(گزشتہ سے پیوستہ )
ماڈل ٹائون میں مسعود علی خان کے ساتھ میرا زیادہ وقت گزرا۔ میں تو امریکہ سے ڈیڑھ دو سال بعد ہی واپس پاکستان لوٹ آیا تھا مگر مسعود بیس سال بعد بھی واپس نہ پاکستان آیا۔ ہمارےدوستوں میں ایس طارق بخاری جسے ہم ’’تالے‘‘ کہتے تھے ابھی تک امریکہ میں ہے۔ جنید شاہ امریکہ سے ایمسٹرڈیم چلا گیا تھا اور ابھی تک وہیں ہے مالک امریکہ میں فوت ہو گیا، خالدی امریکہ سے ہانگ کانگ چلا گیا تھا اور اس نے وہیں وفات پائی بہت پیارا عارف جو صنعت کار خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور تبلیغی جماعت سے وابستگی کے باوجود ایک نمبرکا ہنسوڑاتھا وہ ہمارے ساتھ امریکہ نہیں گیا تھا البتہ تبلیغی جماعت کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک تبلیغی گروپس کےساتھ آتا جاتا تھا۔ وہ ایک دفعہ اپنے گروپ کے ساتھ لندن سے پاکستان آ رہا تھا اس کی ڈیوٹی لگی کہ اگلی قیام گاہوں تک جو ملک رستے میں آتے ہیں وہ وہاں پہنچے اور وہاں قیام اور لوگوں سے ملنے کے پیشگی انتظامات کرے۔ عارف جب بوسنیا پہنچا یہاں سربوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا ۔وہ عصر نماز کے لئے ایک مسجد میں گیا سجدے کے دوران اسے ہارٹ اٹیک ہو گیا اور سجدے سے سر نہ اٹھا سکا ۔اسے بوسنیا کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ خالدی نے امریکہ میں ایک چینی عورت سے شادی کی اور امریکہ چھوڑ کر اس کے ساتھ ہانگ کانگ چلا آیا ،میں ان دنوں ناروے میں پاکستان کا سفیر تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ خالدی کا بھی انتقال ہوگیا ہے ،میں نے پاکستان کےہائی کمشنر کو فون پر درخواست کی کہ میرے اس دوست کی تدفین اسلامی طریقے سے کریں ،میں ان کا ساری عمر قرضدار رہوں گا کہ اگلے دن ان کا فون آیا اور بتایا کہ میرے دوست خالدی کی باقاعدہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور مسلمانوں کی معقول تعداد نے اس میں شرکت کی اور ہاں دوسرا تبلیغی دوست منیر احمد شاہ ابھی تک ایمسٹرڈیم میں ہے او رطارق واحد دوست ہے جو امریکہ میں رہ گیا ہے۔ اب صرف مسعود علی خاں ہے جو پاکستان میں ہے اور اسے پاسپیٹیلیٹی اور ٹور ازم کا گرو مانا جاتا ہے ۔ مسعود علی خاں دوستوں کو جمخانے میں کھانے پر مدعو کرتا ہے،جس میں تسنیم نورانی ،جن سے مسعود ہی کی معرفت میری بہت گہری دوستی ہو گئی تھی ،آفتاب عرف اوفی اور دوسرے دو تین شریک ہوتے ہیں۔ شیخ اکبر عالم عرف اکی بھی امریکہ چھوڑ گیا تھا اب وہ لندن اور پاکستان میں وقت گزارتا ہے جب کبھی وہ پاکستان آتا ہے مسعود د وستوں کو اس کی آمد کی اطلاع دیتا ہے اور اس کے بتائے بغیر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک اور ڈنر پکا ہو گیا ہے !مسعود علی خان کے والد میجر اکبر خان تھے اور بظاہر سخت گیر لگتے تھے ۔مسعود کے نانا افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے نہایت خوبصورت اور پرانی روایات کا مجسم نمونہ تھے۔ ابا جی سے ان کے بہت محبت بھرے تعلقات تھے مسعود کی والدہ محترمہ اپنے بیٹوں مسعود اور ڈاڈوسے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ مسعودبیمار ہوا تو میں اس کی بیمار پرسی کے لیے اس کی طرف گیا ۔میں نے دیکھا کہ ہماری آٹنی ایک بکرے کو مسعود کی چارپائی کے گرد سات چکر لگانے پر مجبور کر رہی ہیں مگر وہ قدم اٹھانے سے انکاری ہے، اسے پتہ تھا سات چکر مکمل ہونے پر اس کے ساتھ کیا ہوگا ۔بالآخر میں آگے بڑھا اور بکرے کو پیچھے سے دھکیلتے ہوئےاس سے سات چکر لگوانے میں کامیاب ہو گیا ۔ مسعود کو شعروادب سے بہت لگائو ہے پہلے وہ کبھی کبھی اپنے گھر پر شعری نشست منعقد کیا کرتا تھا اب اس نے اپنے دفتر کی بالائی منزل میں یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے وہاں پر ہر مہینےادب و ثقافت کے حوالے سے ایک محفل منعقد ہوتی ہے کبھی مشاعرہ اور کبھی کسی علمی موضوع پر کسی نامور اسکالر کا لیکچر ۔ادب و ثقافت سے یہ لگائو اسے غالباً اپنے نانا سے وراثت میں ملا تھا ۔جب تک ہماری آنٹی زندہ تھیں ان کےگھر میں فارسی بولی جاتی تھی اب مسعود فارسی سمجھتا تو ہے مگر بولتا نہیں شاید بول سکتا نہیں آنٹی مسعود اور اس کے دوستوں سے بھی بہت پیار کرتی تھیں اللہ انہیں غریق رحمت کرے!
مسعود کا قد چھ فٹ ہے جو چوڑی چکلی چھاتی گورا چٹا رنگ فرفر انگریزی بولنے والا سوٹڈ بوٹڈعالیشان کوٹھی اور کار وغیرہ وغیرہ چنانچہ جب اسے کبھی کوئی رانگ نمبر آ جاتا تو باتوں باتوں میں اسے اپنی یہ ساری خصوصیات بتاتا۔ اس زمانے میں شاید آج بھی یہ سب چیزیں لڑکیوں کو اٹریکٹ کرتی ہیں۔ مسعود کی یہ کارروائی اکثر کامیاب رہتی حتیٰ کہ وہ ’’ذخیرہ اندوز‘‘ بن گیا تھا اس حوالےسے اس پر زکوۃ واجب تھی مگر وہ ان موضوعات پر آتا ہی نہیں تھا اللّٰہ اس کا یہ گناہ معاف کرے ۔مسعود ہم سب دوستوں سے آخر میں امریکہ آیا وہاں میں نے اسے کبھی فون پر کسی لڑکی کو یہ بتاتے نہیں سنا کہ اس کا قد چھ فٹ ہے، گورا چٹا ہے اور اسکے پاس شاندار کار اور گھر ہے کیونکہ وہاں تو سب چھ فٹے تھے ،گورے چٹےتھے اور وہاں تو سب فرفر انگریزی بولتے تھے اور تو اور ہر ایک کے پاس کاربھی تھی وہ تو ان چیزوں سے وہ تنگ آئے ہوتے تھے چنانچہ وہاں مانگ سانولے رنگ کی تھی میرے رنگ کی جو گورا تو ہے مگر ’’چٹا‘‘ نہیں ہے اور یوں مسعود کی افسردگی دیکھی نہ جاتی تھی۔(جاری ہے)