عارف چانڈیو
اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا۔ ’’شاید وہ دفتر میں مصروف ہو یا کسی ٹی پارٹی میں… مگر مَیں تو پورا سال اِسی دن کے انتظار ہی میں گزارتا ہوں، شاید آ ج کا دن وقت سے کچھ پہلے آگیا ہے۔‘‘ وہ اکیلا بوڑھا، بیٹے کے آنے کے انتظار میں کمرے میں گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچے جا رہا تھا۔
’’وقت تیزی سے گزر رہا ہے، خُوب صُورت لمحے وقت کی قید میں اپنی زینت کھوچُکے ہیں۔ یادیں جیسے کسی کھنڈر میں گم ہوگئی ہیں اوروقت نے زندگی کی لہروں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اے کاش! مَیں وقت کے بہاؤ کو روک سکوں، اِسے قید کر لوں، اپنے ماضی میں جا سکوں۔‘‘ بوڑھا سوچے ہی چلا جا رہا تھا۔
’’آج میرا جنم دن ہے، آج تو اُسے آنا چاہیے تھا، عُمر کے اِس حصّے میں شاید اب کوئی اپنا نہیں رہا۔ مجھے اِتنا نہیں جینا چاہیے تھا، شاید اب میں صرف ایک لائبلٹی ہوں۔ ہاں، مجھے کافی پہلے مر جانا چاہیے تھا۔‘‘ اور… یہ سوچتے سوچتے ہی بوڑھا کرسی پر ایک طرف ڈھے گیا۔