اسرائیلی وزیراعظم نیتن ہایو کا کہنا ہے کہ شام سے تنازع میں اسرائیل کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیلی کارروائیاں شام سے اسرائیل کو ممکنہ خطرات سے بچانے اور اسرائیل کے ساتھ سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے بننے سے روکنے کے لیے ہیں۔
خیال رہے کہ چند دن قبل ہی اسرائیلی فوج نے گولان کی پہاڑیوں پر قائم ایک غیر فوجی بفر زون سمیت شام کی سرحدی حدود میں موجود چند اہم پوزیشنز پر یہ کہتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اسرائیل کی جانب سے اٹھایا گیا ایک عارضی اقدام ہے۔
اب گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادی کی تعداد دگنی کرنے کے خواہش مند اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے شام سے چھینی ہوئی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادکاری میں توسیع کا منصوبہ بنا لیا اور منصوبے پر عمل درآمد کے لیے انہوں نے اسرائیلی حکومت سے منظوری بھی لے لی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وہی گولان کی پہاڑیاں ہے جن پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا۔
گولان کی پہاڑیاں جنوب مغربی شام سے لے کر شمال مشرقی اسرائیل تک پھیلی ہوئی ہیں اور فی الحال ان پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔
1967ء میں ہونے والی 6 روزہ جنگ کے دوران شامی افواج نے گولان کی پہاڑیوں سے ہی اسرائیل پر حملہ کیا تھا تاہم اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ناصرف اس حملے کو پسپا کیا بلکہ اس علاقے کے تقریباً 1200 مربع کل ومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔
شام نے 1973ء کی مشرقِ وسطیٰ جنگ (یومِ کپور) کے دوران گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہا تھا۔
بعد ازاں 1974ء میں شام اور اسرائیل نے ایک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج کو گولان کی 80 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف سے انخلاء کی ضرورت تھی اور اس علاقے کو ’ایریا آف سیپریشن‘ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد سے اقوامِ متحدہ کا ’ڈس انگیجمنٹ آبزرور فورس‘ نامی یونٹ اس معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کے سلسلے میں وہاں موجود ہے، تاہم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1981ء میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنی جانب کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور یہودی آباد کاروں نے وہاں گھر بنانا شروع کر دیے۔
اس علاقے پر اسرائیل کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تاہم 2019ء میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس ضمن میں سابقہ امریکی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اس علاقے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا تھا۔
شام کا مؤقف یہ ہے کہ وہ آئندہ اسرائیل کے ساتھ اُس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں کرے گا جب تک وہ گولان کے پورے خطے سے انخلاء نہیں کرتا۔
نومبر 2024ء میں شام اور اقوامِ متحدہ نے شکایات کی تھیں کہ اسرائیل بفر زون کے قریب اور بعض مقامات پر اس کے اندر خندقیں کھود رہا ہے۔
اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں میں دلچسپی کیوں؟
شام کا دارالحکومت دمشق گولان کی پہاڑیوں سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں کی بلندی سے دمشق سمیت جنوبی شام کے زیادہ تر حصے واضح دکھائی دیتے ہیں۔
اس جغرافیے کی وجہ سے اسرائیل کو یہ مقام شامی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک بہترین جگہ فراہم کرتا ہے۔
ان پہاڑیوں پر کنٹرول اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فوجی حملے کے خلاف قدرتی بفر فراہم کرتا ہے، جیسا کہ 1973ء کی جنگ کے دوران ہوا تھا۔
دوسری جانب اس خطے میں زیادہ تر زمین بنجر ہے جبکہ گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
ان پہاڑیوں کی بلندیوں سے بہہ کر نیچے آنے والا بارش کا پانی دریائے اردن میں داخل ہوتا ہے، جس کی بدولت اس دریا کے اِرد گرد کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ یہاں انگور اور دیگر پھلوں کے باغات پنپتے ہیں جبکہ یہ زمین مویشیوں کے لیے چراگاہیں بھی فراہم کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ایک وقت تھا جب گولان کی پہاڑیوں پر مکمل طور پر شام کا اختیار تھا، اس وقت شام 1948ء سے 1967ء کے دوران شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرنے کے لیے باقاعدگی سے توپ خانے کا استعمال کرتا تھا۔
ماضی میں شام اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شام کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اسرائیل 1967ء سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جائے اور قبضہ کیے گئے علاقے کو مکمل خالی کر دے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو شام کو بحیرۂ طبریا کے مشرقی ساحل کا کنٹرول مل جائے گا اور اسرائیل تازہ پانی کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہو جائے گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد مزید مشرق کی جانب ہونی چاہیے تاکہ خطہ اہم ذرائع اور وسائل سے محروم نہ ہو سکے۔
اسرائیل میں رائے عامہ یہی ہے کہ اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ حکمتِ عملی کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے کہ اسے واپس نہ کیا جائے۔