ’’ڈسٹرائرز‘‘ اور ’’فریگیٹ‘‘ طیّارےبھی موجود تھے۔
اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کے پاس چار بڑے جنگی طیّارے(بیاس،برہم پترا، کامورتا اور کرامارتی)، آب دوزیں (نندھاری اورکالواری)، ایک سرنگیں صاف کرنے والا جہاز اور 5 مسلّح کشتیاں (گن بوٹس) تھیں۔ اس برّی، بحری اور فضائی قوّت کے علاوہ اُس کےپاس ایک چھاتا بردار بریگیڈ، تین بریگیڈ گروپس، بارڈر سکیورٹی فورس کی 42پلٹنیں اور ایک لاکھ مُکتی باہنی فورس تھی۔‘‘
’’یہاں بھارت کی صرف اُس عسکری قوّت کا ذکرکیاگیا ہےکہ جو خالصتاً مشرقی پاکستان کے محاذ پرمتعیّن تھی۔ اِس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس (مشرقی پاکستان میں) صرف تین انفینٹری ڈویژن تھے، جو ضروری ساز و سامان سے بھی پوری طرح لیس نہ تھے۔ پاکستان ایئرفورس کا صرف ایک اسکواڈرن ڈھاکا میں تعیّنات تھا، جس میں 16 سیبر طیّارے شامل تھے۔ ہوائی اڈّا بھی ایک ہی تھا، جس کے تباہ ہونے کی صُورت سارے جہاز بےکار ہو سکتےتھے۔
ڈھاکا چھائونی کےشمالی جانب زیرِ تعمیر اڈّا بھی قابلِ استعمال نہیں تھا۔ اگر اُس وقت مزید طیّارے وہاں بھیج بھی دیے جاتے، توہوائی اڈّوں کی کمی کےپیشِ نظراُن کی افادیت مشکوک ہوجاتی۔ ہمارا کُل بحری اثاثہ ایک ریئر ایڈمرل اور چار مسلّح کشتیوں (گن بوٹس) پر مشتمل تھا۔ یہ تھی ہماری کُل دفاعی پوزیشن۔ اِس میں اضافے کے لیے رضا کاروں، مجاہدوں، اسکاؤٹس اور ایسٹ پاکستان سول آرمڈ سورسز (ای پی سی اے ایف) کی نیم عسکری نفری اکٹّھی کی گئی، جس کی کُل تعداد 73 ہزار تھی۔
بلاشُبہ بھارت کے حربی وسائل پاکستان سے زیادہ تھے، مگر افواجِ پاکستان کے جوانوں کے حوصلے بلند تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے بہادر سپاہیوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی بھارت کو آٹھ ماہ تک اِس جنگ میں اُلجھائے رکھا اوراس کے ناپاک عزائم کو کام یاب نہ ہونے دیا۔‘‘
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھارت کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے تو اُس نے 1971ء میں گنگا جہاز کے اغوا کی جھوٹی کہانی گھڑ کر پاکستان کے لیے مشرقی پاکستان جانےکاراستہ بندکیا۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس صرف45 ہزار کے لگ بھگ فوج تھی، جسے چاروں اطراف سے دشمن نے گھیر رکھا تھا اور وہ گوریلا جنگ بھی لڑرہی تھی۔
ایسے میں وہ بھلا کیسے ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کرسکتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ تمام الزامات،جو بھارت کی جانب سے افواجِ پاکستان پرلگائےگئے، غلط ثابت ہوگئے۔ خُود بھارتی مصنّفین اور لکھاریوں نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ مثال کے طور پر شرمیلا بوس اپنی مشہور کتاب، ’’ڈیڈ ریکننگ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’مَرنے والوں کی تعداد میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کے علاوہ حقائق مسخ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
اصل واقعات کومسخ کر کے پیش کیا گیا، تو بعض مثالوں میں ہمارے سامنے کئی مَن گھڑت کہانیاں بھی آئیں، جب کہ کئی مرتبہ آزادی کے حامیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کو بھی دوسرے فریق کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ 19 مارچ کو جوئے دیو پور میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق بنگلا دیشی لٹریچر میں کہا گیا کہ آرمی نے بِلااشتعال اور بِلاامتیاز غیرمسلموں کو نشانہ بنایا، حالاں کہ یہ واقعہ مسلّح افراد کی جانب سے آرمی کو اشتعال دلائے جانے کے بعد رُونما ہوا تھا۔ 24اور 25مارچ کو ڈھاکا یونی ورسٹی آپریشن کے دوران آرمی کی جانب سے طالبات کے ہاسٹل پرحملہ آور ہونے کی جُھوٹی کہانیاں لوگوں تک پہنچائی گئیں۔
یکم اپریل کو جیسورمیں آزادی کے حامی بنگالیوں کی جانب سے مغربی پاکستانی کے سویلینز کو قتل کیے جانےکے واقعے کو بین الاقوامی میڈیا میں اِس طرح ظاہر کیا گیا کہ آرمی نے بنگالی سویلینز کا قتلِ عام کیا تھا۔ ’’دی ٹائمز‘‘ کی 13 دسمبر کی رپورٹ کے مطابق غیر مُلکیوں کے ایک گروپ کو کئی ناکامیوں کے بعد بالآخر ڈھاکا سے کلکتہ کے لیے بہ ذریعہ ہوائی جہازروانہ کیا گیا، کیوں کہ اِس دوران ڈھاکا بھارتی طیّاروں کے حملوں کی زد میں تھا۔
انہوں نے اِس بات کی تصدیق کی کہ چند دن پہلے 500سے 1000پاؤنڈز کے پانچ بم یتیم خانے پر جاگرے، جن کا اصل ہدف 150 گزکے فاصلے پر واقع ریلوے یارڈ تھا۔ اس واقعے میں پاکستانی حُکّام کے مطابق 300 بچّے مارے گئے تھے۔ ایک جرمن ٹیلی ویژن کے کیمرا مین کے مطابق، اُس نے 20لاشیں دیکھی تھیں اور اُسے یقین تھا کہ کئی لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔
اس کےعلاوہ بھی کئی رپورٹس سے پتاچلتاہےکہ بھارتی طیّارے نےاپنے اصل اہداف کی بجائے سویلین آبادی کو نشانہ بنایا۔ ’’دی آبزرور‘‘ کی ڈھاکا ڈائری نارائن گنج کے بارے میں یہ رپورٹ پیش کرتی ہے کہ رات کے وقت بم باری کرتے ہوئے بھارتی ہوا بازوں نے آدھا میل دُور واقع پاوراسٹیشن کی بجائے ایک غریب رہائشی بستی کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں چار سے پانچ سو سویلینز ہلاک ہوگئے، جب کہ 150 شہریوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔
اِس کے علاوہ جہاں آرا امام کے جرنل میں بھی 14 دسمبر کی شدید بم باری کا ذکر ملتا ہے۔ اس دن اُن کے شوہر کی تدفین ہوئی تھی اور پڑوس میں چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔‘‘ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں مشرقی پاکستان کے عوام پر بھارتی مظالم کا ذکر تفصیلاً کیا ہے، جب کہ وہ اُن تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں، جو 1971ء کی جنگ کے دوران پاک فوج پر لگائے گئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا زخم ہے، جوشاید کبھی مندمل نہ ہو سکے۔ بِلاشُبہ ہماری سول و عسکری قیادت سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سقوطِ ڈھاکا کا سارا ملبہ افواجِ پاکستان اور حکومتِ وقت پر ڈال دیا جائے، البتہ ہمیں سانحۂ مشرقی پاکستان سے سبق ضرور سیکھنے کی ضرورت ہے۔
بےشک، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم محرّک بھارتی اور بین الاقوامی سازشیں تھیں، لیکن ہمیں بھی بہرحال اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سےمستقبل میں وطنِ عزیز مضبوط، خوش حال اور مستحکم ہو۔