• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! 1971کے سانحہ مشرقی پاکستان کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ڈھاکہ میں بھی شیخ مجیب خاندان سے ہٹ کر جو بھی حکومت آئی اس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کیا ۔80کی دہائی میں پاکستان میں ضیاء الحق اور بنگلہ دیش میں ضیاء الرحمن کا دور حکومت دونوں ممالک کے درمیان بہترین تعلقات کا عہد کہا جاسکتا ہے ،بعد ازاں جنرل ارشاد اور خالدہ ضیاء حکومت بھی پاکستان کے ساتھ اچھے روابط میں رہی۔ دونوں ملک 1971کے سانحہ کو بھلا کر ایک دوسرے کو بطور خود مختار ملک قبول کر کے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنے کا کامیاب تجربہ رکھتے ہیں۔ دونوں جانب کے عوام میں بھی ایک دوسرے کیلئے محبت اور یگا نگت اسی درجہ کی موجود ہے جس طرح کہ کسی خاندان کے 2بھائیوں میں گھر کا بٹوارہ ہو جانے کے بعد انسیت اور محبت قائم رہتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ شیخ مجیب کا خاندان بنگلہ دیش سے زیادہ بھارت کا وفادار ثابت ہوا ہے۔ 1971میں بھارتی اشیر باد پر تباہی مچانے والے مجیب کی بیٹی حسینہ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کے خلاف یک طرفہ معاندانہ اقدامات کا سلسلہ شروع کیا اور بنگلہ دیش کو عملاً بھارت کا غلام بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیشی عوام نے حسینہ کو اقتدار سے باہر کیا اور شیخ مجیب کی ہر نشانی کو کھرچ کر مٹا دیا۔ پاکستان نے ہمیشہ کی طرح بنگلہ دیشی قوم کے اس فیصلے کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ اس کا احترام بھی کیا۔ ابھی حال ہی میں D-8سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف اور عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان قاہر ہ میں ملاقات میں بڑا بریک تھرو ہو گیا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا ۔بنگلہ دیش نے پاکستان سے آنے والے سامان کے 100فیصد فزیکل معائنہ کی شرط، ایئر پورٹ پر پاکستانی مسافروں کی جانچ پڑتال کیلئے قائم خصوصی سیکورٹی ڈیسک اور ویزے کیلئے اضافی کلیئرنس کی شرط کو ختم کر دیا ہے۔ ڈاکٹر یونس سے ملاقات میں دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت ،عوام کے درمیان رابطوں، ثقافتی تبادلوں اور اقتصادی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت اور کیمیکلز، سیمنٹ کلینکرز، آلات جراحی، لیدر مصنوعات اور آئی ٹی سیکٹر جیسے شعبوں میں تجارت کو فروغ دینے کیلئے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ وزیر اعظم نے پاکستان کے سلسلے میں بنگلہ دیشی اقدامات پر ڈاکٹر محمد یونس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے بات چیت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ 1971سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، یہ مسائل بار بار سامنے آ رہے ہیں، آئیں مل کر انہیں حل کریں اور آگے بڑھیں، ہماری اولین ترجیح ہے کہ سارک کو بحال کیا جائے، فوری طور پر اس کا اجلاس بلایا جائے، چاہے یہ فوٹو سیشن ہی کیوں نہ ہو۔ ڈاکٹر محمد یونس ماہر معیشت اور ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے عالمی سطح پر احترام سے دیکھے جاتے ہیں، پاکستان میں بھی ان کا احترام پایا جاتا ہے، ماضی میں پاکستان سے ان کی یادیں جڑی ہیں، ان کی جانب سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو معمول کے 2دوست ممالک کے تعلقات کی سطح پر لانے کی خاطر معاندانہ اقدامات کا خاتمہ مستحسن اقدام ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کل بھی ایک تھے، آج بھی ایک ہیں، جس طرح 2الگ گھروں میں رہتے بھائی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے، اسی طرح 2آزاد خود مختار ممالک کے طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ آج بھی ہماری منفعت ایک ہے اور ہمارا نقصان بھی ایک ،ہمارے ہیرو، ہمارے اسلاف، ہمارا ورثہ اور تاریخ بھی ایک ہیں اور اسی طرح ہمارا دشمن بھی ایک یعنی بھارت ہے۔ دونوں ملک بیٹھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعاون پر مشتمل تعلقات اور باہمی تعاون کو فروغ دیں تو دفاع سے اکانومی اور خارجہ امور تک ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور ہاتھ مضبوط کرنے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے قبل مشترکہ پاکستان میں مشرق کا مغرب اور مغرب کا مشرق سے دفاع کا جو ڈاکٹرائن اس وقت اختیار نہ کیا جا سکا، وہ 2آزاد ممالک کے طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش آج اختیار کرلیں تو پاکستان اور بنگلہ دیش چکی کے 2پاٹ ہوں گے جو مودی کے خونیں عزائم کو کچل ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور بھارت کو جرأت نہیں ہو گی کہ وہ ڈھاکہ پر میلی نظر بھی ڈال سکے۔ شہباز شریف اور ڈاکٹر یونس کی ملاقات اچھی شروعات ہے، اسے خواہشات اور تمنائوں سے آگے معاہدات میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کو چاہئے کہ جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں اور باہمی تعاون کے راستے تلاش کر کے ان پر عمل در آمد کا آغاز کریں۔ میاں شہباز شریف نے ڈی ایٹ کانفرنس کے موقع پر ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے سربراہانِ حکومت و مملکت سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ انہوں نے ترک صدر اردوان اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات میں باہمی تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا۔ اس موقع پر دونوں سربراہان نے باہمی تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق امور پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر انڈونیشیا کے صدر سوبیانتو سے بھی ملاقات کی اور انہیں صدر کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ دونوں رہنمائوں نے باہمی تعلقات، سیاسی، تجارتی اور اقتصادی امور پر تعاون اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور دوطرفہ روابط برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ وزیر اعظم نے انڈونیشیا کے صدر کو پاکستان کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔

تازہ ترین