• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شعبہ ریاضی میں کمال حاصل تھا،  پوری زندگی ریاضی کے اصولوں کے مطابق ہی گزاری
شعبہ ریاضی میں کمال حاصل تھا، پوری زندگی ریاضی کے اصولوں کے مطابق ہی گزاری

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہمارے خاندان کی دو شخصیات میری خالہ ناز اور اُن کے شوہر یعنی میرے خالو، پروفیسر پرویز اقبال خاندان کا قیمتی سرمایہ تھے۔ اگرچہ آج دونوں ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر اپنی بےلوث پُرخلوص محبّت کی بدولت ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میرے خالو، علم ریاضی کے ماہر تھے اور ہیر، رانجھا کے شہر، جھنگ میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ 

وہ 13اپریل 1950کو پنجاب کے شہر ،فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ایم ایس سی، ریاضی اور ایم اے اکنامکس مکمل کرنے کے بعد لاہور منتقل ہوگئے،جہاں مختلف اکیڈمیز، ٹیوشن سینٹرز اور اسکولز میں تدریسی فرائض انجام دیں۔ 1980ء میں ہماری خالہ، شہنازبیگم سے شادی کے فوری بعد ہی اُن کا گورنمنٹ کالج، جھنگ میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوگیا، تو مستقل طور پرجھنگ منتقل ہوگئے۔ 

وہاں بھی تدریس کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔ دن رات تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے باوجود بیوی، بچّوں کے لیے بہترین انسان ثابت ہوئے۔ ہاری خالہ بھی سیلقہ شعار، دین دار اور بہت ہی صابر وشاکر خاتون تھیں۔ دونوں نے اپنے اپنے انداز سے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیئے۔ خالو سے تعلیم حاصل کرنے والے سیکڑوں طلبہ آج مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کے کام یاب اور بہترین افراد کے پیچھے عموماً اعلیٰ کردار و اخلاق کے حامل والدین اور اساتذہ ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ہمارے خالو ایک بارعب اور پُروقار شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نرم دل بھی تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے مکمل پابند، غریبوں کی دل کھول کر مدد کرنے والے۔ گھر کے ملازمین کو بہت عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ اُنھوں نے اپنی پوری زندگی ریاضی کے اصولوں کے تحت ہی گزاری۔ نفرتیں تفریق کیں، تو محبّت، امن اور رواداری جمع، ضرب اور تقسیم کی۔ جو بھی اُن کے گھر جاتا، بہت سی یادیں اور اَن گنت محبّتیں سمیٹ کر لوٹتا۔ 

دورانِ ملازمت ہی وہ شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا شکار ہوگئے تھے، لاہور سے دل کابائی پاس کروانے کے بعد جھنگ شہر کو مستقل اپنا مسکن بنالیا اور سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک خُوب صُورت گھر تعمیر کرواکے وہیں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ گھر کے احاطے میں ایک لائبریری بھی قائم کی، جہاں مختلف موضوعات، خصوصاً سائنسی موضوعات پر لاتعداد کتب موجود ہیں، جن سے آج بھی طلبا و طالبات خوب استفادہ کرتے ہیں۔ اُن کی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، تو اپنی شاگر لڑکیوں ہی کو اپنی بیٹیاں کہتے۔

16فروری 2016کو ہماری پیاری خالہ شہناز بیگم کے اچانک انتقال پر وہ ٹوٹ کر رہ گئے۔ تاہم، حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس دوران ریاضی کی متعدد کتب بھی تصنیف کیں، مگر آخرکار 24نومبر2020ء کو 70برس کی عمرمیں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ پاک میرے خالو اور خالہ کے درجات بُلند فرمائے ۔ (طوبیٰ سعید، لاہور)