• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 مئی کے شرپسندوں سے کل تک اعلان لاتعلقی، آج اظہار قبولیت!

پاکستان تحریک انصاف کے ماضی کا غیر سیاسی رویہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حکومت اور پی-ٹی-آئی کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی پی-ٹی-آئی کو اس میں کوئی دلچسپی ہے لیکن تحریک انصاف کے بانی کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے لچک کی وجوہات سے سب آگاہ ہیں جبکہ حکومت نے بھی اپنی شرائط پر مذاکرات کرنے کا اشارہ دے دیاہے۔اس کی بنیادی وجہ ملٹری کورٹس میں عمران خان کے خلاف 9 مئی کے مقدمات کی سماعت کو رکوانا ہے جس کا امکان معروضی حالات میں ممکن دکھائی نہیں ہے کیونکہ عمران خان ہروقت طاقت کے زور پر اقتدار کے نشے میں رہتے ہیں اور ہر حال میں اقتدار حاصل کرنے کے نظریہ کے تحت غلط فیصلے کر جاتے ہیں جو ان کی جمہوریت کے نام پر آمرانہ سوچ کو پوری قوت کے ساتھ آشکار کرتا ہے جس کی وجہ سے عوامی طاقت رکھنے کے باوجود جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور وہ ہر بار نیا یوٹرن لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جمہوریت کے روپ میں آمریت کے نظریہ کے تحت انہیں اپنا ’’مقصد‘‘ حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔سیاسی نکتہ چینوں کا خیال ہے سیاست میں عمران خان کی ناکامی کی بنیادی وجہ ان کی منفی سوچ ہے جس کی بنیاد پر قائم نظریہ کے ذریعے’’اپنا مقصد‘‘ حاصل کرنے کے لئے نوجوان نسل کو ایک مشن کے تحت گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلنا ہے جو ایک بڑے’’قومی سانحہ‘‘ کی صورت میں ملک کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔اس مرحلہ پر عمران خان کو اس وقت سیاسی دھچکہ لگا ہے جب مولانا فضل الرحمٰن نے بھی عمران خان کے نامناسب سیاسی رویے کو بھانپتے ہوئے اپنا سیاسی قبلہ درست کر لیا اور پی-ٹی-آئی کے ساتھ الحاق ختم کرتے ہوئےاپنی سیاست خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سلیم صافی کے پروگرام’’جرگہ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے زیرلب تحریک انصاف کی سیاست پر’’اظہار ناپسندیدگی‘‘کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں تحریک انصاف کی جانب سے ملاقات کی کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورتحال سامنے آئی تو سوچیں گے کہ اس ملاقات کے مقاصد کے علاوہ سیاسی مفادات اور نقصانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ادھر 9مئی کی بغاوت یا بلوئوں میں ملوث تحریک انصاف کے شرپسندوں کی جانب سے فوج اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد گرفتار کئے جانے والوں کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے 25افراد کو سزائیں ہوئیں۔ان سزاؤں کو تحریک انصاف کی قیادت نے مسترد کرتے ہوئے فوجی عدالت کے فیصلوں کو اعلیٰ سول عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔بعض ذرائع کا کہنا ہے فوجی عدالتوں کی جانب سے شرپسند عناصر کی سزاؤں کا یہ پہلا مرحلہ ہے جبکہ اگلے مراحل میں اس سازش کے ماسٹر مائنڈز اور اس پر عملدرآمد کرانے کےمنصوبہ سازوں کو سزائیں دی جائیں گی جن میں بانی پی-ٹی-آئی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔امن پسند سیاسی پارٹیاں فوجی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کو مسترد کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ان سزاؤں پر ردعمل ظاہر کرنے والے وہی ہیں جن کا بیانیہ تھا کہ انتشار پھیلانے اور فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں سے تحریک انصاف کا کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے ان شرپسندوں سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہاتھا ان واقعات میں ملوث شرپسندوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر تحریک انصاف کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور اب تحریک انصاف کے وہی قائدین سزائیں پانے والوں کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔اس مرحلے پر جب پی-ٹی-آئی کی قیادت سزاؤں سے بچنے کے لئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے سول نافرمانی کا شوشا شروع کرنے کی دھمکیوں میں اضافہ کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ چیئرمین پی-ٹی-آئی بیرسٹر گوہر خان حکومتی اور پارلیمانی نمائندوں سے رابطے اور راہ و رسم بڑھانے میں مصروف رہے اور انجام کار وزیر اعظم نے اس شرط کے ساتھ مذاکرات کے دوران قومی مفادات مدنظر رکھا جائے،حکومت کی جانب سے مذاکرات میں حصہ والی بھاری بھرکم ٹیم کا اعلان کردیا اورا سپیکر قومی اسمبلی نے فریقین کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئین اور قانون کا سختی سے اطلاق اور سزا و جزا کا مضبوط تصور اور اس پر بلا امتیاز عملدرآمد قومی استحکام اور سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ عام شہری یا سیاسی کارکن پر تمام قوانین کا اطلاق کرکے سزائیں دی جائیں اور بغاوت اور سول نافرمانی کا اعلان کرنے والی قیادت کو غیر ملکی دباؤ کے خوف سے’’حقیقی آزادی‘‘ کے تحت بے لگام چھوڑ کر ملک کی عملی تباہی کے اسباب اور مواقع مہیا کئے جائیں۔

تازہ ترین