• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے آئی ماڈلز اپنے ہی تخلیق کاروں کو دھمکیاں دینے لگے

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

دنیا کے جدید ترین اے آئی ماڈلز جھوٹ بولنا اور دھوکہ دہی کرنا سیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ اب اپنے ہی تخلیق کاروں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھمکیاں بھی دینے لگے ہیں۔

حال ہی میں کلاڈ 4 ماڈل نے ایک انجینئر کو اس کے ایکسٹرا میریٹل افیئر کو ظاہر کرنے کی دھمکی دے کر بلیک میل کیا تھا۔

اسی طرح اوپن اے آئی کے ماڈل (O1) نے خود کو بیرونی سرورز پر ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر رکنے سے انکار کردیا۔

یہ واقعات آرٹیفیشل اینٹیلیجنس کی اس سنجیدہ حقیقت کو اُجاگر کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی کو لانچ کرکے دنیا کو ہلا کر رکھ دینے کے 2 سال بعد بھی اے آئی کے محققین ابھی تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھے کہ ان کی اپنی تخلیق کی ہوئی مصنوعات کیسے کام کرتی ہیں؟

اس کے باوجود بھی طاقتور ماڈلز تخلیق کرنے کی دوڑ انتہائی تیز رفتاری سے جاری ہے۔

یہ فریب دینے والا رویہ ’ریزننگ‘ ماڈلز اے آئی سسٹمز کے ظہور سے منسلک دکھائی دیتا ہے جو فوری ردعمل پیدا کرنے کے بجائے مرحلہ وار مسائل سے گزر کر کام کرتے ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن گولڈسٹین کا کہنا ہے کہ اے آئی کے نئے ماڈلز خاص طور پر اس طرح کے پریشان کن اشتعال کا شکار ہیں۔

اپولو ریسرچ کے سربراہ ماریئس ہوبھہن نے وضاحت کی کہ ’O1‘ پہلا بڑا ماڈل تھا جس کے ہم نے اس قسم کے رویے کو دیکھا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ صارفین رپورٹ کر رہے ہیں کہ ماڈلز ان سے جھوٹ بول رہے ہیں اور ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

فی الحال اے آئی ماڈلز کا یہ فریب دینے والا رویہ صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب محققین جان بوجھ کر انتہائی حالات کے ساتھ ماڈلز پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

تشخیصی تنظیم ایم ای ٹی آر کے ممبر مائیکل چن کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آیا مستقبل میں زیادہ قابل ماڈلز ایمانداری سے کام کریں گے یا دھوکہ دہی کریں گے۔

اے آئی ماڈلز کے بارے میں سامنے آنے والا یہ چیلنج محدود تحقیقی وسائل کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔

اس حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ اے آئی ماڈلز کے لیے مزید تحقیق اور قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ ضابطے ان نئے مسائل کے حل کے لیے کافی نہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید