یہ بات ہمیشہ حیران کرتی تھی کہ گھر میں دادا اور ان کی سب اولاد قد کاٹھ ، خدوخال اور رنگ روپ میں ہیٹے تھے لیکن دادی کا قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا اور رنگ میدہ شہابی تھا۔ ایک کم عمر بچہ کیسے جانتا کہ دادی ایک یتیم کشمیرن بچی تھی جو حالات کی نامعلوم موجوں پر بہتی مشرقی پنجاب میں لدھیانہ تک آئی تھیں۔ گرمیوں کی شاموں میں چھت پر پانی کا چھڑکائو ہو جاتا تھا۔ دادی کے کانوں کی بالیاں تو 47 کے فسادات میں کہیں کھو گئی تھیں مگر کانوں کی لو میں وہ موتیے کے پھول ٹکا لیتی تھیں۔ آپ کا نیاز مند چند برس کا رہا ہو گا۔ دادی ہر شام ایک کہانی سناتی تھیں۔ یہ المیہ کہانی مٹی کے اس گڈے نے اتنی بار سنی کہ اس کا تاثر ذات میں اتر گیا۔ تفصیلات تو اب کیا یاد ہوں گی۔ قصہ یہ تھا کہ چھ بھائیوں نے ایک بہن کو قتل کر کے زمین میں گاڑ دیا تھا جہاں بیری کا ایک درخت اگ آیا تھا۔ کوئی مسافر اس درخت کے بیر توڑنا چاہتا تو ایک نسوانی آواز سنائی دیتی تھی کہ بھائیوں نے بے قصور بہن کو قتل کیوں کیا۔ تب پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی تحریک نہیں چلی تھی اور مطالعہ پاکستان پڑھنے والے نیم خواندہ لمڈوں نے ابھی فیمنسٹ کو حرف دشنام کے طور پر نہیں جانا تھا۔ عورت کی مظلومیت اور بھائیوں کی جہالت آمیز بے غیرتی میرے احساس کا حصہ بن گئی۔
ماں جی 7 مارچ 1975ء کو رخصت ہوئیں۔ نصف صدی گزر گئی۔ ہم نے عورتوں کے حقوق کا سبق اہل یورپ اور ان کے مقامی خوشہ چینوں سے نہیں سیکھا۔ ہماری مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں سے ناانصافی کی تلخی ہمارے خون کا حصہ ہے۔ آج یہ قصہ یوں یاد آیا کہ ان دنوں مدرسوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک مسودہ قانون صدر پاکستان کی میز پہ رکھا ہے۔ صدر مملکت کو اختیار ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو اپنی آئینی بصیرت کے مطابق پارلیمنٹ کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ اس میں اڑچن یہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر سیاسی منظر کے شائی لاک کرداروں نے عدلیہ پر پارلیمان کی بالادستی کے دستوری سوالات پر اتفاق کے بدلے میں ہمارے جسد اجتماعی کے ایک اور پارچے کا سودا کرتے ہوئے مذہبی مدارس کی رجسٹریشن کے ایک غیر متعلقہ قانون کا مطالبہ کیا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ 2002ء سے مذہبی مدرسوں کی رجسٹریشن کا قضیہ وجہ نزاع ہے۔ علما حضرات کو یہ قبول نہیں کہ مذہبی مدارس کے بندوبست، نصاب اور انتظامی معاملات میں ریاست کو دخل ہو۔ یہ مدارس خود کو تعلیمی ادارے قرار دیتے ہیں لیکن انہیں سررشتہ تعلیم سے تعلق قبول نہیں۔ اب انہیں 1860ء کے غیر حکومتی اداروں کے قانون سے شغف ہو رہا ہے۔ 1860ء کا یہ وہی قانون ہے جسے 1985ء سے 2002ء تک رگیدتے ہوئے پاکستان میں سول سوسائٹی کا مردہ خراب کیا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1985ء میں جب سیاسی جماعتیں مفلوج کی جا چکی تھیں تو 1860ء کے قانون کے تحت رجسٹر ہونے والی این جی اوز ہی نے ہر اس معاملے پر آواز اٹھائی جو اس وقت کی مقتدرہ اور ملائوں کے پہلو میں کانٹے کی طرح چبھتا تھا۔ ان این جی اوز نے عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کی مخالفت کی۔ جداگانہ انتخاب کی مخالفت کی۔ اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین کی مزاحمت کی۔ قومی شناختی کارڈ پر مذہبی شناخت کے خلاف آواز اٹھائی۔ توہین مذہب کے قوانین کی بھرپور مخالفت کی۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سینہ سپر ہوئیں۔ کم عمری کی شادی اور گھریلو تشدد کی نشان دہی کی۔ جبراً تبدیلی مذہب سے دست پنجہ کیا۔ جمہوریت سے کھلواڑ کی دو ٹوک مزاحمت کی۔ اس زمانے میں نام نہاد مقتدرہ اور شریک جرم مذہبی قبیلے میں ان کہا اتحاد تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر مسلح جتھے جہادی مشقیں کرتے تھے۔ سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان تھیں اور شہری مفاد کا سوال اٹھانے والوں کو ملک دشمن اور بیرونی ایجنٹ قرار دیا کرتی تھیں۔ پاکستان کے بارے میں ایک محاورہ ٹھیک سے منطبق ہوتا ہے۔ ’جیسا ضلع ہے ویسا اے ایس آئی ہے‘۔ اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف روشن خیالی کی عبا اوڑھ کر نمودار ہوئے توچند مستثنیات کے سوا سول سوسائٹی کا طبقہ اشرافیہ جمہوری مبادیات کے تمام اصول فراموش کر کے آمریت کی گود میں جا بیٹھا۔ پاکستان میں سول سوسائٹی عملی طور پر ختم ہو گئی۔ مکتب شہر میں جو بچا تھا اسے ای اے ڈی (اکنامک افیئر ڈویژن) کی توپ سے باندھ دیا گیا۔ تب کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ 1860ء کے رجسٹریشن ایکٹ میں فائن آرٹس اور تمدنی شعور کی تعلیم بھی شامل ہے۔ آج پاکستان کے مذہبی پیشوائوں کو 1860ء کے رجسٹریشن ایکٹ سے شغف ہو رہا ہے۔ خود کو تعلیمی ادارے قرار دینے والوں کو محکمہ تعلیم کی بجائے محکمہ صنعت سے وابستگی کی ہوک اٹھ رہی ہے۔ پرانے زمانے میں فلمی دنیا کے لوگ اپنے شعبے کو صنعت قرار دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ تو ٹیکس سے بچنا چاہتے تھے۔ آج 1860ء کے ایکٹ سے محبت جتانے والے دراصل جانتے ہیں کہ مذہب فروشی ان کی صنعت ہے۔ انہیں یاد دلانا چاہیے کہ پارلیمنٹ کے بند اجلاس میں شجاع پاشا نے کس مذہبی رہنما کا نام لے کر لیبیا اور عراق سے ملنے والی مالی مدد کا اشارہ کیا تھا۔ مقام تعجب ہے کہ مذہبی پیشوائوں کی رہنما تگڈم اپنے مدارس کو فرقہ وارانہ تعلیم سے پاک کرنے کا عہد کرنا چاہتی ہے۔ یہ نہیں بتاتے کہ اگر یہ مدرسے فرقہ وارانہ شناخت سے ماورا ہیں تو ایک ہی مذہب کے مدارس سے تعلق رکھنے والے وفاق کی تعداد ایک سے زیادہ کیوں ہے۔ پاکستان میں کون سا مذہبی مدرسہ ہے جو فرقہ وارانہ شناخت سے ماورا ہے۔ کون سا مذہبی مدرسہ ہے جہاں بچوں پر جسمانی اور ناقابل اشاعت تشدد نہیں ہوتا۔ کون سا مدرسہ ہے جس کی لائبریری میں قابل اعتراض کتب موجود نہیں ہیں۔ صدر مملکت سے اختلاف کے بہت سے زاویے ممکن ہیں لیکن پاکستان کے دستوری ارتقا میں کسی آئینی ترمیم سے غیر متعلقہ مذہبی قانون سازی منسلک کرنا پاکستان کے مذہبی پیشوائوں کا قدیمی ایجنڈا ہے اور پاکستان کے ہر جمہوری شہری کا فرض ہے کہ اس قومی ریاست کو ایک معمول کی ریاست بنانے کے لیے ہر نوع کی مذہبی بلیک میلنگ کی بھرپور مخالفت کی جائے۔
(مذکورہ بالاتحریر کالم نویس کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ،کوئی صاحب مدلل انداز میں اس کا جواب دینا چاہیں تو ہمارےصفحات حاضر ہیں )