السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
’’بڑا آدمی‘‘ بننا آسان نہیں!!
ستمبر کی اختتامی تاریخوں کا جریدہ زیرِ نظر ہے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی نے مسلمانوں کی اجتماعت کی علامت، بابرکت و مقدس مقام ’’مسجد‘‘ پر عُمدہ مضمون نگاری کی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا اقوامِ متحدہ کے78 ویں اجلاس سے متعلق رقم طراز تھے۔ حسبِ روایت شان دار تجزیہ پیش کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے ’’بزرگوں کے عالمی یوم‘‘ کی مناسبت سے بہترین مضمون لکھا۔
’’گفتگو‘‘ میں مولانا محمّد بشیر فاروق سے تفصیلی بات چیت کی تو کیا ہی بات تھی۔ ٹرسٹ کا مفصّل تعارف حاصل ہوا، تو اہداف و مقاصد بھی واضح ہوگئے۔ ’’اسٹائل‘‘ میں حسبِ معمول، حسبِ روایت آپ کی تحریر خُوب تھی۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ اپنے حالاتِ زندگی بڑی ہی خُوب صُورتی و عُمدگی سے قلم بند کررہے ہیں۔ یقیناً ’’بڑا آدمی‘‘ ایسے ہی نہیں بنا جاتا، ریاضتوں، کاوشوں، آلام و مصائب کی پوری داستان رقم ہوتی ہے۔
بلاشبہ ان کا دیہات کی پس ماندہ زندگی سے شہر کی ترقی یافتہ زندگی تک کا سفر انتہائی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ سلسلے میں مصنف نے مولانا نورالدین کی شاعرانہ عظمتوں کوعُمدگی سے بیان کیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں نعیم احمد ناز نے پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ غلام حیدر وائیں کی زندگی کا مختصراحوال بیان کیا، تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں رضیہ بانو کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے بہت افسردہ کردیا۔ یہ ایک اُن کی بیٹی ہی کی نہیں، جانے ہمارے معاشرے کی کتنی بیٹیوں کی کہانی ہے اور آخر میں بات، قارئین کے تبصروں سے مزیّن ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، تو وہ ہمیشہ کی طرح لاجواب ہی تھا۔ (عائشہ ناصر، کراچی)
ج: آپ بڑے عرصے بعد تشریف لائیں، خیریت تو رہی؟ ویسے اِس ’’خود نوشت‘‘ کے آغاز سے ہمارے کئی چُھوٹے، منہ موڑے قارئین بھی جریدے سے دوبارہ جُڑ رہے ہیں، تو ہمیں اپنے انتخاب اور اشاعت کے فیصلے پر کافی اطمینان محسوس ہورہا ہے۔
چار جمع چار، آٹھ چاند
سرِورق پر مُسکراتی ہوئی ماڈل، پِریا پَریوں سا رُوپ دھارے جلوہ افروز تھی۔ میگزین کو چار جمع چار، آٹھ چاند سے لگےمحسوس ہوئے۔ دُعا ہے، سدا یوں ہی مُسکراتی رہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد مشتاق احمد سیال کی تحریر ’’معلم معاشرے کا انتہائی معزز و مکرم فرد‘‘ پڑھ کے بےحد خوشی ہوئی۔ خصوصاً استاد کی عزت و تکریم کے واقعات بہت پسند آئے۔
’’اصلاحِ معاشرہ میں معلمین کا کردار‘‘ کے عنوان سے طوبیٰ سعید کا مضمون بھی اچھا تھا۔ سامیہ خان کی سینٹرل جیل، کراچی سے متعلق ’’رپورٹ‘‘ معلوماتی ثابت ہوئی۔ ایک کتاب بھی آپ کی خدمت میں بھجوانے کی خواہش ہے، اجازت ہو تو بھیج دوں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: کتاب اگر تبصرے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں، تو اُس کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں اور اگر محض ہمارے مطالعے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں، تواُس کے لیے بھی قطعاً کسی اجازت کی ضرورت نہیں کہ کتاب کا تحفہ تو کوئی بدقسمت ہی قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
کئی یادگار ارشادات
جریدے میں اپنا خط پڑھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ دیگر مضامین کے ساتھ بلوچستان کے سابق وزیرِاعلیٰ نواب محمّد اسلم خان رئیسانی کا ’’انٹرویو‘‘ کافی پسند آیا۔ موصوف کے کئی یادگار ارشادات یاد آگئے۔ ویسےوحید زہیر کی کاوشیں قابلِ صد ستائش ہیں۔ بلوچستان ہی سے عبدالستار ترین کا مضمون ’’رابطے بڑھیں گے، تب ہی شکوے کم ہوں گے۔‘‘ عُمدہ کاوش تھی۔ آپ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مضمون بھی ارسال کررہا ہوں۔ اُمید ہے، جلد شائع فرما دیں گی۔ (ڈاکٹر محمّد سکندر جانگڑا، کراچی)
ج: آپ کے مضمون کی باری خط سے قبل ہی آگئی تھی۔ اُمید ہے، آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہوگا۔
ہاتھوں ہاتھ لیا
کچھ ہی عرصہ ہوا، ’’سنڈے میگزین‘‘ باقاعدگی سے پڑھنا شروع کیا ہے۔ گرچہ مطالعہ تو بچپن سے پسندیدہ مشغلہ ہے کہ ابّوجی گھر میں بچّوں کے بہت سے رسائل لے کرآتے تھے۔ اُن کی گھر واپسی پر بس مجھےسامان چیک کرنے ہی کی فکر ہوتی تھی کہ کوئی میگزین وغیرہ آیا یا نہیں۔ تھوڑی بڑی ہوئی، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ پڑھنے شروع کیے، اخبارات میں بھی سیاسی و سماجی و فنی جو مضمون مل جاتا، پڑھ ڈالتی۔ کبھی کبھار ’’سنڈے میگزین‘‘ بھی پڑھا۔ پھر قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئی۔ بہرحال، کچھ عرصہ پہلے بھائی ایک ساتھ دو تین ’’سنڈے میگزین‘‘ لے کر آیا، مَیں نے ہاتھوں ہاتھ لیےکہ ایک عرصے بعد کچھ پڑھنے کو ملا تھا۔
پھر بھائی سے پوچھا کہ ہفتہ وار لائوگے؟ تو اس کاجواب ’’ہاں‘‘ میں پا کردلی خوشی ہوئی اور تب سے مَیں اور میری بہن باقاعدگی سے جریدے کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ مَیں نے آج تک پڑھا تو بہت کچھ ہے، لیکن قلم پہلی بار اُٹھایا ہے۔ ہاں، سب سےپہلےاُن خاتون کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی، جنہوں نے اگست کے شمارے میں خصوصی طور پر آپ کی خامیوں، خُوبیوں سے پردہ اٹھانے کے لیے یوں محنت کی، جیسے کوئی مقدس فریضہ ہو، جب کہ اُن کا طرزِ تخاطب بھی انتہائی گستاخانہ تھا۔ معذرت خواہ ہوں، شاید مَیں موضوع سے ہٹ گئی ہوں۔
خیر، جریدہ بہت پسند آرہا ہے۔ خاص طور پر اپنے پیاروں سے متعلق تحریریں پڑھ کے تو بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ اسی سلسلے کے لیے مَیں بھی ایک تحریر بھیج رہی ہوں، اگر قابلِ اشاعت ہو تو شائع فرما دیجیے گا۔ (بنتِ ارشد محمود، محلہ شیرو، وزیرآباد)
ج: اِس دورِ ابتلا میں کہ جب برسوں پرانے قارئین بھی ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں، ’’سنڈے میگزین‘‘ سے کچھ نئے لوگوں کی وابستگی کا جان کر دلی خوشی ہوئی۔ آپ کی تحریر متعلقہ صفحہ انچارج کے سپرد کردی ہے۔ قابلِ اشاعت ہوئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ باری آنے پر شائع ہو جائے گی۔
جریدے کا دل، ماتھے کا جھومر
’’سنڈےمیگزین‘‘ کا خُوب صُورت ٹائٹل، عُمدہ سُرخی ’’رنگ ہی رنگ، خوشبو ہی خوشبو…‘‘ دیکھ کر اچھا لگا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا حسن نصراللہ کے بعد خطّے کی صورتِ حال میں آنے والی ڈرامائی تبدیلیوں کا جائزہ بہت ہی مدلّل تھا۔ ’’گفتگو‘‘ میں سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، نواب محمّد اسلم خان رئیسانی سے وحید زہیر کی بات چیت کافی دل چسپ تھی۔
’’سنڈے اسپیشل‘‘میں سلیم اللہ صدیقی نے ’’دائروں میں سفر کرتی پاکستانی معیشت کے75 سال‘‘ پر فکرانگیز رپورٹ تیار کی۔ ’’فیشن‘‘ کے حسین و رنگین صفحات کو تو سنڈے میگزین کا دل کہنا چاہیے۔ قارئین کے لیے اِن صفحات میں دل کشی کا بڑا پہلو آپ کا شان دار رائٹ اپ ہوتا ہے، جو ہر بار ایک نئی ہی ندرت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔
پاکستان پولیس سروس کے رول ماڈل، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی دل چسپ انداز میں رواں دواں ہے۔ ’’متفرق‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ اور’’نئی کتابیں‘‘ سلسلے بھی معلومات افزا رہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ یعنی خط و کتابت کےساتھ آپس کی گفت و شنید کا صفحہ تو گویا جریدے کے ماتھے کا جُھومر ہے۔ (صدیق فنکار، عسکری اسٹریٹ، جھاورہ کینٹ، راول پنڈی)
دو دھاری تلوار سی خودنوشت
سورج نامہ (سنڈے میگزین) چمکا تو ہمارا چہرہ دمکا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ روزِ روشن کی طرح عیاں تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مسجد سے متعلق ثانی صاحب کی تحریر کا تو واقعتاً کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ ڈیپریشن اور ورم سے متعلق مضامین معلوماتی ثابت ہوئے۔ عرفی شیرازی سے متعلق حسن عباسی کی تحریر احسن تھی۔
عشرت جہاں کا ’’ڈنک‘‘ بھی پسند آیا۔ ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ واصل عثمانی نے بہت خُوب صُورت مثال پیش کی۔ چیمہ صاحب کی دو دھاری تلوار سی ’’خود نوشت‘‘ خُوب ہی لُطف دے رہی ہے۔ ویسے بلوچستان سے خاصے اچھے مضامین اور انٹرویوز پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ اِس صوبے کے لوگ درحقیقت بہت محنتی ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا ہر ایک خط اور خطوط کے جوابات سب لاجواب تھے۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج:جہاں تک ہمارا تجربہ ہے، محنتی و مشقّتی یا ہڈ حرام/ نکھٹو ہونے کےلیے، کسی مخصوص علاقے، صوبے سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔ ہر جگہ، ہرقسم کی مخلوق پائی جاسکتی ہے۔ اصل مسئلہ فطرت میں موجود عزت و غیرت یا بے شرمی و ڈھٹائی جیسے عناصر کا ہے کہ جو فطرتاً نکمّا ہو، وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی چلا جائے، نکمّا ہی رہے گا۔
وارے نیارے ہوجائیں
سرِورق پر ماڈل کی فسوں طرازی دیکھتے آگے بڑھ گئے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی ’’مسجد کی اہمیت و افادیت اور اتحاد ویگانگت کی علامت‘‘ کے موضوع دوسری قسط لائے۔ بےشک، دنیا کےتمام مذاہب میں یہ خصوصیت صرف ہماری مساجد ہی کو حاصل ہے کہ اِن میں کسی رنگ و نسل اور طبقاتی تقسیم کے بغیر سب مساوات کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، جنرل اسمبلی کی ’’نشستند گفتند برخاستند‘‘ کی رُوداد سُنارہے تھے۔
اِس بےکار، بے مصرف جنرل اسمبلی سے تو اچھا ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں تقریر کرلی جائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر معاشرے کے معزز بزرگ افراد کو خصوصی عزت وتکریم دینےکی تلقین کرتے نظر آئے۔ منور راجپوت نے سیلانی ٹرسٹ کے بانی، مولانا بشیر فاروق قادری سے اُن کے فلاحی امور سے متعلق تفصیلاً ’’گفتگو‘‘ کی۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایٹریٹر صاحبہ نے مشہور فلسطینی شاعر، محمود درویش کاقول نقل کیا اور پھر مزید وضاحت کے لیےثروت زہرہ کی معروف نظم ’’مَیں خُود کو کہاں بھول آئی؟‘‘ گوش گزار کی۔ حسبِ روایت منفرد تحریر تھی۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار چیمہ کی داستانِ حیات پڑھ رہے ہیں، اور سَر دھن رہے ہیں۔
اے کاش! ہمارا ہر پولیس افسر ایسا ہی ذمّےدار و باکردار ہوجائے، تو قوم کے تو وارے نیارے ہوجائیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات الم ناک تھے اور ہمارے باغ و بہار صفحے میں اعزازی چٹھی کی مسند پر جاوید اقبال فائز دکھائی دیے، مگر آپ کےجواب سے محروم ہی رہے۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: ہر پولیس افسر ایسا ہوجاتا، تو یہ ’’خود نوشت‘‘ چھاپنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور بہت سے نامے خُود اپنی ذات میں مکمل، لاجواب ہوتے ہیں، تو اُن کے لیے کسی جواب کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
فی امان للہ
آج قریباً تین ماہ بعد قلم سے دوبارہ رشتہ جوڑا ہے۔ اسماء خان دمڑ کی ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کے جواب میں آپ کا یہ کہنا کہ ’’تمہاری واپسی نے روک لیا، وگرنہ ہم اِس سلسلے سے جان چُھڑوانے کی نیّت باندھ ہی چُکے تھے۔‘‘ ہمارا دل دھڑکا گیا۔ ساتھ یہ یقین بھی آگیا کہ کسی کا ایک میٹھا، مہکتا بول بھی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر سکتا ہے۔ سو، بلوچستان کی شہزادی، اسماء خان دمڑ سے گزارش ہے کہ پلیز، آتی جاتی رہا کریں تاکہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے خاندان کے ہم سب افراد یوں ہی ہنستے مُسکراتے، اپنے اپنے غم، خوشیاں ایک دوسرے سے بانٹتے رہیں۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں ریڈار قلم کے مالک، منور مرزا ایران، اسرائیل کے مابین نیا محاذ کُھلنے سے پورے خطّے کی خطرناک صورتِ حال کا معاملہ زیرِبحث لائے اور یہ باور کروایا کہ اسرائیل، جسے امریکااور مغرب کی مکمل حمایت حاصل ہے، اِس کے خلاف مسلم اُمّہ کی یک جہتی بھی ناگزیر ہے۔ چیف آف ساراوان، سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، نواب محّمد اسلم خان رئیسانی سے وحید زہیر کی تلخ وشیریں گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ عوام کو فوری فیصلے اور انصاف چاہیے۔
قانون کے نام پر لُوٹ مار، تضحیک اور وقت کی بربادی اب قبول نہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی کا قلمی شہہ پارے ’’دائروں میں سفر کرتی پاکستانی معیشت کے75 سال‘‘ کا آخری جملہ حُکم رانوں کے لیے کسی طمانچے سے کم نہ تھا کہ ’’پالیسی سازوں نے جن مسائل سے نکلنے کی اُمید پر نج کاری کا آغاز کیا تھا، وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہو کر سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ماڈل عائشہ عائش کا شُوٹ اور اُس پر لفظ لفظ موتی مالا سی تحریر نے تو گویا رنگ ہی رنگ، خوشبوئیں خوشبوئیں بکھیر دیں۔
’’خودنوشت‘‘ میں گفتار اور کردار کے غازی اور جوانوں کے لیے رول ماڈل، پولیس آفیسر ذوالفقاراحمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی پڑھنا بڑا ہی سحر آگیں تجربہ ہے۔ اُنہوں نے ’’حُور‘‘ کا ذکر جس دل چسپ پیرائے میں کیا، پڑھ کے لُطف آگیا۔ واقعی بچپن کی یادیں، گزری بہاریں زندگی کا بہترین سرمایہ ہوتی ہیں۔ ’’رابطے بڑھیں گے، تب ہی شکوے، گلے کم ہوں گے۔‘‘
عبدالستار ترین، اوستہ محمّد سے دلوں کو محبّت کے بانڈ سے جوڑنے کی خاطر شہد میں بھیگے الفاظ سے باور کروا رہے تھے کہ ’’دل، خدا کا گھر ہے، اِس میں نفرتیں نہیں، محبتیں بھریں۔‘‘ اور بلاشبہ جس روز’’عام آدمی‘‘ انسان بن گیا، معاشرے سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک سب ٹھیک ہوجائے گا۔ محمد عمر اسرار کے دل سے نکلے شاہ کار الفاظ واقعی صد فی صد درست تھے۔ ’’ہیروں پر سرمایہ کاری‘‘ جیسے مفید مضمون پر محمّد کاشف لائقِ تحسین ہیں۔
’’ناقابلِ اشاعت نگارشات برائے صفحہ متفرق، صفحہ ڈائجسٹ اور ناقابل اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار‘‘ سب کو سلام۔ لگے رہو بھائی، آسمان تمہاری حد ہے، یہ تو صرف پہلا قدم ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘میں فاطمہ شکیل کی کاوش ’’فرضِ عین‘‘ لاجواب تھی کہ سب سے بڑا رشتہ احساس ہی کا ہوتاہے۔ سحر ملتانی کی غزل بھی ہر بھلے انسان کے دل کی آواز لگی۔ نئی کتابوں پر پرانے قلم کاراختر سعیدی کا تبصرہ کمال تھا۔
ہر کتاب کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ پوری کتاب کا خلاصہ سمجھ آجاتا ہے۔ اور جناب! اب آپہنچے ہیں، سنڈے میگزین کی جان، یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر۔ اسماء خان دمڑ آئیں اور چھائیں۔ رونق افروز برقی، ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، سید زاہد علی اور راقم کے کھٹے میٹھے خطوط بھی ستاروں کی مانند دمک رہے تھے۔ دونوں جہاں کامالک، ہم سب کوآسانیاں بانٹنے، محبّتیں، خوشیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)
ج: آمین، ثم آمین۔
* میگزین میں سب سے پہلے ہجرتِ نبویﷺ پہ شان دار تحریر پڑھی۔ چین کے مُون مشن پہ پاکستانی پرچم کی تصویر دیکھ کے دل خوش ہوگیا۔ ’’ابوالقاسم طوسی‘‘ سے متعلق پڑھا۔ بہت حیرانی ہوئی کہ محض شعر وشاعری پر اس قدر عزت واکرام اور انعام۔ ’’اسٹائل‘‘ پہ اِس بار حضرات چھائے ہوئے تھے، پر تحریر ہمیشہ کی طرح لاجواب تھی، حالاں کہ ماڈلز ایویں ہی سے تھے۔
ضیاالحق 2 دن کے لیے آسٹریلیا گئے اور پورا سفرنامہ لکھ ڈالا۔ واہ بھئی، ویسے اُن کی کمرپہ دونوں ہاتھ رکھے تصویر دیکھ کے تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ کیا یہ وہی ضیاءالحق ہیں، جو’’آپ کا صفحہ‘‘ میں لکھتے ہیں؟ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ’’شیشہ دل‘‘ بہت پسند آیا۔
ہاں، میگزین میں دو تین جگہ ہندی کے الفاظ دیکھ کے دُکھ ہوا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نواب زادہ ملک کا خط پڑھ کے تو لوٹ پوٹ ہی ہوگئی۔ آپ پلیز، اسٹائل کے لیے ان کا ایک شوٹ کروا لیں۔ اور ہاں، صابرہ رفیق کاخط پڑھ کے تو خون ہی کھول گیا کہ آخری جملوں میں تو وہ’’تم‘‘ہی پراُتر آئیں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: نہیں، یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ والےضیا الحق بالکل نہیں ہیں۔ اور دو دن میں آسٹریلیا گھوم کے کمر پر ہاتھ تو آہی سکتا ہے۔
* مَیں نے سب سے پہلے جنگ، سنڈے میگزین ہی سےلکھنا شروع کیا بلکہ آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی بھی کی، تو اِسی سبب آگے بڑھنے کی ہمّت بھی ہوئی۔ پہلے مَیں آپ کو بذریعہ ڈاک تحریر ارسال کرتی تھی، پھر زیادہ وقت قطر میں بیٹے کے پاس گزرنے لگا، تو سلسلہ موقوف ہوگیا۔
اب پاکستان ہی میں ہی ہوتی ہوں۔ آپ کےای میل ایڈریس پرتین چارتحریریں ارسال کرچُکی ہوں، لیکن ایک بھی شائع نہیں ہوئی، نہ ہی آپ نے کسی ای میل کاجواب دیا۔ کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ مجھے تحریر شائع نہ ہونے سے زیادہ دُکھ اس بات کا ہے کہ آپ جواب سے بھی نہیں نوازتیں۔ (افروز عنایت)
ج : افروز صاحبہ! بات یہ ہے کہ ذاتی طور پر کسی کو بھی ای میل کا جواب نہیں دیا جاتا۔ تمام ترخطوط، ای میلز جریدے کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ اور چوں کہ تمام تر تحریریں باری آنے ہی پر قابلِ اشاعت ٹھہرتی ہیں، تو آپ کی ای میل کی باری ہی اب آئی ہے۔ اور کسی بھی لکھاری، قاری سے بھلا ہماری ناراضی کا کیا سوال، ہم یہ جریدہ اپنے گھر سے تھوڑا نکالتے ہیں کہ یہاں کسی سے کوئی ذاتی پرخاش رکھیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk