ایک منٹ کیلئے فرض کریں کہ کسی صبح آپ بیدار ہوں اور کافکا کے کردار گریگر سیمسا کی طرح آپ کی جُون بدلی ہوئی ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ گریگر سیمسا تو ایک عجیب الخلقت کیڑے میں تبدیل ہو گیا تھا سو اُس کا تصور کرنا قدرے مشکل ہے، البتہ اگر کسی شخص میں دوسرے انسان کی روح حلول کر جائے تو کیا ہو، یعنی اِس کایا کلپ کے بعد اُس شخص کے خیالات میں کیا تبدیلی واقع ہوگی؟ ظاہر ہے کہ وہ پہلے کی طرح برتاؤ نہیں کرے گا بلکہ وہ اُس انسان کی نقل بن جائے گا جس کی روح اُس میں حلول کر گئی ہوگی۔ اِس بات کو یوں سوچیں کہ ایک شخص سرمایہ دار ہے مگر ایک صبح جب وہ بستر سے اٹھتا ہے تو اُس میں مزدور کی روح حلول کر چکی ہوتی ہے، ایسی حالت میں جب وہ اپنے کارخانے جائے گا تو اُس کا رویہ اپنے کاریگروں اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ یکسر تبدیل ہو گا اور وہ مزدوروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرے گا۔ اِسی مثال کو تھوڑا سا تبدیل کرکے کسی اور شخص پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں کسی مدرسے کے مُعلّم میں ایک لبرل شخص کی روح حلول کر جائے تو کیا اگلے روز مدرسے کا ماحول بدلا ہوا ہو گا؟ میرا خیال ہے کہ ماحول یکسر تبدیل ہوگا لیکن کس حد تک، یہ بات میں آپ کی پروازِ تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ مدعا فقط اتنا ہے کہ دنیا میں کسی دوسرے شخص کا نقطہ نظر سمجھنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ اُس دوسرے بندے کی روح کو ہی ’متبنّٰی‘ کر لیں، آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ وہ شخص آپ سے مختلف کیوں سوچتا ہے!
سترہویں صدی کا مشہور فلسفی جان لاک اِس سے بھی آگے کی کوڑی لایا، اُس نے کہا کہ ہم اِس دنیا کو اپنے جن حواس کی بنیاد پر دیکھتے، پرکھتے اور محسوس کرتے ہیں اگر وہ حواس ہی تبدیل ہو جائیں تو کیا ہو؟ کیا اُس صورت میں بھی یہ دنیا ہمیں ایسی ہی لگے گی جیسی اِس وقت ہے؟ یعنی اگر دنیا کی مادی حالت ایسی ہی رہے جیسی فی الوقت ہے اور فقط ہمارے حواس تبدیل ہو جائیں تو کیا اِس سے ’ہماری نظر میں‘ خارجی دنیا بدل جائے گی یا محض ہمیں ایسا لگے گاکہ دنیا بدل گئی ہے؟ خدا بھلا کرے اِن فلسفیوں کا، اچھی خاصی سادہ سی بات کو اِس قدر پیچیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ بندہ ڈور کا سِرا تلاش کرتا ہی رہ جاتا ہے! اب جان لاک کی اسی بات کو لے لیں کہ خارجی دنیا کا علم ہمیں حواس کے ذریعے ہوتا ہے، اور فرض کریں کہ گریگر سیمسا کی جُون تبدیل نہ ہوتی بلکہ فقط اُس کی حِسِیّات بدل جاتیں تو اُس صورت میں اُس کا رویہ کیسا ہوتا؟ ظاہر ہے کہ اُس صورت میں وہ اپنی خارجی دنیا کا مشاہدہ بالکل مختلف نظر سے کرتا جبکہ اُس کے اردگرد کے لوگوں کو کوئی فرق ہی محسوس نہ ہوتا۔ آج اگر انسانی نسل نئے سرے سے شروع ہو اور اُس کی حِسِیّات وہ نہ ہوں جو اِس وقت ہیں بلکہ کچھ اور ہوں تو خارجی دنیا کے بارے میں انسانوں کا فہم یکسر بدل جائے گا۔ ’کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور۔‘ ہم میں سے اکثر لوگ کبھی نہ کبھی ماہر امراضِ چشم کے پاس ضرور گئے ہوں گے، آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے وہ اکثر ہمیں مختلف عینکیں پہناتے ہیں جس کی مدد سے ہم اپنے سامنے آویزاں چارٹ پر حروف پڑھتے ہیں، کوئی عینک ایسی ہوتی ہے کہ ہمیں دھندلا نظر آنے لگتا ہے اور کوئی چشمہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں بالکل صاف دکھائی دیتا ہے، اُسی لمحے ہم پُکار اُٹھتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے۔ اِس دنیا کو دیکھنے کیلئے البتہ ہمارے پاس ایک ہی عینک ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ عینک ہمارے چہرے پر نہیں ہے بلکہ In built ہے، اسی لیے ہمیں یہ دنیا ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی ہماری ’عینک‘ ہمیں دکھاتی ہے۔ آج اگر کسی وجہ سے ہماری یہ عینک بدل جائے تو ہماری دنیا بھی بدل جائے گی، اور عین ممکن ہے کہ نئی عینک لگانے کے بعد ہمیں پتا چلے کہ یہ دنیا سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی بلکہ اصل میں یہ کسی کیلئے جنت ہے اور کسی کیلئے جہنم! یہ بات ہضم کرنا ذرا مشکل ہے تاہم اِس کا امکان موجود ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ اب تک میں تمہید ہی باندھ رہا ہوں۔ نہ آج تک کسی کی جُون بدلی ہے اور نہ ہماری حِسِیّات، پھر ایسے مفروضوں کا کیا فائدہ؟ ایسے مفروضوں کا فائدہ ہوتا ہے، انہیں Thought Experiment کہتے ہیں، آئن اسٹائن نے عمومی نظریہ اضافیت ایسے ہی تجربے کی بنیاد پر پیش کیا تھا۔ اُس نے فرض کیا تھا کہ اگر آپ کسی اُڑن کھٹولے میں 9.8 میٹر فی سیکنڈ اسکوائر کی رفتار سے اوپر خلا کی جانب سفر کر رہے ہوں تو اُس کیفیت میں اور زمین پر ساکت کیفیت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا کیونکہ کشش ثقل بھی ہمیں اِسی رفتار/ قوت کے ساتھ زمین کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے ورنہ ہم خلا میں ہی معلق رہیں۔ یہی وہ Thought Experiment تھا جس کی بنیاد پر آئن اسٹائن نے خم دار زمان و مکان (Curved Space Time) کا تصور دیا اور بعد ازاں یہ بھی ثابت کیا کہ اگر کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے کسی واقعے کا مشاہدہ، دو ناظر، بیک وقت مختلف مقامات سے کریں تو دونوں کے نزدیک اُس واقعےکا وقت اور مقام مختلف ہو گا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ’اپنی اپنی جگہ درست‘ ہوں گے۔ ’بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔‘
یہ ہے وہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اور جہاں کوئی بھی بات حتمی نہیں۔ لیکن کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بدی کو بدی کہنا چھوڑ دیں کیونکہ عین ممکن ہے کسی اور کی نظر میں وہ بدی نہ ہو؟ نہیں۔ اچھائی اور برائی کا پیمانہ کافکا کے افسانے، جان لاک کی تصوراتی دنیا اور آئن اسٹائن کے زمان و مکان میں بھی تبدیل نہیں ہوتا، مُتبدّل صرف ہماری رائے ہوتی ہے جو ہم اِس دنیا میں اپنی حِسِیّات کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اپنی محدود عقل اور حواس کے بل بوتے پر ہم اِس قدر تیقن کے ساتھ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے کائنات کی تمام تر سچائی ہم نے پا لی ہے اور اب ہمیں یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ اُس ’سچائی‘ کو دوسروں پر مسلط کر دیں۔ 93 ارب نوری سال پر محیط اِس کائنات میں تیقن کے ساتھ اپنی بات کو سچ کہنا اور اُس سچ پر اصرار کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور اِس کیلئے جو اعتماد چاہیے وہ، بقول یوسفی صاحب، عموماً انجام سے بے خبر سٹّے بازوں کے چہروں پر ہوتا ہے۔ کم ازکم یہ فقیر اِس اعتماد سے محروم ہے۔ ہم تو دیکھتے رہتے ہیں کہ کیا گزرتی ہے قطرے پہ گُہَر ہونے تک!