• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فطری طو رپر ہر شخص اپنی زندگی میںہر جگہ اور ہر کام میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ آج کی نئی نسل بھی ایسی کامیابی چاہتی ہے جو اسے زندگی کی تمام مالی مشکلات سے نجات دیدے۔ آج میں نئی نسل کودنیاوی کامیابی کی صرف ایک داستان سناتا ہوں۔ نیٹ فلکس کا بانی ریڈ 8 اکتوبر 1960ء کی ایک سرد صبح کو بوسٹن میں واقع ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوا۔جس کا اصل نام ’’ریڈ ہیسٹنگز‘‘ رکھا گیا۔ اس کے والد ایک وکیل تھے، جو نکسن انتظامیہ میں کام کرتے تھے، جبکہ اس کی والدہ ایک معزز خاندان کی چشم و چراغ تھیں، لیکن انہوں نے سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ ریڈ کے والدین نے اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معاشرتی ذمہ داریوںکو ادا کرنے کی تعلیم و تربیت دی۔ریڈ نے ابتدائی تعلیم ایک مقامی اسکول میں حاصل کی، وہ ریاضی کے مسائل کو حل کرنے کا شوق رکھتا تھا۔ اسکول میں ریاضی کے پیچیدہ سوالات حل کرنے کے دوران ریڈ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک دن دنیا کی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ کمپنی کا بانی ہوگا۔مزید تعلیم کیلئے ریڈ نے باؤڈین کالج میں داخلہ لیا اور 1983ء میں ریاضی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، لیکن ریڈ کا دل صرف کتابوں میں نہیں لگتا تھا۔ وہ زندگی کے حقیقی تجربات کا متلاشی تھا۔ یہی تلاش اسے ’’پیس کور‘‘ کے ذریعے سوازی لینڈ لے گئی، جہاں اس نے دو سال ایک دیہی اسکول میں ریاضی کا مضمون پڑھایا۔ اس دوران وہ نہ صرف سادہ زندگی کا لطف اٹھاتا رہا، بلکہ اس نے غربت، محرومی اور زندگی کی اصل حقیقتوں کو قریب سے دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ ریڈ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ جب آپ صرف دس ڈالر کے ساتھ افریقہ کا سفر کر سکتے ہیں تو کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں لگتا۔ یہی تجربہ اس کی کاروباری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ بنا۔پیِس کور سے واپسی کے بعد ریڈ نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز مکمل کیا۔ اب وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں کچھ بڑا کرنے کیلئے تیار تھا۔ اس کا پہلا کام ’’ایڈاپٹو ٹیکنالوجی‘‘ میں تھا، جہاں اس نے سافٹ ویئر کی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے ایک آلہ تیار کیا۔ 1991ء میں ریڈ نے اپنی پہلی کمپنی ’’پیور سافٹ ویئر‘‘ قائم کی۔ یہ کمپنی تیزی سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگی، لیکن اس کیساتھ ہی ریڈ کو احساس ہوا کہ کامیاب ہونے کیلئے محض ذہانت کافی نہیں، بلکہ ٹیم ورک اور قیادت بھی ضروری ہے، وہ خود کو مطلوبہ صلاحیتوں اور مہارتوں میں کم پاتا تھا، اس لیے اس نے اپنے بورڈ سے درخواست کی کہ کسی اور کو سی ای او بنا دیا جائے، لیکن بورڈ نہیں مانا۔ جس پر ریڈ نے کمپنی چلانے کیلئے درکار مہارتوں اور خصوصیات کو سیکھنے کیلئے کافی محنت کی، یوں وہ ایک مضبوط کاروباری شخصیت بن گیا۔ 1997ء میں ریڈ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا آئیڈیا آیا، جب وہ ایک دن ویڈیو اسٹور سےایک ڈاکومنٹری فلم کو تاخیر سے واپس کرنے پر 40 ڈالر کا جرمانہ ادا کر کے واپس آ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ڈاکومنٹریز اور فلموں کو کرائے پر دینے کا ایک بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔ اسی سوچ نے ’’نیٹ فلکس‘‘ کو جنم دیا۔ ریڈ اور اس کے ساتھی مارک رینڈولف نے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھی، جہاں لوگ آن لائن ڈی وی ڈیز آرڈر کر سکتے تھے، جو میل کے ذریعے ان کے گھر پہنچائی جاتی تھیں، لیکن یہ تو شروعات تھیں۔2007 ء میں ریڈ نے ایک غیرمعمولی فیصلہ کیا۔ اس نے نیٹ فلکس کو ڈی وی ڈی سے آن لائن اسٹریمنگ پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایک رسکی قدم تھا، کیونکہ اس وقت انٹرنیٹ کی رفتار اور صارفین کی دلچسپی محدود تھی، لیکن ریڈ کا وژن تھا کہ ایک دن لوگ ڈاکومنٹریز اور شوز دیکھنے کیلئے ٹی وی اور کیبل کے بجائے انٹرنیٹ کو ترجیح دیں گے۔شروع میں یہ تبدیلی آسان نہیں تھی۔ نیٹ فلکس کو بڑی کمپنیوں جیسے بلاک بسٹر سے سخت مقابلہ کرنا پڑا، لیکن ریڈ نے کبھی ہار نہیں مانی۔ وہ جانتا تھا کہ مستقبل انٹرنیٹ کا ہے، اور اس نے اپنی ٹیم کو حوصلہ دیا کہ وہ جدید ٹیکنالوجیز پر کام کرے۔2013ء میں نیٹ فلکس نے اپنا پہلا اوریجنل شو ’’ہاؤس آف کارڈز‘‘ ریلیز کیا، جو ایک زبردست کامیابی ثابت ہوا۔ ریڈ نے اپنی قیادت میں نیٹ فلکس کو صرف ایک کمپنی نہیں، بلکہ ایک عالمی ادارہ بنا دیا، یہی وجہ ہے کہ یہ کمپنی فورچون 500 میں 117ویں اور فوربز گلوبل 2000ء میں 219ویں نمبر پر آگئی۔ فروری 2022 ء کے مطابق نیٹ فلکس مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا انٹرٹینمنٹ اور میڈیا ادارہ ہے۔ ریڈ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کا وژن اور پیش بینی تھی۔ وہ مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور خطرے مول لینے سے گھبراتا نہیں تھا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں، جو کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے کیلئے ناگزیر ہیں، کیونکہ آپ کو روزانہ کئی بار فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں رسک اٹھانا پڑتا ہے، اگر آپ اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کیلئے پیش بینی، فیصلہ سازی اور رسک لینے کی مہارتوںمیں طاق ہونا پڑے گا۔اور پھر مستقل مزاجی کیساتھ انتھک محنت کرنا پڑے گی۔کیا نئی جنریشن اس کیلئے تیار ہے؟؟

تازہ ترین